• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

مرتب: محمّد ہمایوں ظفر

زیرِ نظر واقعہ میرے کالج کی ایک سہیلی کے رشتے دار کے ساتھ پیش آیا اور ان ہی کی زبانی پیشِ خدمت ہے۔

’’اس واقعے کو گزرے تقریباً تیس سال کا عرصہ ہوچکا ہے۔ اُس وقت کے واقعات پر غور کرتا ہوں، تو خود کو یہ باور کروانا بہت مشکل لگتا ہے کہ وہ سب کچھ حقیقت تھا یا کچھ اور..... میرا تعلق ایک چھوٹےسے گائوں سے تھا، وہیں ابتدائی تعلیم حاصل کی۔ گاؤں میں والد صاحب کی چھوٹی موٹی زمین داری میں معقول آمدنی ہوجاتی تھی، جس کی وجہ سے ہمارا ایک گھر کراچی میں بھی تھا۔ جہاں بچپن میں آنا جانا رہتا تھا، بعدازاں مزید تعلیم اور ملازمت کی وجہ سے مَیں نے کراچی ہی میں مستقل سکونت اختیار کرلی۔ عید تہوار پر گھر والوں سے ملنے آبائی علاقے چلا جاتا اور ہفتہ دس دن گزار کر واپس آجاتا۔ 

ہمارا یہ مکان دو منزلہ تھا۔ پہلے میں نچلے حصّے میں رہتا تھا، پھر نیچے کا پورشن کرائے پر دے کر بالائی منزل پر شفٹ ہوگیا، جہاں جانے کےلیے راہ داری سے گزرنا پڑتا تھا۔ کمروں کے سامنے لاؤنج میں کھانے کی میز تھی، فریج اور فون بھی رکھا تھا۔ اوپر کافی کشادہ چھت خالی تھی۔ جہاں ایک پلنگ اور کچھ کرسیاں رکھی تھیں۔ چھت پر ایک اسٹور بھی تھا۔ جو کاٹھ کباڑ سے بھرا تھا۔ ہم سادہ سے لوگ ہیں، چھت پر موجود پلنگ اور کرسیاں ایک طرح سے ہمارا مہمان خانہ تھا۔ مہمان یہاں کھلے آسمان تلے تازہ ہوا کے مزے لیتے تھے۔ تقریباً پورا ہی گھر اوپن ائر تھیٹر کا منظر پیش کرتا تھا۔

مجھے ملازمت کرتے ہوئے آٹھ سال ہوگئے تھے۔ شادی کی عُمر بھی ہوچُکی تھی، مگر گھر والے اِس وجہ سے توجّہ نہیں دیتے تھے کہ میری اکلوتی بہن ابھی کنواری بیٹھی تھی۔ ہمارے خاندان کے سب ہی افراد گندمی رنگت کے قبول صُورت واجبی سے ہیں، دیہاتی انداز و اطوارکی وجہ سے شہری آداب اور تکلّفات سے نہ صرف عاری، بلکہ انہیں غیر ضروری خیال کرتے ہیں۔ بہن کی اب تک شادی نہ ہونے کہ وجہ سے اُس کے مزاج میں چڑچڑا پن سا آگیا تھا۔ 

خیر، اسی طرح روز و شب گزرنے لگے، ہمارے قریبی رشتے داروں کو بھی ہماری شادی کی بہت فکر تھی، انھوں نے امّاں کو یہ کہہ کر پریشان کرنا شروع کردیا تھا کہ’’ لڑکی کی شادی نہیں ہورہی ہے، تو لڑکے کی عُمر کیوں نکال رہی ہو، وہ شہر میں اکیلا رہتا ہے، کہیں بعد میں پچھتانا نہ پڑے۔‘‘ یہ بات امّاں کی سمجھ میں آگئی اور انہوں نے رشتے وغیرہ دیکھنے شروع کردیئے۔کئی رشتے دیکھے، مگر ہر طرف سے انکار ہوجاتا، تو مَیں پریشان ہوگیا۔ 

خود اعتمادی ختم سی ہونے لگی تھی، حالاں کہ میری سرکاری نوکری تھی، تن خواہ اور زمین داری کی وجہ سے آمدنی بھی معقول تھی، مگرہمارے خاندان کے طور طریقے شاید شہری اور اونچے گھرانوں کے لیے قابلِ قبول نہ تھے۔ ہر چند کہ ہم میں کوئی خرابی نہ تھی، مگر مجھے لگتا تھا کہ امّاں کا اندازِ گفتگو، بہن کا مزاج اورمیرا رہن سہن دیکھ کر لوگ بدک جاتے تھے۔ امّاں ایک سے ایک خُوب صُورت لڑکی پر انگلی رکھتیں، مگر اپنے گلفام پر نظر نہیں ڈالتیں۔ مجھے یہ بدگمانی ہوتی کہ امّاں کی نیّت میں شاید خلوص نہیں، وہ صرف وقت گزار رہی ہیں۔

