• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

کتاب گاڑی: خانہ بدوش بچوں کی تعلیم و تفریح کا ذریعہ

ڈیجیٹل اور سوشل میڈیا کے اس عہد میں جہاں نسلِ نو میں مطالعے کا ذوق و شوق مفقود ہوتا جا رہا ہے، وہیں کتاب اور حرفِ مطبوعہ سے محبّت کرنے والوں کی طرف سے کُتب بینی کے فروغ کی مُہم بھی جاری ہے۔ یاد رہے، مطالعہ جہاں ہمارے اذہان میں وسعت پیدا کرتا ہے، وہیں کُتب ہمیں جینے کا سلیقہ بھی سکھاتی ہیں۔ 

اس ضمن میں محکمۂ اسکول ایجوکیشن، جنوبی پنجاب نے پس ماندہ علاقوں کے بچّوں کو کتاب اور کُتب بینی کی اہمیت سے آگاہ کرنے کے لیے ’’ادارۂ تعلیم و آگہی پاکستان‘‘ کے اشتراک سے ’’کتاب گاڑی‘‘ کا منصوبہ شروع کیا ہے، جس کے تحت ان بچّوں کی تخلیقی صلاحیتوں کو پروان چڑھایا جا رہا ہے۔ منصوبے کے پہلے مرحلے میں ’’کتاب گاڑی‘‘ کے ذریعے ملتان کی غریب بستیوں میں خانہ بدوش اور جھگی نشین بچّوں کو تربیت یافتہ اساتذہ کی رہنمائی میں تعلیم، تفریح اور تربیت فراہم کرنے کی کاوشیں جاری ہیں۔

پاکستان کے دیگر شہروں کے برعکس جنوبی پنجاب کے عوام کے لیے کتاب گاڑی کا تصوّر نیا اور اچھوتا ہے۔ اپنی نوعیت، ماہیت اور دائرۂ کار کے حوالے سے یہ موبائل لرننگ لائبریری، عام کُتب خانوں سے قطعاً مختلف ہے۔ دل کَش مصوّری اور کارٹونز سے آراستہ کتاب گاڑی اندر سے بھی اُتنی ہی جاذبِ نظر ہے، جتنی کہ باہر سے۔ یہ خُود اپنے ننّھے مُنّے قارئین کے پاس پہنچتی ہے اور جب مختلف گلی کُوچوں سے گزرتی ہے، تو بچّے اسے بہت ہی انہماک سے دیکھتے ہیں، یہاں تک کہ یہ کسی جگہ رُکتی ہے، تو بچّے اِسے چہار اطراف سے گھیر لیتے ہیں۔ 

عام طور پر غریب بستیوں اور پس ماندہ علاقوں میں کتاب گاڑی کو کسی درخت کی چھاؤں میں کھڑا کر دیا جاتا ہے۔ پھر کتاب گاڑی کا عملہ گاڑی میں رکھی ہوئی چٹائیاں نکال کر اُسی جگہ بچھا دیتا ہے اور پھر بچّوں کی دل چسپی کے مطابق ان کو کُتب فراہم کی جاتی ہیں۔ موبائل لرننگ لائبریری کا یہ منصوبہ پلے گروپ اور نرسری جماعت کے بچّوں کے چہروں پر مسکراہٹیں بکھیرنے کے ساتھ علم اور نِت نئے آئیڈیاز کے فروغ کا موثر ذریعہ ہے۔

محکمۂ اسکول ایجوکیشن، جنوبی پنجاب کی سیکشن آفیسر، بریحہ زینب کتاب گاڑی کے حوالے سے تمام معاملات اور انتظامی امورکی نگرانی کر رہی ہیں اور اس منصوبے کی فوکل پرسن ہیں۔ اُن کے مطابق، 28اپریل 2023ء کو محکمۂ اسکول ایجوکیشن، جنوبی پنجاب نے ادارۂ تعلیم و آگہی، پاکستان کے اشتراک سے ملتان میں پہلی مرتبہ لرننگ فیسٹیول کا آغاز کیا۔ 

علم و آگہی، کتاب دوستی اور نِت نئے آئیڈیاز سے بھرپور اس فیسٹیول کے دوران محکمۂ اسکول ایجوکیشن، جنوبی پنجاب کی ایڈیشنل سیکریٹری، سیّدہ سروش فاطمہ شیرازی نے طلباء و طالبات میں علم بانٹنے والی کتاب گاڑی کا افتتاح کیا تھا، جب کہ موبائل لائبریری کے اس منصوبے میں بچّوں کی تعلیم کے حوالے سے کام کرنے والی ایک سماجی تنظیم، ’’تارے زمین پر ٹرسٹ‘‘ کی معاونت بھی شامل ہے۔

