• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
میرے دوسری طرف آواز بہت غیف تھی، بڑی غمزدہ اور ماحول پر افسردگی بکھیرنے والی آواز، جی ہاں! یہ آواز پاکستان کے بہت بڑے سیاسی مقرر کی تھی، تاریخ ان کی جوشیلی تقریروں سے آگاہ ہے، وہ ایک شعلہ بیاں مقرر تھا مگر آج اس کی آواز بڑی مدھم تھی، غم میں ڈوبی ہوئی تھی، اس نے مجھے فون پر یوں کہا کہ… ’’میں تمہارا کالم پڑھ کر اقبال ظفر جھگڑا کو دیکھنے پمز آیا ہوں مگر یہاں آکر پتہ چلا ہے کہ وہ پشاور شفٹ ہوگئے ہیں۔‘‘ میری پریشانی دیکھ کر اس نے خود ہی بتایا کہ میں جاوید ہاشمی بول رہا ہوں۔ میں نے پوچھا کہ آپ کی آواز میں اتنا کرب؟ اس نے کہا…’’ ہاں یہ وہ کرب ہوئے جو آمرانہ ادوار کی سختیاں نہیں لاسکیں مگر سیاست میں لوگوں کی بے حسی دیکھ کر دکھ ہوتا ہے دوسرا دکھ میرے دل کو خود سے ہے کہ میں اپنے دوست اقبال ظفر جھگڑا کو دیکھنے آیا ہوں اور وہ مجھے پمز میں نہیں ملا بلکہ اپنے گھر منتقل ہوگیا ہے…‘‘ میں نے جاوید ہاشمی سے کہا کہ آپ دراصل روایت پسند آدمی ہیں، آپ سیاست میں وضعداری اور روایت پسندی کے قائل ہیں مگر آج کی سیاست نے مفادات کے ہاتھوں سے اپنی قبر کھود رکھی ہے۔ آج کی سیاست کے مزار پر محبت کے پھول نہیں کھلتے بلکہ مفادات اور بے حسی کے کانٹے ملتے ہیں۔ سیاست کی چالبازیوں میں اتر کر لوگ جدوجہد کے ساتھیوں کو بھول جاتے ہیں۔ آپ اور امین فہیم، نواب زادہ نصراللہ خان کے بعد روایت پسندی پر قائم ہیں یا پھر چوہدری شجاعت حسین وضعداری کا دم بھرتے ہیں باقی سب امریکن سسٹم ہے۔ یہ بات سن کر ہاشمی صاحب کہنے لگے۔ یہ امریکن سسٹم کیا ہے میں نے عرض کیا… ’’آپ و تاپ‘‘ یعنی اپنی اپنی پڑی ہوئی ہو۔ لیکن ہاشمی صاحب! میں آپ کا یہ عقیدت بھرا جذبہ، اس میں لپٹی ہوئی محبت کا پیغام اقبال ظفر جھگڑا تک پہنچادوں گا۔
اگر لوگوں کو پتہ نہیں تو کم از کم مسلم لیگ (ن) کی سینٹرل ورکنگ کمیٹی کے اراکین کو ضرور پتہ ہے کہ پرویز مشرف کے سخت ترین دور میں اگر پختون غیرت کا مظاہرہ نہ کرتے تو مسلم لیگ (ن) کب کی ختم ہوچکی ہوتی۔ خیبر پختون خوا کے لیگیوں نے بیگم کلثوم نواز کے جلسے کروائے۔ ان دنوں سرانجام خان، اقبال ظفر جھگڑا، پیر صابر شاہ اور عبدالسبحان خان بڑے سرگرم تھے اسی طرح خواتین میں شاہین حبیب اللہ، شازیہ اورنگزیب اور نجمہ نوشیروان بہت سرگرم تھیں۔
پختونوں نے مشکل ترین دور میں پشاور اور مردان میں کامیاب جلسے کروائے۔ بطور سیکریٹری جنرل کے پہلے سرانجام خان نے اور پھر اقبال ظفر جھگڑا نے صعوبتیں برداشت کیں مگر پارٹی کو ختم نہ ہونے دیا۔ اقبال ظفر جھگڑا کو بھی ایک حادثے کے بعد سمجھ آگئی ہے کہ جس پارٹی کے وہ سیکریٹری جنرل ہیں وہاں بے حسوں کی اکثریت ہے، جس پارٹی کیلئے انہوں نے برسوں جدوجہد کی تھی وہاں ایسے اونچے پیڑ ہیں جن کے پاس سایہ نہیں، سید عارف کا شعر یاد آگیا ہے کہ:
تو قد و قامت سے شخصیت کا اندازہ نہ کر
جتنے اونچے پیڑ تھے اتنا گھنا سایہ نہ تھا
حادثے نے جھگڑا کی آنکھیں کھول دی ہیں۔ جھگڑا صاحب کو پتہ چلا کہ سرکاری ٹی وی نے تو ان کے حادثے کی خبر تک نشر نہیں کی۔ حیرت ہے جو بندہ حکمران پارٹی کا سیکریٹری جنرل ہو، سابق سینیٹر ہو، اے آر ڈی اور اے پی ڈی ایم کا سیکریٹری جنرل رہا ہو، اس کا حادثہ ہوجائے اور ٹی وی اس کی خبر نشر نہ کرے بلکہ مالم جبہ کی برف باری دکھاتا رہے۔
