بنگلا دیش میں ایک اور انقلاب آیا اور وہ بھی انتہائی پُرتشدّد۔ ایک ماہ کے خوں ریز اور تباہ کُن ہنگاموں کے بعد وزیرِ اعظم، حسینہ واجد استعفا دے کر بھارت فرار ہوگئیں اور اُن کا مستقبل کیا ہوگا، سرِدست کچھ بھی کہنا ممکن نہیں۔ احتجاجی طلبہ کے مطالبے پر نوبیل انعام یافتہ معروف معیشت دان، انٹرپرینیور، بینکار،84 سالہ محمّد یونس کو عبوری حکومت کا سربراہ مقرّر کیا گیا ہے۔ محمّد یونس گرامین بینک کے بانی ہیں۔وہ حسینہ واجد حکومت کے سخت مخالف تھے اور اُنہوں نے طلبہ کے کام یاب احتجاج کو’’دوسری آزادی‘‘ کا نام دیا ہے۔
احتجاج کے آخری مرحلے میں جب حالات قابو سے باہر ہوگئے، تو اطلاعات ہیں کہ فوج نے حسینہ واجد کو استعفا دینے پر مجبور کیا۔ فوجی سربراہ، جنرل وقار الزمان نے قوم سے خطاب میں کہا کہ’’حکومت کے تمام فیصلے فوج کرے گی۔‘‘ تاہم، بعدازاں، طلبہ اور فوجی قیادت کی مشاورت سے صدر نے پارلیمان تحلیل کردی تاکہ عبوری حکومت کی راہ ہم وار ہوسکے۔
یہ احتجاجی مظاہرے طلبہ کر رہے تھے، جن کا مطالبہ تھا کہ غیر منصفانہ کوٹا سسٹم منسوخ کرکے سرکاری ملازمتیں میرٹ پر دی جائیں، جب کہ حسینہ واجد کی حکومت نے ملازمتوں کا پچیس فی صد کوٹا اُن افراد کے لیے مختص کیا تھا، جنہوں نے بنگلا دیش کی آزادی میں حصّہ لیا تھا۔
کوٹا سسٹم پر ہونے والا یہ احتجاج دارالحکومت ڈھاکا سے شروع ہوکر مُلک کے کونے کونے میں پھیل گیا۔ اطلاعات کے مطابق اِس دوران400سے 1000افراد ہلاک ہوئے۔ سرکاری اور نجی املاک کو بے تحاشا نقصان پہنچایا گیا۔ عوامی غصّے کی شدّت اِس قدر تھی کہ450 سے زاید پولیس تھانوں کو آگ لگا دی گئی۔ یہی وجہ تھی کہ حسینہ واجد کے فرار کے بعد پولیس ہڑتال پر چلی گئی اور رضاکاروں نے ٹریفک اور امن و امان سے متعلقہ اُمور سنبھالے۔پولیس کا کہنا تھا کہ اُسے عوام کی جانب سے سخت ردِ عمل کا خطرہ ہے، لہٰذا تحفّظ فراہم کرنے تک کام کرنا ممکن نہیں۔
مختلف شہروں میں ہونے والے احتجاج کے آخری مناظر کی تصویر کشی کرنے والوں کا کہنا ہے کہ’’ ہر طرف افرا تفری تھی اور حالات کسی طور بھی قابو میں نہیں آرہے تھے۔‘‘حسینہ واجد، جو لگ بھگ بیس سال مُلک کی حُکم ران رہیں، آخری وقت تک اِسی خوش فہمی میں مبتلا تھیں کہ طاقت کے بَل پر مظاہرین کو کچل دیں گی، لیکن ایسا نہ ہوسکا اور طلبہ کی طاقت نے، جس میں بعدازاں عام افراد بھی شامل ہوگئے، اُنہیں گُھٹنے ٹیکنے پر مجبور کردیا۔تمام سیاسی قیدیوں کو، جن میں سیاسی جماعتوں کے سربراہ، بیگم خالدہ ضیا اور جماعتِ اسلامی کے امیر بھی شامل ہیں، رہا کر دیا گیا۔
