• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

کبھی آپ نے کسی ایسے شخص کو دیکھا ہے، جو دس کروڑ روپے کی نئی بڑی گاڑی لے کر اس میں جانورڈھوتا پھر رہا ہو۔ لوگ اکھٹے ہو کر اس شخص پہ قہقہہ لگا کر ہنسیں گے۔کبھی کوئی شخص بلڈوزر خرید کر اس پر سواریاں نہیں بٹھائے گا۔ اس دنیا میں جو بھی مشین بنائی جاتی ہے، اس کی ایک Specificationہوتی ہے۔ قیمتی چیز کو کمتر مقاصد کیلئے پاگل ہی استعمال کر سکتے ہیں۔ اس دنیا میں ایسے ایسے واقعات پیش آئے، جہاں ایک شخص کے پاس ایک انتہائی قیمتی چیز موجود تھی لیکن اسے اس کی اہمیت کا اندازہ ہی نہیں تھا۔ جیسے کوئی شہابِ ثاقب کو اپنی ورکشاپ میں پھینک دے۔ پھر اس شخص کوآپ کیا کہیں گے، جو ایک قیمتی شے کا مالک ہو لیکن اسے معلوم ہی نہ ہو کہ اس کے قیمتی فیچرز کیا ہیں۔ وہ اس قیمتی مشین سے فائدہ ہی نہ اٹھا سکے اور اسے ویسے ہی ضائع کر دے۔ ارشد شریف کو جب شہید کیا گیا تھا تو میں سوچتا رہا کہ کس قدر قیمتی مشین کو کتنے ارزاں مقاصد کیلئے ضائع کر دیا گیا۔

اس دنیا کے ہر شخص کو ایک انتہائی قیمتی مشین مفت میں دی گئی ہے اور وہ ہے آپ کا دماغ۔ اس دماغ کے اندر ایسے ایسے فنکشنز ہیں کہ جو شخص انہیں جان لے، اس کائنات کے اسرار اس پر کھلنے لگتے ہیں۔ اس دنیا میں شاید ایک فیصد لوگ بھی ایسے نہیں جو اس قیمتی مشین کو سمجھنے کی کوشش کریں۔ آپ یقین کریں کہ جس شخص نے اپنے کھیت میں گھسنے پر اونٹنی کی ٹانگ کاٹ ڈالی تھی، اس میں اور باقی سب انسانوں میں بھی یہ صلاحیت بدرجہ اتم پائی جاتی ہے کہ وہ کوانٹم مکینکس پڑھیں۔ وہ مگر دو آنے کی فصل کیلئے اونٹنیوں کی ٹانگیں کاٹتے پھر رہے ہیں۔ مغرب میں لوگ اس دماغ کو زیادہ استعمال کر رہے ہیں۔ کم از کم اس دنیا میں فائدہ مند چیزوں کو جان کر ان سے فائدہ اٹھانے میں وہ کسی قسم کی سستی نہیں کرتے۔ ادھر ہمارا حال یہ ہے کہ’’نہ خدا ہی ملا نہ وصالِ صنم....نہ ادھر کے ہوئے نہ ادھر کے ہوئے‘‘ہم دونوں طرف سے فارغ ہیں۔ اس قوم کا حال یہ ہے کہ بجلی صرف اس وجہ سے انتہائی مہنگی مل رہی ہے کہ بجلی پید اکرنے والے کارخانہ داروں سے غلط معاہدہ کر بیٹھے تھے۔ وہ معاہدہ یہ تھا کہ آپ بجلی پیدا کریں یا نہ کریں، آپ کی بجلی پیدا کرنے کی استعداد کے برابر رقم آپ کو ہر ماہ ملتی رہے گی۔ اس سے بھی بڑا لطیفہ یہ ہے کہ کئی بجلی گھر خود حکمران طبقے ہی کی ملکیت ہیں۔ بالکل اسی طرح جس طرح گنے کی قیمت مقرر کرنے اور چینی کی برآمد پر سبسڈی دینے والے حکمران خود ہی شوگر ملوں کے مالک ہیں۔ ادھر دوسری طرف سیاستدانوں کا حال یہ ہے کہ طاقتوروں کی طرف سے وہ سیاست میں اتارے جاتے اور انہی کی مرضی سے کوڑے دان میں ڈال دیے جاتے ہیں۔نمبر باقیوں کا بھی آنا ہوتا ہے۔ جس طرح ایک مرغی کو ذبح ہوتے دیکھ کر پنجرے میں بند دوسری مرغیاں کلمہ شکر پڑھ رہی ہوتی ہیں۔

