نفیسہ فریاد چاہل
’’اللہ کے لاڈلے کون ہوتے ہیں؟‘‘ مَیں نے اُس سے پوچھا۔
’’جو نماز پڑھتے ہیں۔‘‘ اُس نے مختصر جواب دیا اور مجھے متجسّس چھوڑ کر پُرسکون سی ہوگئی۔
’’اور کیا کرتے ہیں، اللہ کے لاڈلے؟‘‘ میں نے پھر سوال کیا۔
’’قرآن پڑھتے ہیں۔‘‘ اُس نے پھر مختصر جواب پراکتفا کیا۔
’’مگر… سارا دن تو بندہ نماز اور قرآن نہیں پڑھتا رہتا ناں۔ اِن کےعلاوہ کیا کرتے ہیں، اللہ کے لاڈلے؟‘‘ میں اُس سے جواب سُننا چاہ رہی تھی یا اُسے جواب دینا چاہ رہی تھی، یہ مجھے خُود بھی نہیں پتا تھا۔
’’اِس کے علاوہ زکوٰۃ دیتے ہیں، حج کرتے ہیں۔‘‘ اُس کی پیشانی شکنوں سے بَھر گئی۔ شاید وہ سوچ رہی تھی کہ مجھے اتنی سی بات بھی نہیں پتا۔
’’اچھا۔ یہ بتاؤ، تمہارے ابو کیا کرتے ہیں؟‘‘
’’جااااب کرتے ہیں۔ جانتی تو ہو تم۔‘‘ اُس نے لفظ جاب پر زور دیتے ہوئے دانت پیس کر کمال ضبط کا مظاہرہ کیا۔
’’اچھا، ٹھیک ہے۔ اور اگر وہ اپنی کمائی گھر میں نہ دیں۔ مطلب خُود ہی کمائیں اور خُود ہی کھالیں تو کیسا رہے گا؟‘‘ مَیں جانتی تھی، وہ میرے سوالوں سے تنگ آگئی ہے، مگر میرے اندر کا لاوا بھی تو انہی سوالوں کی صُورت باہر نکل رہا تھا۔
’’ایسا کیسے ہوسکتا ہے؟ ایک انسان اتنے پیسے کیسے کھا سکتا ہے، جو وہ کماتے ہیں، ہمارے لیے ہی تو کماتے ہیں۔‘‘ وہ گویا ہار مانتے ہوئے بولی۔
’’وہی تومَیں سمجھانا چاہ رہی ہوں کہ ایک انسان اپنی ساری کمائی خُود کیسے کھا سکتا ہے؟ وہ نماز پڑھے، تو اُس کا فائدہ دوسروں کو نہ ہو، وہ قرآن پڑھے، تو کسی کو کوئی اچھائی کی اُمید نہ ہو، وہ حج کرے، تو بھی اُس میں کسی کا بھلا نہیں اور اگر زکوٰۃ بھی دے تو ایسے ہی جیسے پھل کا چھلکا مجبوراً اتار کر پھینکنا پڑے۔ تو وہ اللہ کا لاڈلا کیسے ہوگیا؟‘‘
’’تو پھر اللہ کا لاڈلا کون ہوتا ہے؟‘‘اب کے اُس نے مجھ سے پوچھا تھا۔
’’اللہ کا لاڈلا…شاید وہ، جو دل میں مخلوق کے لیے اُنسیت و محبّت رکھتا ہو۔ ہر وقت مخلوق کی بھلائی میں لگا رہے کہ مخلوق، اللہ کی امانت ہے، جسے اگلی نسلوں تک بحفاظت پہنچانا ہے۔ یہاں تک کہ وہ ایک چھوٹی سی چیونٹی ہی کیوں نہ ہو۔ اور اللہ امانت میں خیانت کرنے والوں کو پسند نہیں کرتا۔‘‘ لیکچر کی بیل بجی، تو وہ بہت گہری نظروں سے مجھے دیکھتی لائبریری سے نکل گئی۔