ارشد ندیم نے پیرس میں نیزہ کیا پھینکا پاکستان میں تو گویا خوشیوں کا ایک لامتناہی سلسلہ شروع ہو گیا۔ بجلی کے بلوں، مہنگائی اور دہشت گردی کی ماری قوم کو جب خوشی کا ایک موقع میسر آیا تو قوم نے خوشیوں کے ان لمحات سے خوب لطف اٹھایا۔
ارشد ندیم کی پیرس اولمپکس میں فتح، پاکستانی قوم کیلئے ایک ایسا ٹانک ثابت ہوئی کہ ایک مرتبہ پھر ہجوم سے قوم بننے کے مناظر دیکھنے کو ملے۔ ایک عرصہ کے بعد دل کی گہرائیوں سے ’’پاکستان زندہ باد‘‘ کی صدائیں بلند ہوئیں۔ پورا پاکستان میاں چنوں کے اس نوجوان کیلئے دعاگو ہوا اور پھر پاکستان، اولمپک گولڈ میڈل کا مستحق قرار پایا۔ ارشد ندیم نے پیرس کے اولمپک اسٹیڈیم میں پاکستان کا پرچم اپنے کندھے پر لپیٹا تو گویا پاکستانی قوم کی آنکھوں میں خوشی کے آنسو جھلملانے لگے۔ پاک سرزمین شادباد کی خوبصورت دھن نے پیرس میں ایک چھوٹا سا پاکستان تشکیل دے دیا۔ پاکستانی قوم ارشد ندیم کی شکر گزار ہوئی جس نے اسے مسرت کے کچھ لمحات عطا کئے۔ قیام پاکستان کے بعد سے لیکر طویل عرصہ تک کھیلوں کے عالمی میدانوں پر پاکستان کا راج رہا۔ ہاکی، کرکٹ، اسکواش، کبڈی کے کئی مقابلوں میں پاکستانی نوجوان اپنے ملک کا پرچم بلند کرتے رہے، شطرنج اور اسنوکر کے میدانوں سے بھی اچھی خبریں مل جایا کرتی تھیں۔ لیکن پھر ان خوشیوں کو ایسی نظر لگی کہ یہ مناظر دیکھنے کیلئے ہمیں 40 سال کا انتظار کرنا پڑا۔ کھیلوں کی تنظیموں پر قبضہ گروپ قابض ہوگئے۔ میرٹ کے بجائے سفارش کلچر نے زور پکڑا۔ نااہل،نالائق اور سفارشی کھلاڑی بھرتی کئے جانے لگے اور پھر ہم نے وہ دور بھی دیکھا کہ ہماری کوئی ایک ٹیم بھی اولمپک کیلئے کوالیفائی تک نہ کر سکی۔ درمیان میں 1992 ء کا ورلڈ کپ پاکستان کے مقدر میں نہ ہوتا تو سوچیں پاکستان کے کھیلوں کی تاریخ کتنی ادھوری ہوتی۔ 118سال کا ریکارڈ توڑنے والے اس نوجوان کو وہ سہولیات کہاں میسر تھیں جو کرکٹ کے کھلاڑیوں کو میسر ہیں۔92.97 میٹر پر نیزہ کے ساتھ یلغار کرنیوالے اس کھلاڑی کو وہ حکومتی سرپرستی کہاں حاصل تھی جو کبھی اسکواش کے کھلاڑیوں کو میسر تھی۔ارشد ندیم کے اپنے بقول اس کے پاس تو وہ مخصوص نیزے بھی نہ تھے جو اس کھیل کے کھلاڑیوں کی بنیادی ضرورت ہیں۔ میں اسکی ایک ویڈیو دیکھ رہا تھا جس میں وہ قوم کو بتا رہا تھا کہ اس کے پاس گزشتہ کئی سال سے ایک ہی نیزہ تھا جس کے ساتھ وہ پریکٹس کیا کرتا تھا۔ ارشد ندیم کی پیرس اولمپکس میں تاریخی فتح نے ایتھلیٹس مقابلوں کی تاریخ میں اپنا نام بھی درج کروا لیا ہے اور وہ انفرادی ایونٹ میں پاکستان کے پہلے اولمپک گولڈ میڈلسٹ بھی بن گئے ہیں۔