ٹیکسٹائل انڈسٹری کے حالات ہر گزرتے دن کے ساتھ مشکل سے مشکل تر ہوتے جا رہے ہیں۔ اس حوالے سے گزشتہ ایک ہفتے کے دوران سامنے آنے والی خبروں کے مطابق ملک کے ٹیکسٹائل حب فیصل آباد میں سو سے زائد چھوٹی بڑی فیکٹریاں انرجی ٹیرف اور مارک اپ میں اضافے کے باعث پیداواری لاگت بڑھنے سے بند ہو چکی ہیں۔ اس کے علاوہ بہت سی ٹیکسٹائل ملز میں جزوی بندش کے سبب شفٹوں کی تعداد تین سے کم ہو کر ایک یا دو رہ گئی ہے۔ ایک اندازے کے مطابق ٹیکسٹائل یونٹس کی بندش سے مجموعی طور پر شہر میں ڈیڑھ سے دو لاکھ مزدور بیروزگار ہو چکے ہیں۔
ملک کے سب سے بڑے صنعتی مرکز کراچی سے بھی ایسی ہی خبریں سننے کو مل رہی ہیں۔ پاکستان یارن مرچنٹس ایسوسی ایشن کےچیئرمین شیخ خلیل قیصر کے مطابق پاور ٹیرف میں غیرمعمولی اضافے سے ملک میں ٹیکسٹائل سیکٹر کی 50فیصد صنعتیں بند ہو گئی ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ ملک بھر میں قائم 580اسپننگ ملوں میں سے 29فیصد ملیں بند ہیں جبکہ 440نٹنگ ملوں میں سے 20فیصد بند ہو چکی ہیں۔ انہوں نے مزید بتایا ہے کہ 8لاکھ 80ہزار واٹر جیٹ مشینوں میں سے 32فیصد بند ہو چکی ہیں۔ ٹیکسٹائل انڈسٹری بند ہونے کی بڑی وجہ یہ ہے کہ بجلی اور گیس کی قیمتوں میں اضافے اور بینکوں کے مارک اپ میں کمی نہ ہونے کی وجہ سے انڈسٹری کی بقا خطرے میں ہے۔ عالمی سطح پر پاکستان کی ٹیکسٹائل مصنوعات دیگر حریف ممالک سے مسابقت میں بہت پیچھے رہ گئی ہیں اور زیادہ تر فیکٹریوں کو ایکسپورٹ آرڈرز ملنا بند ہو چکے ہیں۔ ان حالات میں جو ٹیکسٹائل ملز جزوی طور پر چل رہی ہیں وہ بھی پہلے سے بک کئے گئے آرڈرز کی تیاری تک محدود ہیں اور اگر انہیں مزید ایکسپورٹ آرڈرز نہ ملے تو آئندہ چند ہفتوں میں یہ ٹیکسٹائل ملز بھی بند ہونے کا اندیشہ ہے۔یہاں یہ امر قابل ذکر ہے کہ عالمی سطح پر پاکستان کیلئے برآمدات بڑھانے کے وسیع مواقع موجود ہیں کیونکہ بہت سے امریکی اور یورپی برانڈز چین چھوڑ کر جا رہے ہیں جبکہ بنگلہ دیش کے سیاسی حالات کی وجہ سے بھی پاکستان کو برآمدی آرڈرز ملنے کے مواقع موجود ہیں لیکن انرجی ٹیرف، مارک اپ ریٹ اور ٹیکسز کی شرح میں اضافےنے انڈسٹری کیلئے برآمدات بڑھانے کے راستے مسدود کر رکھے ہیں۔ اس لئے حکومت کو چاہیے کہ فوری طور پر انرجی ٹیرف کم کرے اور مارک اپ ریٹ کو بھی دس فیصد سے کم پر لائے۔یہاں یہ امر قابل ذکر ہے کہ گزشتہ ماہ پاکستان کی برآمدات 1.2 ارب ڈالر ہوئی ہیں حالانکہ انہیں باآسانی دو ارب ڈالر تک لے جایا جا سکتا تھا۔ حکومت کو سمجھنے کی ضرورت ہے کہ اس وقت عالمی مارکیٹ میں مواقع موجود ہیں، پاکستان میں خام مال، پیداواری صلاحیت اور انفراسٹرکچر بھی موجود ہے لیکن ضرورت اس امر کی ہے کہ کاروبار کرنے کے ماحول کو بہتر بنایا جائے تاکہ ملک میں معاشی استحکام کے ساتھ ساتھ روزگار کی فراہمی میں اضافہ ہو سکے۔ اس حوالے سے کورونا کی وبا کے دوران پاکستان کی برآمدات میں اضافے کی مثال ہمارے سامنے ہے۔ اگر اس وقت ہم نے مشکل ترین حالات میں برآمدات بڑھانے کا موقع ضائع نہیں کیا تھا تو اب ہمارے پاس اس حوالے سے زیادہ بہتر کارکردگی دکھانے کی صلاحیت موجود ہے۔ صنعتی شعبے میں پھیلی مایوسی کو ختم کرنے کیلئے حکومت کو واضح روڈ میپ دینے کی ضرورت ہے کہ انرجی ٹیرف میں کمی اور مارک اپ کی شرح کو نیچے لانے کیلئے اقدامات کی ٹائم لائن کیا ہے۔ علاوہ ازیں حکومت کو ریفنڈز کی واپسی کے حوالے سے بھی نظام کو فعال بنانے کی ضرورت ہے کیونکہ انڈسٹری کا زیادہ تر سرمایہ ریفنڈز کی ادائیگی میں تاخیر کے باعث ایف بی آر کے پاس پھنسا ہوا ہے۔ علاوہ ازیں رواں مالی سال کے بجٹ میں ایکسپورٹ سیکٹر پر جو اضافی ٹیکس لگائے گئے ہیں انہیں بھی واپس لینے کی ضرورت ہے۔ اس حوالے سے اگر اسٹیک ہولڈرز کو اعتماد میں لے کر اقدامات کئے جائیں تواس سے بھی انڈسٹری میں پائی جانے والی مایوسی کو ختم کرنے میں مدد ملے گی۔ حکومت کو موجودہ معاشی و سیاسی حالات اور خطے میں آنے والی تبدیلیوں کے سبب جن چیلنجز کا سامنا ہے اس میں معیشت کی بحالی سب سے بڑا چیلنج ہے۔ کمزور ملکی معیشت کے باعث حکومت بیرونی ادائیگیوں کو متوازن رکھنے کیلئے آئی ایم ایف سے ایک اور بیل آؤ ٹ پیکیج حاصل کرنے کیلئے کوششیں کر رہی ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ یہ مالیاتی پیکیج معیشت کو مستحکم رکھنے کیلئے ضروری ہے کیونکہ اس وقت ہماری جی ڈی پی کی شرح نمو پہلے ہی تقریباً تین فیصد پر رکی ہوئی ہے۔ تاہم اس سلسلے میں آئی ایم ایف کی شرائط کو پورا کرنے کے ساتھ ساتھ حکومت کو ملک میں صنعتی شعبے کو درپیش مشکلات کو بھی مدنظر رکھنا چاہیے اور اس حوالے سے فوری ریلیف دینے کے ساتھ ساتھ طویل المدت پالیسی تشکیل دینی چاہیے۔ اسی طرح شرح سود کو بھی کم کرنا انتہائی ضروری ہو چکا ہے کیونکہ گزشتہ پانچ سال سے بلند شرح سود کے باعث بھی معاشی سرگرمیوں پر جمود طاری ہے۔ صارفین کی قوت خرید کم ہونے کی وجہ سے کاروباری طبقے کیلئے بھی حالات خراب سے خراب تر ہوتے جا رہے ہیں۔ اگر حکومت ملک میں سیاسی طور پر اپنی حیثیت کو مستحکم بنانا چاہتی ہے تو اس کیلئے انڈسٹری کا پہیہ چلانا انتہائی ضروری ہے کیونکہ آبادی کے بڑے حصہ کا روزگار اس سے جڑا ہوا ہے۔ موجودہ حالات میں مل مالکان تو شاید کسی اور کاروبار میں سرمایہ کاری کرکے اپنا معاشی سرکل چلا لیں گے لیکن دیہاڑی دار مزدور اور ملازمت پیشہ افراد کیلئےملازمت کا خاتمہ اونٹ کی کمر پر آخری تنکا ثابت ہو گا۔ اس لئے ردعمل میں وہ حکومت کے خلاف سڑکوں پر بھی آ سکتے ہیں جس سے حالات مزید خراب ہونے کا اندیشہ ہے۔