• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

1986ء میں مُلک کی معروف طبّی درس گاہ، کِنگ ایڈورڈ میڈیکل کالج سے فارغ التّحصیل ہونے کے بعد ہم تمام کلاس فیلوز ایک دوسرے سے جُدا ہو گئے اور پھر برسوں تک ہمارا ایک دوسرے سے کوئی رابطہ نہیں ہوا۔25برس بعد جب ہماری زندگی میں سوشل میڈیا داخل ہوا، تو ’’گُم شدہ‘‘ دوستوں کی تلاش شروع ہوئی اور پھر سب بچھڑے ہوئے دوست آہستہ آہستہ پھر سے ملنے لگے۔ نتیجتاً، ’’KE 86‘‘ کے نام سے ایک واٹس ایپ گروپ وجود میں آیا اور کبھی ایک کلاس رُوم میں بیٹھنے والے لگ بھگ چوتھائی صدی بعد ایک دوسرے سے ملنے لگے۔

جیسے جیسے لوگوں کی سوشل میڈیا سے آشنائی بڑھتی جا رہی ہے، ویسے ویسے اس کی مقبولیت اور اثرات میں بھی اضافہ ہوتا چلا جا رہا ہے۔ گرچہ فیس بُک، ایکس، انسٹا گرام اور اسنیپ چیٹ جیسے مختلف سوشل میڈیا پلیٹ فارمز اپنے صارفین کے سامنے نِت نئی جہتیں لے کر آ رہے ہیں، لیکن جس طرح واٹس ایپ نے اپنے منفرد فیچرز کے ذریعے صارفین کو اپنے سحر میں جکڑا ہوا ہے، اس کی کوئی مثال نہیں ملتی۔ 

ہم واٹس ایپ کے ذریعے دوسروں کو نہ صرف عبارتی پیغامات، وائس نوٹس اور ویڈیوز بھیج سکتے ہیں بلکہ اس کے ذریعے ہر قسم کے ڈاکیومینٹس بھی ایک لمحے میں دُنیا کے ایک حصّے سے دوسرے حصّے میں منتقل کیے جا سکتے ہیں۔ سو، یہ کہنا بے جا نہ ہو گا کہ آج واٹس ایپ ہماری زندگی کا ایک اہم جُزو بن گیا ہے۔

فروری 2009ء میں جب برائن ایکٹن اور جان کوم نے، جو ’’یاہو‘‘ کے ملازم تھے، واٹس ایپ کا آغاز کیا، تو اُن کے وہم و گمان میں بھی نہ تھا کہ ایک روز اُن کی یہ ایجاد لوگوں کی ضرورت بن جائے گی۔ ابتدا میں واٹس ایپ صرف اسٹیٹس اَپ ڈیٹ کرنے تک محدود تھا، لیکن پھر بہ تدریج اس کے فیچرز میں اضافہ کیا گیا۔ 

یہاں دِل چسپ اَمر یہ ہے کہ جولائی 2009ء میں واٹس ایپ کی پذیرائی نہ ہونے کے سبب ایکٹن نے مایوس ہو کر اسے خیر باد کہنے کا فیصلہ کر لیا تھا، لیکن اس موقعے پر کوم نے اس کی ڈھارس بندھائی اور پھر انہوں نے اپنے ایک رُوسی نژاد دوست، ایلکس فش مین کی مشاورت سے، جس کا تعلق اسی شعبے سے تھا، واٹس ایپ پر کام جاری رکھا۔ 

نتیجتاً، اگست 2009ء میں جب ’’واٹس ایپ ٹو‘‘ متعارف کروایا گیا، تو اس کے صارفین کی تعداد چند سو سے بڑھ کر ڈھائی لاکھ تک جا پہنچی۔ پھر جیسے جیسے واٹس ایپ کے فیچرز بڑھتے گئے، ویسے ویسے اس کے صارفین کی تعداد میں بھی اضافہ ہوتا چلا گیا، حتیٰ کہ اس نے فیس بُک (موجودہ میٹا) کو اپنی جانب متوجّہ کر لیا، جس نے 2014ء میں 19بلین ڈالرز کی ریکارڈ قیمت پر اسے خرید لیا اور آج واٹس ایپ کے صارفین کی تعداد دو ارب تک جا پہنچی ہے۔

