• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

گزشتہ سال کے آخر میں جب ہم2024ء کے ممکنہ حالات کا تجزیہ کر رہے تھے، تو دو امور پر خصوصی زور دیا تھا۔ایک منہگائی کے سبب کم زور معاشی ممالک کا عدم استحکام اور دوسرا اِس سال ہونے والے انتخابات، جو تاریخ میں کسی ایک سال میں ہونے والے سب سے زیادہ انتخابات ہیں۔ کچھ عرصے تک یوکرین جنگ منہگائی کا سبب بنی رہی کہ یورپی ممالک کے توانائی(گیس اور تیل) کے مسائل کے ساتھ، روس اور یوکرین کی عالمی سطح پر گندم اور کوکنگ آئل کی برآمدات جنگ کی وجہ سے متاثر ہو رہی تھیں۔ لیکن یورپی اور بڑی طاقتوں کے پاس اس کا توڑ موجود تھا کہ اس کے لیے صرف وقت اور سرمایہ درکار تھا، جو دونوں اُن کے پاس تھے۔

اُن ممالک میں توانائی کے لیے آج ہر طرف جیسے سولر پینلز کا’’سونامی‘‘ آیا ہوا ہے۔ نتیجتاً بہت جلد تیل پیدا کرنے والے ممالک سر پکڑے بیٹھے ہوں گے، کیوں کہ وہ اس کا ادراک رکھتے ہیں اور نہ ہی کوئی پلاننگ کر رہے ہیں۔غریب ممالک، جن میں پاکستان بھی شامل ہے، منہگائی کی اس عالمی لہر میں تباہ ہوگئے۔

عوام پِستے رہے اور ہم سیاسی بحث مباحثوں میں مگن رہے۔ کبھی یہ نہ سوچا کہ یہ ایک سیاسی نہیں، معاشی مسئلہ ہے،جس سے اُسی طرح نمٹنا چاہیے۔ایک معاشی معاملے سے عوامی جذبات بھڑکانے کا کام لیا گیا اور کسی نے مشورہ تک نہیں دیا کہ ذرا صبر کرلیں، وقت گزر جائے، پھر لڑ لیں گے، کہیں بھاگے تو نہیں جارہے، مگر شاباش ہے، ہمارے سیاست دنوں اور اہلِ دانش پر،جو ایک دوسرے سے سینگ لڑانے سے باز ہی نہ آئے اور نہ اب آ رہے ہیں۔ منہگائی، بھوک اور گرتی معیشت کا دباؤ بڑھ رہا ہے اور ہم حل سے مسلسل دُور ہوتے جا رہے ہیں۔

چوں کہ ہماری دل چسپی افریقا اور وسط ایشیا کی طرف بہت کم ہے، اِسی لیے وہاں کے حالات پر کبھی کبھار ہی بات ہوتی ہے، شاید ہمیں یہ بھی پتا نہیں کہ دنیا کے بڑے مسلم ممالک سوڈان، نائجیریا، الجزائر، تیونس، لیبیا، شام اور عراق کے عوام کس اذیّت سے گزر رہے ہیں۔افغانستان میں تین سال سے کیا ہو رہا ہے، اُن کے عظمتِ رفتہ کی کہانیاں، سُپر طاقتوں کو شکست دینے کی داستانیں قصّۂ پارینہ ہوئیں۔ عدم استحکام سے دوچار اِن ممالک میں جنگ جُو گروپس اور پراکسیز کیا کھیل کھیل رہی ہیں اور خود مسلم ممالک اِس ضمن میں کیا کردار ادا کر رہے ہیں، اِس پر کوئی بات کرنے کو تیار نہیں۔ 

شام، یمن، غزہ اور لبنان کی خونچکاں داستانیں کیا صرف رونے پیٹنے کے لیے ہیں۔دنیا میں ایک اور سیاسی عُنصر غالب آتا جا رہا ہے، جو مسلم دنیا کے لیے انتہائی تشویش ناک ہے اور وہ ہے تارکینِ وطن کا مسئلہ، جس کا تعلق مسلم ممالک کی پس ماندگی، یورپ اور امریکا وغیرہ کی ترقّی و خوش حالی سے ہے۔ اب یہ معاملہ فرقہ وارانہ خون ریز فسادات کی شکل اختیار کرتا جارہا ہے، تو ان ممالک میں رہنے والے تارکینِ وطن، خاص طور پر مسلمانوں اور پاکستانیوں کی آنکھیں کُھل رہی ہیں۔