عموماًکتاب گاڑی جب کسی بھی اسکول، پس ماندہ علاقے، پبلک پارک، کھیل کے میدان یا عوامی مقام پر جاتی ہے، تو ڈرائیور کے علاوہ دو سے تین تربیت یافتہ اساتذہ بھی اس موبائل لائبریری میں موجود ہوتے ہیں۔ کتاب گاڑی میں لڈو، کیرم، ڈرائنگ کا سامان، کاغذ، چارٹس، پینافلیکس، گلوب، فُٹ بال، شطرنج، ایل ای ڈی اور اسپیکر کے علاوہ سائنس، فکشن، نصاب اور دل چسپ کہانیوں پر مشتمل پانچ سو سے زیادہ کُتب اور بچّوں کی دل چسپی کی حامل مختلف اشیاء موجود ہوتی ہیں اور یہ بچّوں کی مرضی ہوتی ہے کہ وہ مصوّری کریں، گیمز کھیلیں یا پھر کہانیاں پڑھیں۔ 

بریحہ زینب کے مطابق، کتاب گاڑی کے عملے میں شامل ایک تربیت یافتہ ٹیچر بچّوں کو نہایت دل چسپ انداز سے کہانیاں پڑھ کر سناتا ہے تاکہ بچّے ان سے خوب لُطف اندوز ہوں، جب کہ ایل ای ڈی پر مختلف نظمیں اور معلوماتی کارٹونز دکھائے جاتے ہیں۔ 

اس کے علاوہ بچّوں کو Origami(کاغذ کی مدد سے مختلف اشیاء بنانا) سکھائی جاتی ہے۔ جو بچّے اسکول نہیں جاتے یا جنہیں پڑھنا لکھنا نہیں آتا، وہ نہ صرف کتاب گاڑی سے مستفید ہوتے ہیں بلکہ ہم سے بار بار کتاب گاڑی بھیجنے کا تقاضا کرتے ہیں۔ دن کے وقت یہ گاڑی تین سے چار گھنٹے کے لیے کسی اسکول میں، جب کہ شام کو دو گھنٹے کے لیے کسی عوامی مقام پر پڑاؤ کرتی ہے۔ علاوہ ازیں، بعض علاقوں میں سیاسی و سماجی اثرورسوخ کے حامل افراد اپنے گھروں یا ڈیروں میں یہ گاڑی لے جاتے ہیں اور وہاں سارے بچّے اکٹھے ہو جاتے ہیں۔

کتاب گاڑی سے استفادہ کرنے والے بچّوں کی اوسط تعداد کے حوالے سے بریحہ زینب کا کہنا ہے کہ کتاب گاڑی کے ایک سیشن میں 30سے 40بچے شامل ہوتے ہیں، جب کہ کتاب گاڑی کی حفاظت، ٹیچرز کی ٹریننگ، مانیٹرنگ اور نئی کُتب اور سازو سامان کی فراہمی محکمہ تعلیم، جنوبی پنجاب کی ذمّے داریوں میں شامل ہے۔ علاوہ ازیں، سیکرٹری اسکول ایجوکیشن جنوبی پنجاب، ڈاکٹر عبیداللہ کھوکھر، جو بذاتِ خود ایک علمی و ادبی شخصیت اور ایک کتاب کے مصنّف ہیں، ہر ماہ سی ای اوز کانفرنس میں اس منصوبے کی افادیت، وسعت اور استعدادِ کار کا جائزہ لیتے ہیں۔ 

کتاب گاڑی منصوبے کے مقاصد اور نصب العین کے حوالے سے اُن کا کہنا ہے کہ ’’ ہمارے معاشرے میں کُتب بینی کی روایت دَم توڑتی جا رہی ہے۔ زیادہ تر سرکاری و نجی تعلیمی اداروں میں بڑی جماعتوں کے طلبہ کی ذہنی استعداد افسوس ناک ہے۔ جب ہم نے کتاب گاڑی کا منصوبہ شروع کیا، تو ابتدا میں ہمیں یہ فکر لاحق رہتی تھی کہ آیا بچّے ٹی وی اور موبائل فون چھوڑ کر کتابوں میں دل چسپی لیں گے یا نہیں، مگراب بہت سے بچّے اس گاڑی ہی کی وجہ سے کُتب کے مطالعے میں دل چسپی لینے لگے ہیں۔ یہ بچّوں کے لیے ہماری ایک چھوٹی سی کوشش ہے اور اسے بچّوں ہی کے ذریعے چلایا جا رہا ہے۔ اُمید ہے کہ محکمۂ تعلیم، جنوبی پنجاب کی یہ کاوش دوسروں کے لیے بھی تحریک کا باعث بنے گی۔‘‘

سنڈے میگزین سے مزید