آج شاید ہی کوئی صارف کسی واٹس گروپ کا حصّہ نہ ہو، جب کہ کچھ گروپس زبردستی بھی آپ کو اپنا حصّہ بنا لیتے ہیں اور آپ مروتاً خاموش رہ جاتے ہیں۔ بعض گروپس میں آپ اپنی مرضی سے شمولیت اختیار کرتے ہیں، جب کہ کچھ گروپس آپ خود بھی بناتے ہیں۔ ان میں اہم ترین گروپس فیملی گروپس اور کلاس فیلوز اور دوستوں کے گروپس ہیں۔ فیملی گروپس کی اہمیت اپنی جگہ، لیکن عموماً کلاس فیلوز اور دوستوں کے گروپس ہی آپ کی پسندیدہ ’’آماج گاہ‘‘ بنتے ہیں۔ 

کسی دَور میں تعلیمی اداروں سے فارغ التّحصیل ہونے کے بعد کلاس فیلوز ایک دوسرے سے بچھڑ جاتے تھے اور کبھی کبھار اتفافیہ طور پر کسی ہم جماعت سے متعلق کوئی خیر خبر مل جاتی تھی، مگر آج واٹس ایپ نے یہ کمال کر دکھایا ہے کہ گریجویشن ڈے کے بعد کلاس فیلوز زندگی بھر ایک دوسرے کا ساتھ نبھاتے ہیں۔

دن بھر موبائل فون پر مصروف رہنے والی نئی نسل کے لیے تو جدا ہو جانے والے دوستوں کو تلاش کرنا کوئی مشکل کام نہیں، لیکن ہماری نسل کے لوگوں نے، جو اب ریٹائرمنٹ کی زندگی بسر کر رہے ہیں، تلاشِ بسیار کے بعد پُرانے دوستوں کے موبائل فون نمبرز حاصل کیے اور اپنی کلاس کے نام سے مختلف واٹس ایپ گروپس تشکیل دیے۔ اس وقت ان گروپس میں تمام کلاس فیلوز تو نہیں، البتہ 70سے 80فی صد ہم جماعت نہ صرف شامل ہیں بلکہ بڑی گرم جوشی سے مختلف سرگرمیوں میں حصّہ بھی لیتے ہیں۔ 

ان گروپس میں معاشرے کے مختلف حلقوں کی طرح ہر نوع کے لوگ شامل ہیں۔ کچھ ’’جدیدیے‘‘ ہیں، تو کچھ ’’قدیمیے‘‘۔ کوئی مذہبی ہے، تو کوئی سیکیولر۔ کسی کو سائنس میں دل چسپی ہے، تو کوئی سیاست کا شیدائی۔ غرض یہ کہ ہر ایک گروپ ہی میں تنوّع نظر اتا ہے۔ یہ گروپس دراصل رنگ برنگے پُھولوں کے گُل دستے ہیں، جن کی خوش بُو سے گروپس کی فضا مہکتی رہتی ہے۔

یہ سب واٹس ایپ کی بدولت ہی ہے کہ مختلف گروپس میں ہمارے دوستوں کی تعداد سیکڑوں تک جا پہنچی ہے، جو چوبیس گھنٹے ایک دوسرے سے مستقل رابطے میں رہتے ہیں۔ سچ تو یہ ہے کہ اگر واٹس ایپ نہ ہوتا، تو ہمارے کلاس فیلوز اور دوستوں کی اتنی بڑی تعداد اتنی مدّت گزرنے کے بعد اس طرح ایک دوسرے سے چوبیس گھنٹے کبھی بھی رابطے میں نہیں رہ سکتی تھی۔ یہ واٹس ایپ ہی کا فیض ہے کہ ہم دوست ایک دوسرے کی خوشیوں میں شریک ہوتے اور ایک دوسرے کا غم بھی بانٹتے ہیں۔ 