ہمارا اپنا مُلک منہگائی کا مارا ہوا ہے اور انتخابات کے نتائج کے منفی اثرات بھی بھگت رہا ہے۔ جب یہ دونوں چیزیں باہم مل جاتی ہیں، تو اس کے نتائج کس شکل میں برآمد ہوتے ہیں، یہ اِسی خطّے کے دو بڑے ممالک بنگلا دیش اور پاکستان میں دیکھے جاسکتے ہیں۔ اِس معاملے کی تفصیلات میں جانے سے قبل ہم حماس کے سربراہ، اسماعیل ہانیہ کی ایران میں اسرائیلی حملے میں شہادت کا جائزہ لیں گے، جس نے مِڈل ایسٹ کو ایک مرتبہ پھر انتہائی ہیجانی کیفیت میں مبتلا کردیا ہے۔

اسماعیل ہانیہ کی شہرت یہ رہی کہ وہ حماس کے ایک معتدل مزاج اور سیاسی حل کے حامی رہنما تھے۔وہ قطر میں قیام پذیر تھے اور دوحا مذاکرات کے مرکزی کردار تھے، جس میں مصر، امریکا، اردن اور مصر ثالث، جب کہ دنیا کی تمام بڑی طاقتیں بلاواسطہ شامل تھیں۔ ہانیہ کے ظالمانہ قتل نے ایک طرف اس امن عمل کو دھچکا پہنچایا، تو دوسری طرف اُن کے میزبان، ایران کو بھی انتہا پسندی کی طرف دھکیل دیا اور وہ بھی ایک ایسے وقت میں، جب وہاں ایک روز قبل حلف اُٹھانے والے نومنتخب صدر مغربی طاقتوں سے بات چیت کو اپنا منشور بتا رہے تھے، کیوں کہ ایران کی معیشت بھی اپنے بدترین دَور سے گزر رہی ہے۔

بہت سی توقّعات خاک میں مل گئیں اور وہ ایران کے انتہا پسندوں کے سامنے بے بس ہیں، جو انتقام چاہتے ہیں کہ اُن کے مطابق اگر ایسا نہ ہوا، تو ان کے سپورٹڈ حزب اللہ اور حوثیوں کو ایران کی کم زوری کا پیغام جائے گا۔آج پھر مشرقِ وسطیٰ عجب دوراہے پر کھڑا ہے۔ تادمِ تحریر بڑی اور علاقائی طاقتیں حالات کو مزید بگڑنے سے بچانے کے لیے سرگرم ہیں، مگر اِن سطور کی اشاعت تک خطّے میں فوجی نقطۂ نظر سے کوئی بھی خطرناک صُورتِ حال پیدا ہو سکتی ہے۔ 

ہانیہ کی شہادت سے صرف پانچ روز قبل بیجنگ میں فلسطین کے اٹھارہ دھڑوں کے درمیان معاہدہ ہوا تھا کہ غزہ جنگ بندی کے بعد کس طرح قومی حکومت بنے گی۔وہ معاہدہ بھی بَھک سے اُڑ گیا۔ یہ بالکل ایسے ہی ہوا، جیسے سات اکتوبر کے حماس حملے سے چین کی ثالثی میں ہونے والے ایران، سعودی معاہدے کا حال ہوا تھا۔ آج تک اُس معاہدے پر کوئی پیش رفت نہ ہوسکی اور اِن دونوں تیل پیدا کرنے والے اہم مسلم ممالک کی دوستی کا خواب، خواب ہی رہ گیا۔

کہا جاتا تھا کہ جمہوریت کی بنیاد انتخابات ہیں اور اگر ان کا تسلسل رہے، تو آمریت پنپنے نہیں پاتی، جمہوری روایات پھلتی پُھولتی اور سیاسی جماعتیں مضبوط ہوتی ہیں۔ کیا واقعی ایسا ہی ہے اور کیا ہر مُلک میں ایسے ہی ہوتا ہے؟سری لنکا میں انتخابات کے بعد چھے ماہ بھی حکومت نہ چلی۔پاکستان میں جو حال ہے، وہ ہمارے سامنے ہے، جب کہ بنگلا دیش کے حالات سے بھی سب واقف ہیں، جہاں اِس برس عام انتخابات ہوئے تھے۔ 

