• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

کبھی کبھی لگتا ہے کہ جنت توماں کے قدموں تلے ہے لیکن شائد جنت الفردوس اسپیشل بچوں کی مائوں کے قدموں تلے ہوگی۔ان الفاظ میں چھپے کرب کا اندازہ ہر وہ ماں کر سکتی ہے جو اپنے اسپیشل بچے کو سنبھالتے سنبھالتے صرف اُسی کی ہوکر رہ جاتی ہے۔ نہ کوئی سوشل لائف، نہ کسی کے گھر آنا جانا، نہ دن کا خیال نہ رات کا، نہ نیند کا سکون نہ جاگنے کی لذت۔یہ مائیں بعض صورتوں میں اپنی ساری زندگی اپنے اسپیشل بچے کے مطابق گزارتی ہیں۔ انہیں محلے داروں، رشتہ داروں اور ملنے جلنے والوں سے اپنے بچوں کے حوالے سے مختلف کلیجہ چیرنے والے جملے سننے کو بھی ملتے ہیں، پاگل بچہ ، اپاہج بچہ، معذوربچہ، گناہوں کی سزا، اللہ کا عذاب، توبہ توبہ ، کڑی آزمائش،ہائے بیچارہ، ہائے بیچاری ۔یہ مائیں نہ رو تی ہیں نہ شکوہ کرتی ہیں بلکہ جتنا کوئی ان کے بچے کے متعلق زہریلا جملہ اچھالتا ہے ان کا پیار اپنے بچے سے مزید بڑھتا چلا جاتا ہے۔میں نے دیکھا ہے ایسی مائوں کو اکثر ایک جملہ تواتر سے سننے کو ملتا ہے کہ’آپ اس کا علاج کسی اچھے ڈاکٹر سے کیوں نہیں کرواتیں؟‘۔ گویا ماں باپ نہیں چاہتے کہ کوئی اچھا ڈاکٹر اُن کے بچے کا علاج کرے۔ان بچوں میں زیادہ تر پیدائشی یا مستقل اسپیشل ہوتے ہیں اور کئی ایک کی ’آزمائش‘ تو ماں باپ کے مرنے کے بعد بھی جاری رہتی ہے۔یہ ننھے فرشتے ہمیشہ ننھے رہتے ہیں۔ان کے اندر نہ منافقت ہوتی ہے نہ لالچ نہ خود غرضی، نہ یہ جائیداد میں حصہ مانگتے ہیں نہ شادی کرکے ماں با پ سے الگ ہوتے ہیں۔لیکن ہم ایک ایسے معاشرے میں رہتے ہیں جہاں کئی جہلاء ایسے بچوں کو دیکھ کر کانوں کو ہاتھ لگانے میں ذرا شرم محسوس نہیں کرتے۔میرا ماننا ہے کہ یہ بچے قدرت کا انمول تحفہ ہوتے ہیں۔ جن کے ہاں یہ بچے موجود ہیں اُنہیں فخر کرنا چاہیے کہ وہ ایک ایسی زندگی کی پرورش کررہے ہیں جو اُن کے بغیر شائد زندہ نہ رہ سکے۔میں نے اِن اسپیشل بچوں کی کئی مائوں کو ایک عجیب دعا مانگتے دیکھا ہے،بہت ہی عجیب اور دل دہلا دینے والی دعا۔ یہ مائیں چاہتی ہیں کہ اِن کے اسپیشل بچے اِن کی موت سے پہلے خدا کے پاس چلے جائیں۔اس دعا کا کرب وہی محسوس کرسکتے ہیں جو زمانے کی سنگدلی سے واقف ہیں۔مائیں جانتی ہیں کہ اُن کے بعد اُن کےا سپیشل بچے یا بچی کا کوئی والی وارث نہیں بنے گا۔ ایک بزرگ کالم نگار جووفات پاچکے ہیں ایک دن میرے آفس میں بیٹھے تھے ،اچانک اپنی جوان بیٹی کا ذکر کرنے لگے اور دھاڑیں مار مار کر رونے لگے۔ انہوں نے جو کچھ بتایا وہ میں یہاں لکھنے سے بھی قاصر ہوں۔ اشاروں کنایوں میں اتنا سمجھ لیجئے کہ ان کی بیٹی کو آٹزم تھا اور وہ بتارہے تھے کہ چونکہ ان کی بیگم بہت عمر رسیدہ ہوچکی ہیں اوربستر سے اٹھنے کے قابل نہیں، بچے دوسرے ممالک چلے گئے ہیں لہٰذا اُنہیں ہر ماہ اپنی جوان بیٹی کے وہ کام بھی خود کرنا پڑتے ہیں جن کے لیے مائیں بنائی گئی ہیں۔ہچکیوں کے درمیان انہوں نے ایک جملہ کہاجو میرے سر پر ہتھوڑے کی طرح آج بھی برستا ہے، کہنے لگے’’تم میری بیٹی کودیکھو گے تو کہوگے کہ یہ تو پریوں کی رانی ہے‘‘۔