یاد رپے، یہ افراد برسوں سے جیلوں میں بند تھے۔سوال یہ ہے کہ ترقّی کے تمام تر دعووں کے باوجود کیا بنگلا دیش پچاس سال بعد بھی وہیں کھڑا ہے، جہاں 1971ء میں تھا؟ نیز، ایک اہم سوال یہ بھی ہے کہ کیا حالیہ عوامی انقلاب کے بعد وہاں جمہوریت آگے بڑھ پائے گی۔ اِن سوالات سے دنیا بَھر کو دل چسپی ہے، لیکن بھارت اور پاکستان اِن معاملات میں سب سے زیادہ دل چسپی لے رہے ہیں، جس کی وجوہ بھی واضح ہیں۔
بنگلا دیش، جنوب مشرقی ایشیا میں واقع 17کروڑ آبادی کا ایک مسلم اکثریتی مُلک ہے اور آبادی کے لحاظ سے یہ دنیا کا ساتواں بڑا مُلک بھی ہے۔اس کی زمینی سرحدیں بھارت اور برما سے ملتی ہیں، جب کہ چین، نیپال اور بھوٹان، سلی گری کوریڈور کے ذریعے اِس سے منسلک ہیں۔ خلیج بنگال پر اس کا طویل ساحل ہے۔ ڈھاکا دارالحکومت، جب کہ چٹاگانگ اس کی بڑی اور اہم بندرگاہ ہے۔1947ء سے1971ء تک یہ پاکستان کا حصّہ رہا اور 16 دسمبر 1971ء کو’’ سقوطِ ڈھاکا‘‘ کے نتیجے میں ایک الگ مُلک کے طور پر وجود میں آیا۔
اُس وقت بھی انتہائی پُرتشدّد تحریک چلی تھی، جو متحدہ پاکستان میں دسمبر70 ء کے الیکشن کے بعد شروع ہوئی۔ اُن انتخابات میں عوامی لیگ اکثریت حاصل کرنے میں کام یاب رہی، لیکن اُسے اقتدار منتقل نہ ہوسکا۔ جس پر بڑے پیمانے پہ احتجاج اور خاصا خون خرابہ ہوا۔مشرقی پاکستان میں اِسے’’ آزادی کی تحریک‘‘ اور مغربی پاکستان میں’’بغاوت‘‘ کہا گیا۔
بہرکیف، ہر گزرتے دن کے ساتھ صُورتِ حال پیچیدہ تر ہوتی گئی اور کئی ممالک اس میں ملوّث ہوگئے، جن میں بھارت کا فوجی کردار بہت اہم تھا۔پاکستان کے ٹوٹنے میں جہاں بہت سے عوامل شامل تھے، وہیں بھارتی وزیرِ اعظم اور جواہر لال نہرو کی بیٹی، اندرا گاندھی کا کلیدی کردار تھا۔ اُنہوں نے بھارتی فوج کو مشرقی پاکستان میں داخل کیا اور اِس ضمن میں بین الاقوامی قوانین کی ذرّہ بَھر پروا نہ کی۔اس سانحے کے زخم آج بھی پاکستانیوں کے دِلوں میں تازہ ہیں اور وہ 16 دسمبر کو’’ سقوطِ ڈھاکا‘‘ ہی کے طور پر یاد رکھتے ہیں۔
بنگلا دیش میں ایسے پُرتشدد ہنگامے اور خون ریز فسادات، جن کے ذریعے حکومتوں کے تخت اُلٹے جاتے ہیں، کوئی نئی بات نہیں۔ 1975 ء میں ایسی ہی ایک فوجی بغاوت میں بنگلا دیش کے بانی، شیخ مجیب الرحمان کو، جنہیں قوم نے’’ بنگلا بندھو‘‘ کا خطاب دیا تھا، اُن کے گھر کی سیڑھیوں پر سترہ گولیاں مار کر ہلاک کردیا گیا تھا۔ اُن کے خاندان کے صرف دو افراد بچے تھے، ایک حسینہ واجد اور دوسری اُن کی بہن ریحانہ، جو اپنی فیملیز کے ساتھ اُس وقت جرمنی میں تھیں۔