جنوبی امریکا میں وینزویلا میں انتخابات ہوئے اور میڈرو چوتھی مرتبہ جیتنے کا اعلان کر رہے ہیں، لیکن اپوزیشن اسے تسلیم کر رہی ہے اور نہ ہی امریکا۔ سڑکوں پر فیصلے ہو رہے ہیں۔ فرانس میں صدر میکرون نئے انتخابات کے بعد اب تک وزیرِ اعظم نام زَد نہیں کرسکے۔ برطانیہ میں لیبر پارٹی14 سال بعد بہت بھاری اکثریت سے جیتی، لیکن وہاں تارکینِ وطن کے فسادات دردِ سر بن چُکے ہیں، بلکہ ایک خوف کی فضا بن رہی ہے۔

امریکا میں جوبائیڈن گئے اور اُن کی جگہ کمیلا ہیرس میدان میں آئیں، لیکن اُن کے آنے سے پہلے ہی ٹرمپ پر قاتلانہ حملہ ہوا، جس سے پورا امریکا ہل کر رہ گیا۔ افریقا کا حال تو بہت ہی بُرا ہے، جہاں فوجی جنرل ایک دوسرے سے زور آزمائی میں مصروف ہیں۔ اس برّاعظم کو’’مستقبل کا خزانہ‘‘ کہا جاتا تھا، مگر وہاں خاک اُڑ رہی ہے۔

انتخابات ہوتے ہیں اور ہوا میں تحلیل ہو جاتے ہیں۔سب سے تکلیف دہ صُورتِ حال مسلم ریاستوں کی ہے۔یہ عراق، لیبیا، شام، سوڈان، نائیجیریا، یمن، مصر ہوں یا افغانستان، پاکستان اور بنگلا دیش۔ کوئی کہتا ہے مضبوط معیشت، انتخابات سے زیادہ ضروری ہے، دوسری آواز آتی کہ حقیقی آزادی چاہیے۔ 

بنگلا دیش میں طلبہ نے حکومت اُکھاڑ پھینکی اور معاشی ماہر، محمّد یونس کو نئی حکومت کا سربراہ مقرّر کیا گیا، جو نوبیل انعام یافتہ اور اچھی شہرت کے حامل ہیں۔ اُنھوں نے حکومتی تبدیلی کو’’ دوسری آزادی‘‘ قرار دیا۔ سوال یہ ہے کہ کیا وہ ایک کروڑ، نوّے لاکھ نوجوانوں کو روزگار دے سکیں گے۔ عرب اسپرنگ کی ناکامی بھی زیادہ پرانی بات نہیں، جو مسلم ممالک میں نظام اور حکومتیں بدلنے کے لیے اُٹھی اور پھر اُس کا انجام بدترین تباہی پر منتج ہوا۔اے کاش! دنیا نے اس سے کچھ تو سبق سیکھا ہوتا۔ دس سال تک شام میں مسلمانوں کے ہاتھوں مسلمانوں کا قتلِ عام ہوا۔

پانچ لاکھ مسلم شامی شہری مارے گئے اور ایک کروڑ، بیس لاکھ دربدر ہوئے۔ کیا یہ اعداد و شمار دل دُہلا دینے کو کافی نہیں۔ غور کیا جائے، تو جمہوریت کی کوئی بھی روایت مسلم ممالک میں موجود نہیں۔ بس زبانی جمع خرچ اور اِدھر اُدھر سے پڑھے، سُنے ہوئے نظریات ہیں۔ ہمارے اہلِ دانش اسی بدیسی جمہوریت کا تجزیہ کرتے ہیں، لیکن اپنے تاریخی ارتقا پر نظر نہیں ڈالتے۔ذرا ڈیڑھ سو سال پہلے کی عظیم مسلم سُپر پاورز ہی پر نظر ڈال لیں، جن کے ڈرامے ہمارے جذبات کا ایندھن بن گئے ہیں۔ہمارے ایک سابق وزیرِ اعظم تک اِن ڈراموں کو حقیقت سمجھ کر دیکھنے کی نصیحتیں فرمایا کرتے تھے۔