وگرنہ وٹس ایپ کی آمد سے قبل تو کبھی کبھار دو چار دوستوں سے فون پر تھوڑی دیر کے لیے بات ہو جاتی تھی۔ اب حال یہ ہے کہ واٹس ایپ گروپ ڈرائنگ رُوم کا منظر پیش کر رہا ہوتا ہے۔ نکتۂ بحث امریکا سے اُٹھایا جائے، تو غُصّے کے عالم میں جوابی پتّھر لاہور سے مارا جاتا ہے۔ اگر بات فیصل آباد سے کی جائے، تو تبصرہ لندن سے حاضر ہوتا ہے، مگر اس ’’جُوتم پیزار‘‘ سے گھبرانا کیسا؟ زندگی اسی کا نام ہے۔ 

پھر یہ بحث مباحثے اور لڑائیاں بچپن کی یادیں تازہ کرتی ، قُربت کا احساس بھی بڑھاتی ہیں۔ یہی حال خوشی کے لمحات کا ہے۔ کسی شادی، سال گرہ اور بچّے کی پیدائش کی خبر فوراً سب کو مل جاتی ہے اور مبارک باد بھیجنے اور وصول کرنے کا ایک طویل سلسلہ شروع ہو جاتا ہے۔ اسی طرح اگر کسی کا کوئی اپنا بچھڑ جائے، تو دلاسا دینے کے لیے سب دوست اُس کا ہاتھ تھام لیتے ہیں اور اگر کسی کے بچّے کو کوئی کام یابی حاصل ہو، تو مسرّت انگیز پیغامات خوشی کے ان لمحات کو دو بالا کر دیتے ہیں اور یہ سب واٹس ایپ ہی کے مرہونِ منّت ہے کہ آج ہم ایک دوسرے کے بارے میں اتنا جانتے ہیں، جتنا ہم جماعت ہوتے ہوئے بھی نہیں جانتے تھے۔ 

اب ہمیں یہ بھی معلوم ہے کہ ہمارے کون سے دوست سحر خیز ہیں اور کون سے دن چڑھنے تک سوئے رہتے ہیں۔ کون نمازِ عشا کے بعد ہی سو جاتا ہے اور کون رات دیر تک موبائل فون پر ’’آوارہ گردی‘‘ کرتا رہتا ہے۔ کس کو کن چیزوں سے دِل چسپی ہے اور کن سے بے زاری۔ کس کے کیا مشاغل اور مصروفیات ہیں۔ کس کو کھیلوں سے شغف ہے اور کون ایکسرسائز میں دِل چسپی لیتا ہے۔ کون اس وقت کس شہر اور مُلک میں ہے۔ اورکس کے مزاج میں عاجزی ہے اور کون متکبّر ہے۔

واٹس ایپ بِلاشُبہ ایک دل چسپ پلیٹ فارم ہے۔ ہمیں گروپس میں موجود مختلف الخیال افراد کی باتوں سے لُطف اندوز ہونا چاہیے۔ اور اگر کبھی بحث و تکرار ہو بھی جائے، تو پریشان مت ہوں کہ یہی تنوّع، رنگا رنگی ہی زندگی کی اصل خُوب صُورتی ہے۔ اور یہ بھی سچ ہے کہ آج ہمارے کئی پیارے دوست ہم سے ہمیشہ کے لیے جُدا ہو چُکے ہیں اور کل ہمارا نام بھی اس فہرست میں شامل ہوجائے گا کہ ؎ کی دَم دا بھروسا یار، دَم آوے نہ آوے۔ تو کیوں ناں، جب تک جی رہے ہیں، جی بَھر کے جئیں، ہنسیں بولیں، خوش رہیں اور دوسروں کو بھی خوش رکھیں اوررہنے دیں۔

سنڈے میگزین سے مزید