یاد رہے، حالیہ فراف میں حسینہ واجد کے ساتھ ریحانہ بھی بھارت گئی ہیں۔ پھر بنگلا دیش مارشل لاء کی گرفت میں آگیا اور ایک کے بعد دوسرا جنرل حکومت کرتا رہا، جن میں جنرل ضیاء الرحمان اور جنرل ارشاد کو خاصی شہرت حاصل ہوئی۔ نیز، پھر فوجی حکومتوں کے خلاف احتجاج بھی ہوئے، جن کی قیادت دو بیگمات نے کی۔ ایک شیخ مجیب کی بیٹی حسینہ واجد اور دوسری جنرل ضیاء الرحمان کی اہلیہ ،بیگم خالدہ ضیاء۔بعدازاں اِن بیگمات کا اقتدار شروع ہوا، جسے’’ جنگ جُو بیگمات کا دَور‘‘کہا گیا۔
دونوں بیگمات نے ایک دوسرے پر کرپشن سمیت متعدّد الزمات عاید کیے اور ایک دوسرے کو برسوں جیلوں میں بھی بند رکھا۔بالآخر جیت حسینہ واجد کی ہوئی اور وہ2009 ء سے 5 اگست 2024ء تک حکومت کرتی رہیں، جب کہ اُن کی حریف بیگم خالدہ ضیاء اس دوران طویل عرصہ جیل میں رہیں۔ اِسی طرح حسینہ واجد نے اپنے دورِ اقتدار میں پاکستانی فوج کا ساتھ دینے کے الزام پر جماعتِ اسلامی بنگلا دیش کے بہت سے سرکردہ رہنماؤں کو پھانسی بھی دی، جن کے مقدمات کی شفّافیت پر عالمی برادری نے بھی شدید تنقید کی۔
ابتداً حسینہ واجد ایک جمہوریت پسند لیڈر کے طور پر اُبھری تھیں،وہ ڈھاکا یونی ورسٹی کی پروڈیموکریٹک اسٹوڈنٹ لیڈر تھیں اور اپنی سیاسی زندگی کی شروعات میں اُن کا یہی امیج رہا، لیکن دوسری بار الیکشن جیتنے کے بعد اُن میں وہ تمام خرابیاں یا کم زوریاں دَر آئیں، جو کسی بھی آمرانہ ذہنیت کے حُکم ران میں ہوتی ہیں۔
اِس تبدیلی کی دو وجوہ بتائی جاتی ہیں۔اوّل ،وہ کبھی بھی اپنے والد، شیخ مجیب کے قتل کو نہ بھول سکیں، اِس لیے کئی نسلیں گزرنے کے باوجود اُن کے ذہن میں وہ سب لوگ مُلک کے غدّار تھے، جو کسی بھی طرح1971ء کے واقعات میں شامل تھے، حالاں کہ اس دَوران پاکستان نے نہ صرف بنگلا دیش کو تسلیم کیا بلکہ دونوں ممالک کے تعلقات بھی معمول پر آ گئے۔ او آئی سی اور سارک میں دونوں ایک ساتھ موجود تھے۔
پاکستان اور بنگلا دیش کے شہریوں میں بھی رابطے جاری تھے اور آج جن حالات میں حسینہ واجد کو مستعفی ہوکر فرار ہونا پڑا، اِس میں اُن کی ہٹ دھرمی اور ان ہی آمرانہ پالیسیز کا بڑا ہاتھ ہے، لیکن یہ بھی حقیقت ہے کہ اُن کے پہلے دو ادوار میں بنگلا دیش نے مثالی ترقّی کی۔ وہ آج علاقے کا سب سے تیز رفتار ترقّی کرنے والا مُلک ہے، یہاں تک کہ اس کی ترقّی کی رفتار اور فی کس آمدنی بھارت سے بھی زیادہ ہے۔ ان کی کام یاب اقتصادی پالیسیز کی وجہ سے ڈیڑھ کروڑ افراد غربت سے نکلے، وہاں کی گارمنٹ انڈسٹری کو دنیا میں کپڑے بنانے کا پاور ہاؤس کہا جاتا ہے۔ برآمدات کی کام یابی نے زرِ مبادلہ کے ذخائر40بلین ڈالرز کے قریب پہنچا دیئے۔