جب یورپ میں میگنا کارٹا اور امریکا میں جمہوریت، انڈسٹریل اور سائنسی انقلابات آرہے تھے، مسلم دنیا میں عثمانی تُرک سلطنت، ہندوستان میں مغل سلطنت اور ایران میں صفوی حکم ران اپنی ہی سرمستیوں میں مگن تھے۔کیا اُن میں سے کسی نے بھی جمہوریت کا کوئی بیج لگایا، حالاں کہ برطانیہ، فرانس، اسپین، پرتگال اور امریکا سمیت ہر جگہ دنیا کروٹ لے رہی تھی۔گیلیلیو اور نیوٹن کے کارنامے دیکھ لیں۔وہاں کے اُس دَور کے شعراء اور ادبا کی تخلیقات پڑھ لیں، تو کیا مسلم دنیا میں بھی آزادی اور سائنس کی کوئی کونپل پھوٹی؟ ہر طرف بادشاہتیں تھیں، جنہیں فوجی طاقت سے چلایا جاتا تھا۔ 

جب ہندوستان تقسیم ہوا، تو یہاں لگ بھگ500ریاستیں یا جاگیریں تھیں، جنہیں بھارتی وزیرِ اعظم، جواہر لال نہرو نے یک جنبشِ قلم ختم کردیا، مگر ہمارے ہاں بڑی بڑی جاگیریں برقرار رہیں، جنہیں سیاسی طاقت بھی حاصل ہوگئی۔ مصر، اردن، عراق، لیبیا، سعودی عرب، قطر اور یو اے ای وغیرہ میں آج بھی بادشاہتیں قائم ہیں اور جہاں باشاہتیں ختم ہوئیں، وہاں فوجی آمریتوں نے اُن کی جگہ لے لی۔

تُرکی میں کچھ برسوں سے حالات ذرا بہتر ہیں،مگر عراق، مصر، شام، ایران اور خود پاکستان میں جو کچھ ہوتا رہا یا ہو رہا ہے، یہ جمہوریت کی کون سی شکل ہے؟ بھارت دنیا کی سب سے بڑی جمہوریت بن گیا اور اس کے ساتھ ایک بڑی اقتصادی قوّت بھی۔وہاں کے شہری اب برطانیہ اور امریکا جیسے بڑے ممالک کے وزیرِ اعظم اور صدر بن رہے ہیں، جب کہ مسلم ممالک میں صرف رونا ہی رونا ہے۔ اُن کے شہری دنیا بھر میں سیاسی پناہ کی بھیک مانگ رہے ہیں۔

مسلم ممالک کی قیادت اِس صورتِ حال سے بری الذمّہ تو نہیں ہوسکتی، مگر خود عوام کو بھی اپنے گریبانوں میں جھانکنا چاہیے کہ حالات کی خرابی میں اُن کا بھی پورا ہاتھ ہے۔ ہم جن ممالک کی جمہوریتوں کا ذکر کرتے ہیں، وہاں کے عوام اور اہلِ دانش نے بڑے صبر سے جمہوری روایات کی سختیاں برداشت کیں۔ اُن کی فوجوں کو کسی نے پیچھے نہیں دھکیلا۔ وہاں اسٹیبلشمینٹ سے مسلسل جھگڑا نہیں ہوا، بلکہ یہ عمل بتدریج اور مسلسل آگے بڑھتا گیا۔

یہاں تک کہ فوجی طاقت اور سیاست دانوں میں ایک غیر رسمی معاہدہ ہو گیا کہ اب فوجی طاقت، سِول طاقت کی بات مانے گی اور مُلک عوام کے منتخب نمائندے چلائیں گے۔غلطیاں ہوں گی، لیکن اُنھیں درست کیا جائے گا۔عدلیہ سب کو برابری کی بنیاد پر انصاف فراہم کرے گی۔ اگر ان ممالک کی تاریخ اُٹھا کر دیکھیں، تو وہاں بالغ رائے دہی کی بنیاد پر ووٹ کا حق مِلتے مِلتے ملا۔امریکا جیسے مُلک میں عورتوں کو ووٹ کا حق گزشتہ صدی کے شروع میں ملا اور آج تک وہاں کوئی خاتون صدر نہیں بن سکی۔اوباما ڈھائی صدی بعد پہلے غیر سفید فام صدر منتخب ہوئے۔