یہ تاریخی کامیابی پاکستان کی جانب سے آخری بار 1984ء میں فیلڈ ہاکی میں گولڈ میڈل جیتنے کے 40 سال بعد سامنے آئی ہے۔ارشد ندیم 40 سال میں اولمپکس میں انفرادی طلائی تمغہ جیتنے والے ملک کے پہلے ایتھلیٹ بھی بن گئے ہیں۔ارشد ندیم 92.97 میٹر دور نیزہ پھینک کر دُنیا کی تاریخ میں سب سے دور نیزہ پھینکنے والوں کی فہرست میں چھٹے نمبر پر آ گئے اور رواں سال 2024 کے بہترین جیولین تھرور بھی بن گئے ہیں۔انہوں نے مردوں کے جیولین فائنل میں 92.97 میٹر کے شاندار تھرو کے ساتھ نہ صرف سونے کا تمغہ حاصل کیا بلکہ 2008ءمیں قائم 90.57 میٹر کے ریکارڈ کو توڑتے ہوئے ایک نیا اولمپک ریکارڈ بھی قائم کیا۔اولمپک کے میدان میں اس عظیم کامیابی نے پاکستان کا مثبت تاثر بھی اجاگر کرنے میں مدد دی ہے۔اس کامیابی نے ایک مرتبہ پھر ثابت کیا ہے کہ کھیلوں کی سفارت کاری سے بڑھ کر اور کوئی سفارت کاری نہیں ہو سکتی۔1980ءکی دہائی میں جب پاک بھارت کشیدگی عروج پر تھی اس وقت کے صدر جنرل محمد ضیا الحق خود جے پور جا پہنچے جہاں پر انہوں نے پاکستان اور بھارت کا کرکٹ میچ دیکھا اور اسی دوران وزیراعظم راجیو گاندھی سے’’ مبینہ گفتگو ‘‘کے بعد سرحدی کشیدگی کم ہوئی۔کھیلوں کی عالمی سفارت کاری پر اثر پذیری کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ پوری دنیا ان مقابلوں کی میزبانی حاصل کرنے کیلئے ایڑی چوٹی کا زور لگاتی ہے۔آج کی دنیا میں کھیل ایک انڈسٹری کا روپ اختیار کر چکےہیں جس سےملکی معیشت بھی متاثر ہوتی ہے۔ اب حکومت پاکستان کو اس جانب سنجیدگی سے توجہ دینی چاہیے۔پاکستان بھر میں کھیلوں کے میدان آباد کرنے کیلئے ہنگامی بنیادوں پر اقدامات کرنے چاہئیں۔کھیلوں کی تنظیموں کو پروفیشنل کھلاڑیوں کے حوالے کرنا چاہیے اور جو لوگ کئی برسوں سےان تنظیموں کے وسائل پر قابض ہیں ان کا محاسبہ ہونا چاہئے۔ماضی میں اسکولوں کالجوں اور دیگر اداروں کی ہر کھیل کی اپنی اپنی ٹیم ہوا کرتی تھی لیکن اب یہ رجحان بھی ختم ہو کر رہ گیا ہے۔حکومت کو چاہیے کہ وہ کرکٹ کیساتھ ساتھ،ہاکی، فٹبال، کبڈی اور جولین تھرو جیسے انفرادی کھیلوں کی عالمی معیار کے مطابق سرپرستی کرے۔جب پاکستان میں کھیلوں کی سرگرمیاں فروغ پائیںگی تو یہاں کا نوجوان نشے اور دیگر غیر صحت مندانہ سرگرمیوں کی بجائے کھیلوں کی طرف راغب ہوگا اور عالمی سطح پر ایک مثبت سفارت کاری دیکھنے کو ملے گی جو مروجہ سفارت کاری سے کہیں زیادہ بااثر ثابت ہوگی۔