ایک روز دفتر سے آنے کےبعد حسبِ معمول چھت پر شام کی چائے پی رہا تھا اور یوں ہی کسی سوچ میں گُم تھا کہ اچانک سامنے والے مکان میں ایک سولہ سترہ سال کی لڑکی نظر آئی۔ وہ دَم سادھے مجھے ہی دیکھ رہی تھی، اُس کے اس طرح دیکھنے پر مجھے گمان ہوا کہ شاید میں اُس کی نگاہوں میں جچ گیا ہوں۔ مَیں نے بھی کن انکھیوں سے بظاہر اَن جان بن کر اُس کے گھر کا جائزہ لینا شروع کردیا، وہ سمجھ رہی تھی کہ میں واقعی لاتعلق ہوں۔

پھر چند لمحوں بعد اسی کی عُمر کی دو اور لڑکیاں بھی آگئیں، وہ دونوں بھی میرے گھر کی طرف دیکھ کر باتیں کرنے لگیں۔ خیر، تھوڑی دیربعد وہ لڑکی اپنی سہیلیوں کے ساتھ نیچے چلی گئی، مگر میرا سُکھ، چین بھی اپنے ساتھ ہی لے گئی۔اب میرا سارا دھیان اُسی کی طرف لگا رہتا۔ اُس روز اتوار کو چھٹّی ہونے کی وجہ سے مَیں گھر میں بیٹھا بور ہورہا تھا کہ اچانک میری خالہ اپنے بچّوں سمیت آگئیں۔ 

وہ قریب ہی شاپنگ کے لیے آئی تھیں، اپنے ساتھ گرم گرم سموسے اور جلیبیاں بھی لے کر آئی تھیں کہ ساتھ ہی بیٹھ کر کھائیں گے۔ میں اُن کے لیے چائے بنانے کے لیے کچن کی طرف گیا اور کھڑکی سے سامنے نظر پڑی، تو وہی منظر ایک دفعہ پھر موجود تھا، یعنی وہ لڑکی پُرشوق نگاہوں سے میری طرف ہی دیکھ رہی تھی۔ 

خالہ اور بچّے جب تک گھر میں موجود رہے، وہ بھی بدستور کھڑی رہی، مجھے گھبراہٹ ہورہی تھی کہ خالہ یا بچّے اُسے دیکھ نہ لیں، ہر چند کہ مَیں کوئی بانکا جوان نہ تھا، مگر دل میں چور ہونے کی وجہ سے بوکھلا گیا تھااور بدحواس ہوا جارہا تھا۔ 

مجھے یہ فکر بھی دامن گیر تھی کہ خالہ زاد بہن کو دیکھ کر وہ لڑکی پیچھے ہی نہ ہٹ جائے۔ اسے دیکھنے کے بعد سے مَیں بہت بے تاب ہوچکا تھا۔ میرا خدا جانتا ہےکہ میرے دل میں کچھ غلط نہ تھا۔ ہمارا کوئی جوڑ بھی نہ تھا، بس مَیں اس خیال سے خوش تھا کہ میں بھی کوئی چیز ہوں، کوئی مجھے بھی نظر بھر کردیکھتا ہے۔ خیر، کچھ دیر بعد خالہ اور بچّے وغیرہ چلے گئے اور کسی نے کچھ محسوس نہ کیا۔

اس کے بعد تو یہ معمول ہوگیا کہ شام کو مغرب سے پہلے وہاں چہل پہل نظر آتی، ایک جیسی عُمر کی کئی لڑکیاں سیڑھیاں چڑھتے اُترتے نظر آتیں۔ سب کی شکل و صُورت اور جسامت تقریباً ایک ہی جیسی لگتی تھی۔ اس بات کا اندازہ اس نٹ کھٹ شرارتی لڑکی کو بھی تھا۔ تبھی تو نڈر ہوکر وہ سامنے آتی اور پھر غائب ہوجاتی۔ کبھی مجھے لگتا کہ اس کھیل میں وہ اکیلی ہے، کبھی گمان گزرتا کہ کوئی اور بھی اس کی راز دار ہے۔ بعد میں اس نتیجے پر پہنچا کہ وہ دو ہیں، جو اجنبیت سے دیکھے بغیر بےپروائی و بے اعتنائی سے اس طرح گزر جاتیں، جیسے زمین پر نہیں بلکہ فضا میں معلّق ہوں۔ 