دارالحکومت اور دوسرے شہروں میں سڑکوں کا جال بچھایا گیا۔متعدّد میگا پراجیکٹس شروع کیے گئے، جن میں حالیہ دنوں میں تعمیر ہونے والا’’بھارت، بنگلا دیش پُل‘‘ بھی شامل ہے۔ بنگلا دیش کی کرنسی جنوبی ایشیا کی مضبوط کرنسیوں میں شامل ہے، لیکن اس سب کچھ کے باوجود وہ اپنی اکثریتی نوجوان آبادی کو مطمئن نہ کرسکیں۔ اطلاعات کے مطابق وہاں ایک کروڑ 90 لاکھ نوجوان بے روزگار ہیں۔
یہ بھی کہا جاتا ہے کہ بڑے پیمانے پر ہونے والی کرپشن بھی عوامی بے اطمینانی کا سبب بنی۔ عوامی لیگ اور اس کے رہنماؤں سے تعلق رکھنے والوں کو تو تمام تر فوائد حاصل ہوتے رہے، وہ کاروبار سے سرکاری ملازمتوں تک، ہر جگہ آگے رہے، جب کہ عام آدمی دھکّے کھاتا رہا۔
خاص طور پر اپوزیشن سے تعلق رکھنے والوں کو غدّاری کا لیبل لگا کر قومی دھارے سے باہر رکھا گیا۔ ان ہی سب وجوہ کی بنا پر عوام غصّے میں تھے مگر حسینہ واجد بے خبر، سو اندر ہی اندر لاوا پکتا رہا۔ پھر حالیہ الیکشن میں جس طرح اپوزیشن رہنماؤں کو جیلوں میں بَھرا گیا اور اُنھیں انتخابی عمل سے باہر رکھنے کے لیے طرح طرح کے ہتھکنڈے استعمال کیے گئے، اُس سے صُورتِ حال مزید خراب ہوئی اور آخرکار، یہ لاوا حسینہ واجد کے بیس سالہ اقتدار کو بہا لے گیا۔
جب کسی مُلک میں پُرتشدّد اور خونی مظاہروں سے کوئی تبدیلی آئے، تو خواہ وہ کتنی ہی اچھی یا انقلابی کیوں نہ لگے، لیکن بہرحال اُس کے مُلک و قوم اور خطّے پر مختلف نوعیت کے اثرات ضرور مرتّب ہوتے ہیں۔ بہت سوں نے بنگلادیش میں آنے والی تبدیلی کو’’جنوبی ایشیا کا عرب اسپرنگ‘‘ کہا، لیکن کیا اُنہیں یاد ہے کہ اصل عرب اسپرنگ کا کیا حشر ہوا۔
بنگلادیش میں پہلا مسئلہ تو یہ سامنے آیا کہ اندرونی طور پر نظام کیا ہوگا، کیوں کہ وہ بہرحال ایک جمہوری آئینی مُلک ہے۔ پھر یہ دیکھنا ہوگا کہ اِس تبدیلی کے معاشی طور پر کیا اثرات ہوں گے، کیوں کہ نوکریاں اور روزگار کسی پیڑ پر تو لگتے نہیں کہ اُچھل اُچھل کر اُنہیں توڑ لیا جائے۔
امن و امان کی بحالی بھی نئی حکومت کے لیے ایک بڑا چیلنج ہے۔ بنگلا دیش میں پارلیمانی نظام قائم ہے اور وزیرِ اعظم کی تبدیلی سے متعلق تمام قواعد و ضوابط اس کے آئین میں موجود ہیں۔ طلبہ کے اسٹریٹ پاور کے دبائو میں پارلیمان کو تحلیل کرکے عبوری حکومت بنائی گئی ہے اور اس حکومت کا سربراہ ایک ایسے فرد کو بنایا گیا ہے، جو ذاتی حیثیت میں کتنا ہی محترم کیوں نہ ہو، لیکن اس کی قانونی حیثیت سے متعلق سوالات ضرور اُٹھ رہے ہیں۔
پاکستان میں بھی کئی مرتبہ باہر سے قابل اشخاص کو لاکر حکومت دی گئی، لیکن آج شاید ہی اُنہیں کوئی یاد کرتا ہو۔ حکومتیں اپنے نظام کے تحت چلتی ہیں اور جمہوری حکومتیں، سیاسی جماعتوں کے بغیر اُڑان نہیں بَھر سکتیں۔کیا طلبہ اور فوج کی طاقت کے بَل بُوتے پر ایک عبوری حکومت چلائی جائے گی یا پھر نئے الیکشن ہوں گے، امید ہے کہ اِن سطور کے شایع ہونے تک صورتِ حال بہت حد تک واضح ہو چُکی ہو گی۔
