کراچی(ٹی وی رپورٹ) جسٹس ریٹائرڈ شوکت صدیقی نے کہا کہ میرے اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ تعلقات اس وقت خراب ہونا شروع ہوئے جب میں نے اسلام آباد سے مختلف تجاوزات ختم کرنے کے احکامات جاری کیے ۔اس سے قبل پرویز مشرف کی ضمانت منسوخ کرکے اسے گرفتاری کرنے کا آرڈر جاری کیا جبکہ فیض آباد دھرناکیس تعلقات خراب ہونے کی بڑی وجہ بنا۔ان واقعات کے نتیجے میں مجھے اہم کیسز سے ہٹا دیا گیا جس پر میں نے چیف جسٹس صاحب سے جاکر وجہ پوچھی جس پر انہوں نے جواب دیا کہ اوپر والوں کا حکم ہے بس چپ کرجائیں۔نجی ٹی وی کے پروگرام میں خصوصی گفتگو کرتے ہوئےشوکت صدیقی کا کہنا تھا کہ ایک واقعے کے بعد جنرل (ر) فیض حمید نے رابطہ کیا اور کہا میں افسر کے کیے پر معافی مانگنا چاہتا ہوں اور انہوں نے گھر آکر مجھ سے معذرت کی لیکن پھر انہوں نے بھی حکم واپس لینے کی درخواست کی تاہم میں نے معذرت کرلی۔انہوں نے مجھ سے استفسار کیا کہ اگر نواز شریف یا مریم نواز کا کیس آپ کے پاس آئے تو آپ کیا کریں گے،میں نے کہا جب کیس آئے گا تو دیکھ کر فیصلہ دونگا،میں نے انہیں کہا کہ آپ کو ان معاملات میں نہیں پڑنا چاہئے جس پر انہوں نے بڑے مشہور الفاظ کہے کہ ہماری دو سال کی محنت ضائع چلی جائے گی۔ فیض حمید نے ستمبر میں مجھے قائم مقام چیف جسٹس بنانے کی پیشکش کی جبکہ نومبر میں قواعد کے مطابق مجھے چیف جسٹس ہونا تھا،میں نے جواب دیا کہ اگر مجھے آپ چیف جسٹس آف پاکستان کی آفر بھی دیں تو اپنا قلم گروی رکھنے کیلئے تیار نہیں ہوں۔کچھ دن بعد فیض حمید دوبارہ آئے اور کہاآپ کیوں میری نوکری کے پیچھے پڑے ہیں،مجھے صاحب نے بلا کر کہا ہے کہ تم سے ایک ہائی کورٹ کا جج ڈیل نہیں ہورہا ،میں نے دو روز پہلے آپ کے پاس آنا تھا لیکن میں ایم کیو ایم والوں کے اسکرو ٹائٹ کرنے کراچی چلا گیا تھا ۔ انہوں نے کہا کہ برطرفی کے بعد اس وقت کے چیف جسٹس ثاقب نثار سے جوڈیشل کمیشن بنانے کی درخواست کی کہ اگر اس کے نتیجے میں میں مجرم ثابت ہوجاؤں تو بیشک ڈی چوک پر پھانسی دے دیں لیکن اگر جرم ثابت نہ ہو تو ان طاقتور لوگوں کے خلاف بھی کاروائی کریں۔جسٹس آصف سعید کھوسہ اور ثاقب نثار شاید مجھے جسٹس افتخار چوہدری کا منظور نظر سمجھتے تھے جس کی وجہ سے انہوں نے مجھ سے بدلہ لیا۔ ۔ججز کا احتساب باقی تمام داروں سے زیادہ ہونا چاہئے لیکن بد قسمتی سے نہیں ہورہا۔