قیمتی چیز کی بات ہو رہی تھی۔ پاکستانیوں کا دماغ کسی سے کمتر نہیں۔ یہ البتہ انسان کے مزاج پر منحصر ہے کہ وہ اس ذہانت کا استعمال کیسے کرے۔ پوری دنیا میں پاکستانیوں کی وجہ ء شہرت یہ ہے کہ وہ اس ذہانت کا مکمل استعمال صرف دوسروں کو دھوکہ دینے میں کرتے ہیں۔ اب بجلی کے بلوں میں چودہ فیصد سبسڈی کا مطلب کیا ہے؟ آنکھوں میں دھول جھونکنے کے سوا کچھ بھی نہیں۔دو مہینے کے بعد بل دوبارہ اتنا ہی ہو جائے گا۔ جس مقصد کیلئے حافظ نعیم الرحمٰن نے دھرنا دیا تھا اور اپنی طرف سے جیسے معاہدہ کر کے وہ کامیاب ہو کر گئے تھے، ابھی تک اس میں سے کچھ بھی نہیں ملا۔ ہونا تو یہ چاہئے تھا کہ بتدریج بجلی پیدا کرنے والے کارخانوں سے نئے معاہدے کیے جاتے، جس میں کیپیسٹی چارجز کی شق نکال دی جاتی۔ دریں اثنا طویل مدتی منصوبہ بندی کر کے سارا انحصار پانی سے بجلی پیدا کرنے کی طرف موڑا جاتا۔ ہوا مگر یہ ہے کہ کارخانوں کو اسی طرح کیپیسٹی چارجز کی مد میں پوری ادائیگی کی جائے گی۔ حکومت جو چودہ فیصد سبسڈی عوام کو دو ماہ کے لیے دے گی، وہ عوام ہی سے کسی اور مد میں وصول کر لی جائے گی۔ پنچوں کا حکم سر آنکھوں پر مگر پرنالہ وہیں گرے گا۔ حافظ نعیم الرحمٰن کی قیادت میں جماعتِ اسلامی نے جتنی بھی ریاضت کی، مریم نواز کی سربراہی میں لیگی قیادت جماعتِ اسلامی کو اس کا کوئی سیاسی فائدہ پہنچنے نہیں دے گی۔ یہ بات درست نہیں کہ حافظ نعیم الرحمٰن کی قیادت میں جماعتِ اسلامی اس وقت اسٹیبلشمنٹ کی بی ٹیم کا کردار ادا کر رہی ہے۔ یہ بات البتہ درست ہے کہ عمران خان کا سحر توڑنے اور اس کا متبادل پیش کرنے کیلئے جماعتِ اسلامی کو ایک فری ہینڈ دیا گیا ہے۔ جماعتِ اسلامی نے اس کا بھرپور فائدہ اٹھانے کی کوشش کی۔ یہ سب شارٹ ٹرم چالاکیاں ہیں۔ ہونا تو یہ چاہئے تھا کہ حافظ نعیم یہ موقف اختیار کر تے کہ جماعتِ اسلامی پاکستان کی کسی بھی سیاسی جماعت کو تنہا کر کے مصلوب کردینے کی اجازت نہیں دے گی۔ انہیں اپنی سابق اتحادی جماعت کیلئے آواز بلند کرنا چاہئے تھی۔ اس سے خود جماعتِ اسلامی کو لانگ ٹرم فائدہ پہنچتا کہ اس کا فطری اتحاد تحریکِ انصاف ہی سے بنتا ہے۔ جماعتیوں کو مگر یہ بات کون سمجھائے۔ حافظ نعیم تو پھر بھی غنیمت ہیں۔ سراج الحق کھلے عام آواز لگایا کرتے کہ تحریکِ انصاف کے کارکن جماعتِ اسلامی میں آجائیں۔

تازہ ترین