ہمارےعہد کے بہت بڑے اسکالر اور ممتازسیاست دان رسول بخش پلیجو ایک زمانے میں اس سوال میں الجھے ہوئےتھے کہ حضرت شاہ عبداللطیف بھٹائیؒ کی نفسیات آخر کیا تھی ؟ وہ یہ جاننا چاہتےتھے کہ جو شخص اتنی بڑی شاعری کر سکتا ہے ، وہ عام زندگی کس طرح گذارتا ہو گا اور وہ کس طرح سوچتا ہو گا ۔ پلیجو صاحب کے ذہن میںیہ سوال بلا جواز نہیں تھا کیونکہ کچھ لوگ مافوق الفطرت محسوس ہوتے ہیں اور جب ہم انہیںاپنی ذات کی کسوٹی پر پرکھنے کی کوشش کرتے ہیں تو اس طرح کا سوال ذہن میں پیدا ہوتاہے ۔ مولانا عبدالستار ایدھی کےبارے میں یہ سطور تحریر کرتےہوئےمیں بھی اسی سوال سے دوچار ہوں ۔ مولاناعبدالستار ایدھی کا ’’ جنگ ‘‘ کےلیے ایک انٹرویو بھی کیا تھا۔ انٹرویو کے دوران جو باتیں ’’ آف دی ریکارڈ ‘‘ تھیں ، ان پر غور کر کےمیں ہمیشہ سوچتا تھا کہ آخر یہ شخص کیا ہے ۔ اس دن ہی مجھے اندازہ ہوا تھا کہ اس شخص کو ہم اپنی سوچوں اور معیارات پر نہیں پرکھ سکتے ہیں ۔ ان کی باتیں بہت سادہ تھیں لیکن سمندروں کی گہرائیاں ان سے کم محسوس ہوتی تھیں ۔ چند سال پہلے کی بات ہے ۔ کسی کام کے سلسلے میں دو تین مرتبہ کراچی کے علاقے کھارادر میں واقع ایدھی سینٹر جاناپڑا ۔ سینٹر کے باہر بینچ پر مولانا ایدھی بیٹھے ہوتے تھے ۔ میں اور سینئر صحافی نواب قریشی ان کے ساتھ بیٹھ جاتےتھے ۔ ہم ایدھی صاحب سے ان کی خیریت معلوم کرتے تھے تو وہ اپنے بارے میں کچھ کہنے کی بجائے خود کلامی کے انداز میں بولنا شروع ہو جاتےتھے ۔ ایک دن کہنے لگے کہ’’ اس دنیا میں کتنے رسول اور پیغمبر آئے اور انہوںنے آکر تلقین کی کہ ظلم نہیں کرو ، انسانوں کو قتل نہیں کرو ، بیٹیوں کو زندہ دفن نہیں کرو لیکن اس کے باوجود یہ سب کچھ ہو رہا ہے ۔ پتہ نہیں کب تک یہ ہوتا رہے گا ۔ ‘‘ ابھی وہ یہ بات کر رہےتھے کہ مسجد سے اذان کی آواز آنی شروع ہو گئی ۔ مولانا خاموش ہو گئے ۔ میں ان کےچہرےپر نظریں گاڑھے ہوئے تھا ۔ وہ کسی عمیق سوچ میں گم تھے ۔ اذان ختم ہوئی تو وہ خود گویا ہوئے ’’ ہم سے جتناہوسکتاہے،ہمیںتوکرناچاہیے ۔ ‘‘ اس دن میں وہاں سے اٹھا تو کئی فکری مغالطوں سے نجات حاصل کر چکا تھا ۔ پہلے میں یہ سوچتا تھا کہ فلاحی کام نہیں کرنے چاہئیں کیونکہ اس سے ظلم و استبداد اور استحصال کا شکار لوگوں میں بغاوت فرو ہو جاتی ہے اور انقلاب کے امکانات ختم ہو جاتے ہیں لیکن اس دن یہ بات سمجھ آئی کہ دنیا میں بڑے بڑے انقلابات کے بعدبھی انسان مظلوم بھی ہے اور دکھی بھی ۔ ہر عہد میں انسانیت کو عبدالستار ایدھی کی ضرورت ہے لیکن اس کے ساتھ ذہن میں ایک اور سوال پیدا ہوا کہ عبدالستار ایدھی کو کیا ضرورت ہے کہ وہ اپنی ساری زندگی کو انسانیت کی خدمت میں ’’ تیاگ ‘‘ دے ؟ مولانا ایدھی کو شہرت کی بھی خواہش نہیں تھی ۔ بحیثیت صحافی مجھے مولانا ایدھی کے علاوہ کوئی دوسرا شخص نہیں ملا ، جو میڈیا میں نہ آنا چاہتا ہو اور شہرت کے مفہوم سے بھی ناواقف ہو ۔ انہیں وہ شخص بھی سخت نا پسند تھا ، جو ان کی تعریف کرتا ہو ۔ مولانا ایدھی کو بڑا آدمی بننے کا خبط بھی نہیں تھا ۔ وہ تقریبات میں جا کر اپنی ستائش کروانے سے بھی نفرت کرتےتھے ۔ انہوں نے بڑی تعداد میں شیلٹر ہومز اور اولڈ ہومز بنوائے لیکن اپنےلیے کوئی گھر نہیں بنوایا ۔ ان کی ایدھی فاؤنڈیشن کے پاس ہزاروں گاڑیاں اور ہیلی کاپٹرزتھے لیکن ان کی کوئی ذاتی گاڑی نہیں تھی ۔ وہ ملگجی ملیشیا رنگ کے دوسے زیادہ کپڑوں کے جوڑے نہیں رکھتے تھے اور گذشتہ20 سال سے ایک ہی جوتا پہنے ہوئےتھے ۔ دنیا میں بے شمار ایسے لوگ گذرے ہیں ، جنہوں نے اپنی زندگی انسانیت کی خدمت میں قربان کر دی لیکن اس خدمت میں بھی ان کا کوئی نہ کوئی مقصد ہوتا تھا ۔ مستنصر حسین تارڑ کی یہ بات مجھے اچھی لگتی ہے کہ مدر ٹریسا نے ساری زندگی انسانیت کی خدمت کی لیکن ان کا مقصد یہ تھا کہ لوگ ان کی خدمت کی وجہ سے عیسائیت کی طرف راغب ہوں لیکن ایدھی صاحب کا کوئی ایسامقصد نہیں تھا ۔ کیا مولانا ایدھی نے یہ سب کچھ اس لیے کیا کہ ان کی آخرت اچھی ہو ؟ یہ سوال بھی ہمارے اپنے معیارات کے مطابق ہمارے ذہن میں آتا ہے ۔ مولانا ایدھی نے شاید اس بارے میں کبھی سوچا بھی نہ ہو ۔ان کا یہ مسئلہ بھی نہیں تھا کہ کون ان کے بارے میں کیا سوچتا ہے ۔ وہ رنگ ، نسل ، مذہب ، فرقہ ، زبان ، صنف اور وطنیت سے بھی ماورا ہو کر اپنے کام میں لگے رہتےتھے ۔ بعض لوگوں کے ناراض ہونے کے باوجود انہوں نے گیتا کو شیلٹر ہوم میں مندر بنا کر دیا ۔وہ مشکے ( بلوچستان ) میں زلزلہ زدگان کی مدد کرنے پہنچ گئے ۔ لیاری میں آپریشن کے دوران دروازے کھٹکھٹا کر محصور لوگوں کو کھانا پہنچاتے رہے ۔ انہیں تعفن زدہ لاشوں سے کراہت نہیں آتی تھی ۔ انہیں لاوارث اور خطرناک بیماریوں کا شکار لوگوں کی قربت میں خوف محسوس نہیں ہوتا تھا لیکن پھر وہی سوال پیدا ہوتا ہے کہ یہ سب کچھ وہ کیوں کرتے تھے اور آخر ان کی نفسیات کیا تھی ؟ ہم عظمت کے اپنے معیارات کے ذریعہ مولانا ایدھی کی شخصیت کا احاطہ نہیں کر سکتے ہیں ۔ اگر ہم ایسا کریں گے تو ہم زنجیروں میں جکڑی ہوئی اپنی ذات میں الجھتے جائیں گے ۔ مولانا ایدھی ان الجھنوں سے ماورا تھے ۔ شاید ان کے اندر ایسی روح تھی ، جس کی گوتم بدھ کو تلاش تھی ۔ ایسی روح ، جسے خود غرضی سے نجات مل گئی ہو ۔ ایسی روح کےلیے ذاتی مایوسیاں ، شکستیں ، آلام و مصائب اور ناگزیر موت دکھ کا باعث نہیں رہتی اور یہ سب کچھ لامتناہیت میں کھو جاتا ہے ۔ گوتم بدھ کا خیال یہ تھا کہ جب انسان اپنی ذات سے پیار نہ کرنا سیکھ لے تو اسے نروان ملتا ہے ۔ یہ نروان موت کے بعد بہشت کا نام نہیں بلکہ خود غرضی پر غالب آنے کی پرسکون طمانیت ہے ۔بے غرض طمانیت ۔