مسلم لیگ (ن) کا سیکریٹری جنرل اسلام آباد کے پمز اسپتال میں رہا اور پارٹی کے وزیر اس کی عیادت نہ کرسکے۔ پرانے مسلم لیگی راجہ ظفرالحق آئے، تہمینہ دولتانہ آئیں اور اشکبار ہوگئیں۔ میری موجودگی میں ایک وفاقی وزیر کا فون آیا تو جھگڑا نے بات کرنے سے انکار کردیا اور کہا کہ اب انہیں تین چار دن بعد یاد آیا ہے کہ چلو اور کچھ نہیں تو فون ہی کرلو۔ بے حسی کا مظاہرہ کرنے والوں میں بڑے بھی شامل تھے اور وہ بھی جنہیں باراتیوں کا درجہ حاصل ہے۔ جھگڑا صاحب کے پاس اپوزیشن کے بہت لوگ آئے۔ اے این پی اور پیپلز پارٹی کے لوگوں نے تو محبت کی انتہا کردی۔ اپوزیشن لیڈر سید خورشید شاہ پیپلز پارٹی کے ایک فلمی کردار کے ہمراہ عیادت کیلئے آئے۔ مگر اقبال ظفر جھگڑا کی اپنی پارٹی کے اکثر لوگ پمز اسپتال کا رستہ بھول گئے۔ بھول جانے والوں میں وہ بھی شامل تھے جو ان کے ساتھ ڈپٹی سیکریٹری جنرل ہیں اور تو اور وہ بھی شامل تھے جنہیں پارٹی میں پناہ جھگڑا صاحب کی وجہ سے ملی۔
مسلم لیگ (ن) کی پتہ نہیں کیا پالیسی ہے۔ ان کی حکومت میں وزارت قانون خالی ہے حالانکہ ان کے پاس وہ ظفر علی شاہ موجود ہے جس کے گھر میں اے آر ڈی کا قیام عمل میں آیا تھا، وہ اے آر ڈی کے پہلے سیکریٹری اطلاعات بھی تھے، وہی پہلے وکیل تھے جو پرویز مشرف کیخلاف سپریم کورٹ گئے تھے اب وہ خالی وزارت ’’قانون‘ دیکھ رہے ہیں اور حیرت زدہ ہیں۔
حکومت کی ’’صلاحیتیں‘‘ نکھر کر سامنے آنے لگی ہیں۔ حکومت نے قومی اسمبلی کو بتایا ہے کہ ایک سال میں سات ارب نوے کروڑ کی گیس چوری ہوئی ہے۔ اس اعلیٰ کارکردگی پر حکومت کو انٹر نیشنل ایوارڈ ملنا چاہئے۔ آڈیٹر جنرل آف پاکستان بلند اختر رانا کے تازہ فرمان کے مطابق حکومت نے پانچ سو ارب کے گردشی قرضوں کی ادائیگی غیر قانونی طریقے سےکی ہے۔اسٹیٹ بینک آف پاکستان نے قرضوں کے بڑھنے پر تشویش کا اظہار کیا ہے۔ ایوان کی کمیٹیوں میں لطیفے سامنے آنے لگے ہیں۔ گزشتہ روز کمیٹی کے ایک اجلاس میں سینیٹر نجمہ حمید نےایک وزیر مملکت شیخ آفتاب کے بارے میں کہہ دیا کہ… ’’وہ 40 سال سے پارلیمنٹ کی راہداریوں میں چل چل کر گھس گئے ہیں۔ ایک دوسری کمیٹی میں کہا گیا کہ وزارت پانی و بجلی کا ایک ذیلی ادارہ کچھ نہیں کررہا حالانکہ وزیر صاحب ’’بہت کچھ‘‘ کررہے ہیں ان کے چرچے تو سمندر پار بھی ہیں۔ تازہ ترین اطلاع یہ ہے کہ اب عام پاکستانی قائد اعظمؒ اور علامہ اقبالؒ کے مزاروں پر نہیں جاسکیں گے۔ شاید اسی لئے الطاف حسین نے کہا ہے کہ… ’’لوگ اپنی حفاظت خود کریں۔‘‘
’’مثالی کارکردگی‘‘ کا اصل ’’چہرہ‘‘ یہ ہے کہ کچھ محکموں سے کئی افراد کو بے روزگار کردیا گیا ہے، کچھ کی فہرستیں تیار ہورہی ہیں کنٹریکٹ ملازمین کی فراغت کا ’’ترقیاتی منصوبہ‘‘ بھی ہے۔ باقی سرکاری ملازمین تنخواہیں بڑھانے کیلئے اس ہفتے سے مظاہرے شروع کررہے ہیں۔ سیاست کی قبر کے سامنے سوائے مظاہروں کے کیا بھی کیا جاسکتا ہے چلتے چلتے نذیر یاد کا شعر یاد آگیا ہے کہ:
لے کے بیٹھا ہوں وہی پیاس کا خالی برتن
ورنہ تالاب بھی برسات میں بھرجاتے ہیں
تازہ ترین