بہرحال، وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ اس کی شرارتیں بھی بڑھتی گئیں، پھر مجھے محسوس ہونے لگا کہ جیسے کہ میری نگرانی ہورہی ہو۔ مَیں کب سوکر اٹھا، کب باتھ روم گیا، کب ناشتا کیا، ہر لمحہ دو آنکھیں مجھے دیکھ رہی ہوتیں، کبھی چُھپ کر اور کبھی سامنے آکر۔ شروع شروع میں اس طرح دیکھے جانے پر میں بہت خوش ہوتا تھا، لیکن پھر یہ سوچ کرپریشان رہنے لگا کہ شاید میرا مذاق اُڑایا جارہا ہے یا مجھے بے وقوف بنایا جارہا ہے۔ 

پھر مَیں نے اپنے طور پر محلّے والوں سے غیر محسوس طریقے پراس خاندان کے حوالے سے معلومات کیں، تو معلوم ہوا کہ وہ لوگ محلّے میں کسی سے زیادہ ملتے جلتے نہیں۔ بہرحال وقت تیزی سے گزرتا گیا اور اس دوران ’’لُکا چُھپی‘‘ کے اس کھیل میں ڈیڑھ برس کا عرصہ گزر گیا۔

ایک روز دفتر سے گھر پہنچا، توامّاں کا فون آیا کہ ’’چھٹیاں لے کر کچھ دن کے لیے گھر آجاؤ، کیوں کہ بہن کے رشتے کے لیے جو بات چل رہی تھی، وہاں سے مثبت جواب آیا ہے، تم بھی آکر لڑکے سے مل لو تاکہ رسم وغیرہ ادا کرکے شادی کی تاریخ دے دیں۔‘‘ بات ہی ایسی تھی کہ مجھے فوری جانا پڑا۔ وہاں دو ہفتے لگ گئے۔ 

اِدھر جب میں دو ہفتے بعد واپس آیا، تو اُس چھت پرجوش و خروش کچھ بڑھا ہوا محسوس ہوا۔ مَیں کچھ دیر بعد نیچے اُتر آیا، پھر دوسرے روز ایک عجیب بات یہ ہوئی کہ مَیں دفتر میں بیٹھا تھا کہ گرمیوں کے موسم میں اچانک سردی لگ کر تیز بخار ہوگیا، تو چُھٹّی لے کر گھر آگیا۔ 

ابھی دروازہ کھول کر اندر داخل ہی ہوا تھا کہ سامنے کی چھت سے وہ لڑکی اُترتی ہوئی دکھائی دی۔ مجھے احساس ہوا کہ اس غیر متوقع وقت پر نظر آنے پر وہ ٹھٹکی ہے۔ مَیں بخار سے نڈھال کمرے میں آکر بستر پر ڈھیر ہوگیا، لیکن کسی کروٹ چین نہ آیا، تو غیر ارادی طور پر اُٹھ کرچھت پر گیا، تو وہ دروازے کی اوٹ لیے میرے گھر کی جانب ہی دیکھ رہی تھی۔ مَیں اپنے حواسوں میں نہ تھا۔ انتہائی سرعت سے دروازے سے باہر نکل آیا، اُس نے مجھے نکلتے ہوئے دیکھ لیا تھا۔ 

مَیں بھاگتا ہوا چند لمحوں ہی میں اُس کے گھر کے دروازے پر پہنچ گیا۔ وہ سیڑھیوں سے اُتررہی تھی، مَیں اس کے روبرو تھا۔ یہ میری اس سےپہلی اور آخری ملاقات تھی۔ بخار کی شدّت سے میرا گندمی رنگ لال ہورہا تھا، غیر متوقع طور پر مجھے اپنے دروازے پر دیکھ کر وہ ششدر رہ گئی، شاید اسے اس بات کا ڈر ہوا کہ کہیں وہ پکڑی نہ جائے، گھبراہٹ کے عالم میں وہ کچھ لمحے ہراساں سا چہرہ لیے مجھے دیکھتی رہی اور پھر...... اچانک ہی غائب ہوگئی۔

ایک جیتی جاگتی لڑکی کے اس طرح دیکھتے ہی دیکھتے نظروں کے سامنے سے غائب ہوجانے کے طلسماتی منظر نے میرے ہوش اُڑا دیئے۔ اُس لمحے کی کشش، طاقت اور جذب میرے لیے واقعتاً ناقابلِ بیان اور ناقابلِ فراموش ہے۔ ایک تو بخار کی شدّت، دوسرے ڈر اور خوف سے اللہ جانے کس طرح گھر پہنچا، یہ مجھے یاد نہیں، نہ جانے کتنی دیر بے ہوش پڑا رہا۔ 

مگر، آج کئی دہائیاں گزرنے کے باوجود مَیں یہ راز نہیں جان پایا کہ میرے مکان کے سامنے جو مناظر مجھے نظر آتے تھے، وہ محض نظر کا دھوکا، سراب تھے یا کچھ اور۔ مَیں جتنا اس بارے میں سوچتا ہوں، ذہن الجھتا چلا جاتا ہے اور کسی نتیجے پر نہیں پہنچ پاتا۔ (ثانیہ انور، کراچی)

سنڈے میگزین سے مزید