کچے کے ڈاکوؤں کا دائرۂ جرائم دن بدن وسیع تر ہوتا جا رہا ہے اور اسی شرح سے وہاں کے رہنے والوں میں خوف وہراس کے ساتھ ساتھ احساس عدم تحفظ بھی بڑھ رہا کیونکہ پولیس فورس جو عوام کو تحفظ فراہم کرنے کی ذمہ دار ہے، خود حکومت کے غیر مؤثر اور غیر ذمہ دارانہ رویے کی وجہ سے عدم تحفظ کا شکار ہے۔پولیس کا وہ حلقہ جو ان جرائم پیشہ گروہوں کے خاتمے کے لئے مؤثر اور قابل عمل حکمت عملی بنانے کا ذمہ دار ہے، اپنے ریاستی فرائض بھول کرحکمرانوں کی غلامی میں لگا ہے اور یہ سوچنے کے قابل نہیں کہ کہاں ان کی حکمت عملی میں جھول ہیں؟ کہاں منصوبہ بندی میں کمزوریاں ہیں ؟ جس کے سبب وہ امن و امان قائم کرنے میں ناکام ہیں اور عوام میں عدم تحفظ کا احساس بیدار ہو رہا ہے۔کیوں کچے کے ڈاکواس قدر دلیری کے ساتھ قانون نافذ کرنے والے اداروں کا حصار توڑ کر آبادیوں میں گھس آتے ہیں اور کئی زمینداروں، صنعتکاروں اور سیاستدانوں کو اغوا کرکے کسی رکاوٹ کے بغیر اپنی پناہ گاہوں میں لے جاتے ہیں اور تاوان کی بھاری رقوم لے کر رہا کرتے ہیں ۔کئی میلوں پر محیط کچے کا علاقہ ڈاکوؤں اور دہشتگردوں کے زیر تسلط ہے لیکن کوئی حکومت ان ریاست دشمن عناصر حکومت یا قانون نافذ کرنے والے اداروں کے اعلیٰ حکام کو یہ پیغام دینے کے لئے باوردی پولیس اہلکاروں کو اغوا کرکے کچے کے علاقے میں لے جاتے ہیں کہ ان کے نزدیک پولیس کی کوئی حیثیت نہیں کیونکہ علاقے کے اکثر پولیس اہلکار ان کے لئے کام کرتے ہیں یا ان کے ساتھی اور کارندے ہیں اور یہ مؤقف درست ہو سکتا ہے کہ ایسے علاقوں کی پولیس ان جرائم پیشہ عناصر کے سہولتکار اور مخبر ہوتے ہیں یہی وجہ ہے کہ پولیس کارروائی سے پہلے جرائم پیشہ عناصر کو ان کے خلاف آپریشن کی خبر ہو جاتی ہے۔یہ بھی ایک تلخ حقیقت ہے کہ حکومت، اس کی متعلقہ وزارت یا پولیس کی اعلیٰ قیادت اس سنگین معاشرتی مسئلہ پر غور کرنے، اس کے بارے میں سنجیدگی سے منصوبہ بندی کرنے یا اس قومی مسئلہ کو اپنی ترجیحات میں شامل کرنے میں دلچسپی اور نہ ہی ارادہ رکھتے ہیں جس کی بنیادی وجہ پولیس کی اعلیٰ ترین سطح پر بھی پیشہ ورانہ صلاحیتوں کا فقدان بلکہ انتہائی حد تک پروفیشنلزم کے بارے میں لاعلمی ہے۔ پولیس حکام کریک ڈاؤن کے لئے کسی بڑے سانحہ کر انتظار میں رہتے ہیں۔ایسی بے شمار مثالیں موجود ہیں جب کوئی ناخوشگوار واقعہ پیش آنے کے بعد غیر پیشہ ور پولیس افسروں کو ہاتھوں پیروں کی پڑ جاتی ہے اور اس وقت ان کا مسئلہ یہ نہیں ہوتا کہ ایسے سانحات کی آئیندہ روک تھام کے لئے کیا اقدامات کرنا ہیں بلکہ ان کا وقتی مطمع نظر صرف حکمرانوں کو مطمئین اور خوش کرنا ہوتا ہے جس وہ اس قدر تربیت یافتہ ہوتے ہیں کہ وہ یہ کام آسانی سے کر گزرتے ہیں کیونکہ انہیں پولیسنگ کی نہیں، غلامی کی تربیت ہوتی ہے۔منصوبہ بندی کی اہلیت اور پروفیشنل پولیسنگ کا فقدان ان کی بنیادی خوبی تصور کی جاتی اور یہی خوبی انہیں عروج پر پہنچاتی ہے۔پیشہ ورانہ تربیت کی بجائے سیاسی آقاؤں کی غلامی میں مہارت بہترین میرٹ تصور کیا جاتا ہے۔ ذوالفقار چیمہ جیسا کوئی منصوبہ ساز اور ماہر پیشہ ور آفیسر کہاں ڈھونڈا جائے جو گوجرانوالہ، شیخوپورہ اور ان ڈویژنز کے زیر انتظام ضلعوں وہاں امن قائم کیا جہاں بڑے صنعتکاروں اور کاروباری شخصیات کے اغوا کرکے اربوں روپے تاوان وصول کرنا معمول کی بات تھی یہاں تک بیشتر صنعتکاروں اور تاجروں نے اپنے کاروبار بیرون ملک منتقل کرنا شروع کر دئیے تھے جب ذوالفقار چیمہ نے ریجنل پولیس چیف کی حیثیت سے ذمہ داریاں سنبھالیں تو اس علاقے میں دہشت پھیلانے والے عناصر کی تفصیلات حاصل کیں اور جرائم کی دنیا "انڈر ورلڈ" مافیا کے مرکزی کرداروں کی فہرستیں مرتب کیں تو معلوم ہوا کہ جرائم کی دنیا پر "ننھو گورایا" گینگ حکمرانی کر رہا ہے اور پولیس اور سیاست کے کھلاڑیوں میں جرات ہی نہیں کہ وہ اس کے رستے کی رکاوٹ بنیں۔کہتے ہیں کہ "ننھو گورایا" خوف کی ایسی علامت تھا جو بارڈر پار بھی سنا اور محسوس کیا جاتا تھا۔اس وقت ننھو گورایا کا "پایۂ تحت" شائد بنکاک یا ہانگ کانگ میں تھا جب ذوالفقار چیمہ نے گوجرانوالہ اور شیخوپورہ میں جرائم مافیا اور انڈر ورلڈ کا قلع قمع کرنے کے لئے چارج سنبھالا تھا۔اس پروفیشنل پولیس آفیسر نےجرائم کی دنیا کو تاراج کرنے کی اس قدر مربوط اور مضبوط منصوبہ بندی کی کہ ننھو گورایا کے پاس ملک واپس آنے کے علاوہ کوئی دوسرا راستہ نہیں تھا، جیسے ہی ننھو گورایا نے ائرپورٹ پر لینڈ کیا پولیس نے اسے گرفتار کرلیا لیکن ریمانڈ کے دوران ایک مقام سے دوسرے مقام پر منتقلی کے دوران ننھو گارایا نے فرار کی کوشش کی تو پولیس مقابلے میں مارا گیا لیکن لوگوں کو اس کی موت کا یقین نہیں آیا تواس کی لاش عوام کو دکھائی گئی اور چند دنوں میں عوام میں احساس تحفظ بیدار ہوا تو رفتہ رفتہ شہر کی رونقیں بحال ہو گئیں۔