یہ جمہوریت کا ارتقائی عمل تھا، تو کیا مسلم ممالک میں بھی ایسا کچھ ہوا یا ہو رہا ہے؟ جہاں روز انقلاب سے گزرنے کے دعوے ہوتے ہیں، تو کبھی عوام اور کبھی نوجوانوں کی حُکم رانی کے اعلانات۔ بہرکیف، حقیقت یہی ہے کہ جب تک عام آدمی، فوجی طاقت، سیاسی لیڈر، اہلِ دانش اور علماء جمہوری عمل کو اُس کی روح کے مطابق قبول نہیں کریں گے اور وہ بھی رضاکارانہ طور پر، اُس وقت تک انتخابات بس ایک مشقِ فضول ہی رہے گی، کیوں کہ یہاں جمہوری روایات کی بجائے کلٹ اور دیوانگی ہی کو جمہوریت کا دوسرا نام دے دیا گیا ہے۔ جمہوریت نہیں، ’’آزادی کے پروانے‘‘ ہر جگہ اُڑ رہے ہیں اور وہ بھی بے سمت۔ اگر ایسے میں فوج اپنی طاقت منواتی ہے، تو اس میں حیرت کی کیا بات ہے۔کسی کے پسند کرنے یا نہ کرنے سے زمینی حقیقت تو نہیں بدل جائے گی۔

اِن دنوں سوشل میڈیا کا بہت شور ہے۔جب مین اسٹریم میڈیا مواصلاتی سیّاروں کے ذریعے ساری دنیا میں پھیلا، تب بھی ایسی ہی باتیں کی گئی تھیں۔میڈیا کی اس طاقت نے مشرقی یورپ اور مسلم ریاستوں کی آزادی میں اہم کردار کیا، لیکن صرف ترقّی یافتہ اور جمہوری ممالک ہی میں یہ میڈیا مؤثر ثابت ہوسکا، باقی دنیا میں تو یہ طاقت وَر رہنماؤں کے قوم سے خطابات اور قومی نغموں کے ذریعے عوام کے ذہنوں کو ماؤف کرنے ہی کے کام آتا رہا۔پھر سوشل میڈیا نے اُس کی جگہ لے لی، مگر وہ ایسا بے لگام ہوا کہ اب کسی کے قابو ہی میں نہیں آرہا۔البتہ، مختلف ممالک میں قائم بادشاہتوں، ایران، سنگاپور، شمالی کوریا اور افریقی آمریتوں نے سوشل میڈیا کو اپنی طاقت کے آگے جُھکنے پر مجبور کیا ہے۔

اِس صدی کا سب سے بڑا فوجی انقلاب، ویت نام میں امریکا کے خلاف آیا اور صرف تیس سال بعد وہ جنوب مشرقی ایشیا میں امریکا کا سب سے قریبی حلیف اور ترقّی پذیر ممالک کے لیے ایک مثال ہے۔اب وہاں شاید کسی کو’’ عوامی انقلاب‘‘ کے ہجّے بھی نہ آتے ہوں۔پھر یہ کہ چین، انقلاب اور لانگ مارچ کی پیداوار ہے، مگر آج اُس کی پہچان انقلاب ہے یا تجارت، ٹیکنالوجی اور دولت۔

سنگاپور میں، جس کے زرِ مبادلہ کے ذخائر پچاس ارب ڈالرز سے زاید ہیں،وہاں صرف پندرہ منظور شدہ میڈیا چینلز کو کام کی اجازت ہے، جب کہ سوشل میڈیا بھی پابندیوں کی زَد میں ہے۔انڈونیشیا اور ملائیشیا، دو ایسے ممالک ہیں، جنہوں نے معاشی ترقّی، تعلیم، روشن خیالی اور جمہوریت کے امتزاج سے آہستہ آہستہ آگے بڑھنے کی کوشش کی اور بڑی حد تک کام یاب بھی ہیں، لیکن اُنہوں نے اِس امر پر خصوصی توجّہ دی کہ جذباتی نظریات عوام میں پنپنے نہ پائیں۔

حال ہی میں امریکا اور روس کے درمیان ایک سو سالہ تاریخ کا سب سے غیر معمولی معاہدہ ہوا، جس کے تحت دونوں ممالک کے درمیان قیدیوں کا تبادلہ ہوا، جو برسوں سے جاسوسی کرنے یا دوسرے سخت جرائم کی سزائیں بُھگت رہے تھے، حالاں کہ یوکرین میں دونوں آمنے سامنے ہیں۔

امریکا اور چین کے درمیان تجارت کا حجم آٹھ سو بلین ڈالرز ہے، جب کہ بھارت اور چین کی دو طرفہ تجارت118 بلین سے زاید ہے اور ہماری چین سے دو طرفہ تجارت دس بلین ڈالرز بھی نہیں، البتہ اُس سے 70بلین ڈالرز قرضہ ضرور لے رکھا ہے۔ تو بس، اِن ہی سب مثالوں میں ہمارے لیے کئی اسباق پوشیدہ ہیں۔