یہ کالم نگار وفات پاچکے ہیں، اہلیہ بھی خدا کو پیاری ہوگئی ہیں اور پریوں کی رانی کو اس کے بہن بھائیوں نے قبول کرنے سے انکار کر دیا تھا لہٰذا کسی ذہنی امراض کے سرکاری مرکز میں بھیج دیا گیا۔اسپیشل بچوں کے باپ بھی بہت کچھ برداشت کرتے ہیں لیکن مائوں کا تو جواب نہیں۔ایک ماں مجھے بتانے لگی کہ معاشرے میں شعور کا یہ عالم ہے کہ انہوں نے کسی جگہ ذکر کیا کہ میرا بیٹا اسپیشل ہے۔ یہ سن کر وہاں موجود ایک خاتون نے ’اسپیشل‘ کا لفظ سن کر منہ بنایا اور کہنے لگیں’ تمہارا بیٹا کوئی زیادہ اسپیشل ہے، الحمدللہ ہمارے تین بیٹے ہیں اور ایک سے ایک اسپیشل ہے‘۔

یہ مائیں رشتہ داروں سے نہیں مل سکتیں اور بعض جگہ رشتہ دارخواتین بھی ایسی ہیں کہ ماں کی پرابلم کو سمجھے بغیر اُسے اُسی کیٹگری میں رکھتی ہیں گویا وہ ان جیسی ایک نارمل زندگی گزارنے والی عورت ہے لہٰذا اسے خود بھی اُن کی طرف آنا چاہیے اور اُنہیں بھی بلانا چاہیے۔گوجرانوالہ کی معروف شاعرہ فرحانہ عنبر بھی ایسے ہی ایک بچے کی ماں ہیں جو نہ حرکت کرسکتا ہے، نہ دیکھ سکتا ہے، نہ بول سکتا ہے۔ میں فرحانہ عنبر کا نام اُن کی مکمل اجازت سے شامل کر رہا ہوں۔ یہ بہادر ماں دن رات اپنے بچے کے ساتھ رہتی ہے۔ شاعری تخلیق کرتی ہے ، بچے کو کروٹ بدلواتی ہے اور بچے کی ایک ایک حرکت سے جانتی ہے کہ اب اسے کس چیز کی ضرورت ہے۔اسی عالم میں رہتے ہوئے اِس ماں نے شاعری کی پوری کتاب ’چلے آئو نا‘ تحریر کرڈالی ہے۔دنیا میں بہت غم ہے اور ہرکسی کو لگتاہے کہ اس کا غم زیادہ ہے لیکن لوگوں سے ملیں تو پتا چلتا ہے کہ ہمارا غم اُن کے آگے کچھ بھی نہیں۔ میرا دل چاہتا ہے کہ اسپیشل بچوں کے لیے الگ سے پارکس ہوں، شاپنگ مالز ہوں، ان کے لیے الگ دنیا ہو جہاں کوئی ان کی طرف تاسف بھری نظروں سے نہ دیکھ سکے۔ اگر یہ بھی ممکن نہیں تو پارکس، شاپنگ مالز میں کوئی ایک دن، کچھ گھنٹے اسپیشل بچوں کے لیے بھی مخصوص ہونے چاہئیں جس میں صرف ان کے والدین ہو ں اور یہ بچے ہوں تاکہ مائوں کو بھی آئوٹنگ کا موقع ملے، وہ بھی خوشی خوشی اپنی جیسی مائوں کے ساتھ ملیںاور اپنے جیسے ماحول میں آزادانہ رہیں۔ایک گزارش ان بچوں کے رشتہ داروں اور محلے داروں سے بھی ہے کہ خدا کے لیے جس گھر میں اسپیشل بچہ یا بچی ہو وہاں بچے اور ماں کے وقت کی سہولت کو دیکھتے ہوئے جائیں ۔اسپیشل بچوں کی مائوں کے لیے ڈھیر ساری دعائیں، یہ جنت کے ٹکٹ جن عظیم مائوں کے پاس موجود ہیں اُنہیں بہت بہت مبارک۔

تازہ ترین