بنگلا دیش سے جو مُلک براہِ راست متاثر ہوتے ہیں، وہ بھارت اور چین ہیں۔ بھارت کی اس کے ساتھ طویل سرحد ہے اور بنگلا دیش کے قیام سے اب تک دونوں ممالک کے درمیان انتہائی قریبی روابط ہیں، جب کہ حسینہ واجد کے زمانے میں دونوں مزید قریب آگئے تھے۔ کہا جاتا ہے کہ بھارت کا بنگلا دیش پر اثر و رسوخ بہت زیادہ تھا۔گارمنٹ انڈسٹری کے لیے خام مال بھی وہیں سے آتا ہے اور اِسی لیے حکومتی تبدیلی کے بعد مودی حکومت کو اپنی بارڈر فورس کو ہائی الرٹ کرنا پڑا۔
یہ بھی تاثر ہے کہ عوامی لیگ پرو بھارت تھی، جب کہ بیگم خالدہ ضیا کی بی این پی اور جماعتِ اسلامی اینٹی بھارت ہیں، لیکن جب بنگلا دیش کا معاشی معاملات میں بھارت پر اس قدر زیادہ انحصار ہے کہ اُس کی زرِ مبادلہ کمانے والی ایکسپورٹ انڈسٹری اُسی کے خام مال سے چلتی ہے، تو کوئی بھی حکومت آجائے، وہ زمینی معاشی حقائق سے منہ نہیں موڑ سکے گی۔ پھر تمام میگا پراجیکٹس میں بھی بھارت کا مرکزی کردار ہے۔نیز، دونوں ممالک کے فوجی معاملات میں بھی قریبی روابط ہیں۔اِسی لیے بھارت نے کوئی بھی ایسا بیان دینے سے گریز کیا، جس سے کوئی پیچیدگی پیدا ہو۔
بنگلا دیش علاقے کا سب سے تیز رفتار ترقّی کرتا مُلک ہے اور خود ہمارے ہاں جب بھی معیشت پر بحث ہوتی ہے، تو بنگلا دیش کی کام یاب پالیسیز کا ضرور ذکر ہوتا ہے۔ نئی حکومت کو اِس معاشی ترقّی کو برقرار رکھنا، بلکہ مزید بہتر بنانا ہوگا، کیوں کہ طلبہ تحریک کا بنیادی محرّک معاشی بہتری ہی تھا کہ اُنھیں ترقّی میں سے حصّہ نہیں مل رہا تھا۔
خوش گمانی یہی ہے کہ عبوری حکومت کے سربراہ، جو غربت مِٹانے پر نوبیل انعام جیت چُکے ہیں، معاشی بہتری میں اہم کردار ادا کریں گے اور جو غلطیاں حسینہ واجد کی حکومت سے ہوئیں، اُنہیں دُہرانے نہیں دیں گے۔ آج کا بنگلا دیش، کل کا مشرقی پاکستان ہے۔کبھی ہماری خوشیاں اور غم ایک تھے۔
ہم نے آزادی کے بعد کی کئی منازل ایک ساتھ طے کیں۔ جو کچھ 1971 ء میں ہوا، وہ ہماری تاریخ ہے، گو کہ بے حد الم ناک، دردناک ہے، لیکن ہم شاید ہی کسی موڑ پر اپنے بنگلا دیشی بھائیوں کو بھولتے ہوں۔ ظاہر ہے کہ وہاں جو بھی تبدیلیاں رُونما ہوتی ہیں، ہماری جذباتی وابستگی کے سبب ہمارے لیے اہم اور قابلِ توجّہ ہوتی ہیں، جیسے اُن کی حالیہ ترقّی کی مثال بار بار یہاں دی جاتی ہے۔ہمیں اُن کی بہت سی پالیسیز سے اختلاف بھی ہے، جیسے کہ بھارت سے زیادہ قربت، لیکن بہرکیف، پاکستانیوں کی یہی خواہش ہے کہ اُن کے بنگلا دیشی بھائی مضبوط جمہوری راہ پر گام زن رہتے ہوئے ترقّی کرتے رہیں۔