مرتب: محمّد ہمایوں ظفر
’’یادیں‘‘ کیا ہوتی ہیں ؟کوئی ایسی بات،کوئی ایسا واقعہ، کسی شخصیت کے ساتھ گزارے ہوئے لمحات، جو ہمارے ذہن کے کسی کونے میں ہمیشہ کے لیے مقیّد ہو جاتے ہیں، وہ یادیں ہی کہلاتی ہیں اور پھر اگر یہ یادیں والدین کی ذات سے جڑی ہوں، تو زندگی کا قیمتی ترین سرمایہ بن جاتی ہیں۔ جیسا کہ میرے والد، قمرالحسن قمر کی خُوب صُورت یادیں، پیار بَھری باتیں، نصیحتیں اور محبتیں میرے لیے کسی قیمتی سرمائے سے کم نہیں۔
وہ تین دہائیوں تک قوم کے بچّوں میں علم کی روشنی بانٹتے رہے۔ اسکول کے معاملات کے ضمن میں ایک سخت گیر پرنسپل مشہور تھے، کبھی اصولوں پر سمجھوتا نہیں کرتے تھے، مگر اپنے طلبہ کے لیے ایک شفیق و مہربان استاد کے رُوپ میں سائبان کی سی حیثیت رکھتے تھے۔ آج اُن سے فیض پانے والے لاتعداد طلبہ مختلف شعبہ ہائے زندگی میں کارہائے نمایاں انجام دے رہے ہیں۔
یوں تو میرے ذہن کے نہاں خانوں میں اپنے شفیق والد کی بہت سی یادیں محفوظ ہیں، لیکن جب بھی انھیں صفحۂ قرطاس پر منتقل کرنے کی کوشش کرتی ہوں، تو آنکھوں سے بے اختیار آنسو جاری ہوجاتے ہیں، نظر دُھندلا جاتی ہے، الفاظ گڈمڈ ہونے لگتے ہیں۔ خیالات کی ایسی آندھی چلتی ہے کہ جو مجھے میرے بچپن میں لے جاکے کھڑا کردیتی ہے، جب میں چھے سال کی ایک کم زور سی بچّی تھی۔ مجھے یاد ہے، اُس وقت ہمارے گھر میں ایک بڑا سا صحن ہوتا تھا، جس میں سوہانجنے اور پپیتے کے درخت تھے۔
ایک طرف سدابہار کے پودے اور دوسری طرف امّی نے لوکی کی بیلیں لگا رکھی تھیں، جو بڑھتے بڑھتے چھت تک جا پہنچی تھیں۔ اُن بیلوں میں پھلنے پُھولنے والی لوکیاں جب تیار ہوجاتیں، تو مَیں انھیں اُتار کے بھائی کے ساتھ مل کر محلّے کے ہر گھر میں بانٹا کرتی تھی۔ ابّو کی عادت تھی کہ رات کے کھانے کے بعد گھر سے باہر ٹہلنے جاتے تھے، تو اُن کے نکلتے ہی مَیں اپنے پاؤں پلنگ کے اوپر کرکے بیٹھ جاتی تھی کہ کہیں کوئی نیچے سے میرا پاؤں نہ کھینچ لے۔
اُس وقت مجھے چوروں اور جِنوں، بھوتوں سے بہت ڈر لگتا تھا۔ جب تک ابّو باہر رہتے، مَیں دُعا کرتی رہتی کہ وہ جلدی سے گھر آجائیں۔ پھر جیسے ہی دروازہ کُھلتا اور ابّو کی آواز سماعتوں سے ٹکراتی، مَیں چھلانگ مار کر بستر سے اترکر پلنگ کے نیچے جھانک کے زور دار آواز میں کہتی ’’اے چور! اگر ہمّت ہے، تو میرے سامنے آؤ، میرے ابّو گھر آگئے ہیں، اب مجھے کوئی ڈر نہیں لگ رہا۔‘‘ اسی طرح اکثر درخت کے سامنے کھڑے ہوکر اَن دیکھی مخلوق سے مخاطب ہوکر کہتی ’’اے جِن! میرے ابّو گھر میں ہیں، اب تم مجھے نہیں ڈرا سکتے۔‘‘
حالاں کہ امّی رات کو درخت کے نیچے کھڑے ہونے سے منع کرتی تھیں، لیکن میرے لیے تو میرے ابّو سُپرمین تھے، اُن کے ہوتے ہوئے مَیں خود کو ہر طرح سے محفوظ تصوّر کرتی تھی۔ گرمیوں کی راتوں میں ہم سب صحن میں بستر لگا کر سویا کرتے تھے، تو مَیں اوپر تاروں بَھرا آسمان دیکھ کر ابّو سے پوچھتی کہ ’’ابّو! یہ تارے دن میں کیوں نہیں نظر آتے؟‘‘ کبھی پوچھتی ’’یہ تارے کب سے چمک رہے ہیں، ان کی روشنی ختم کیوں نہیں ہوتی؟‘‘ بادلوں کو تو مَیں کسی نہ کسی جانور سے تشبیہ دیتی تھی، کبھی وہ مجھے اونٹ لگتے، کبھی ہاتھی۔
اُن کے بارے میں ایک بار مَیں نے پوچھا ’’ابّو! یہ سارے جانور نما بادل کہاں بھاگے جارہے ہیں؟‘‘ میرے اس سوال کا انھوں نے بڑے تحّمل سے جواب دیا تھا، آج بھی جب مَیں یاد کرتی ہوں، تو ہنسی آجاتی ہے، انھوں نے کہا تھا کہ ’’بیٹا! یہ سارے جانور سمندر کنارے جارہے ہیں، وہاں یہ لمبی سانس لے کر اپنے منہ میں پانی بھریں گے اور جہاں ضرورت ہوگی، وہاں برسادیں گے۔‘‘ اور جب میں خود ماں بنی، تو مجھے معلوم ہوا کہ بچّوں کے سوالات کے جوابات، اُن کی سطح پر آکر کیسے اور کیوں دیئے جاتے ہیں۔
بچپن کا وہ دَور بُھلائے نہیں بھولتا،جب مَیں بھائی کے ساتھ مل کر گھر بھر میں خوب شرارتیں کیا کرتی تھی، ایسے میں امّی ہمیں ڈراتے ہوئے کہتیں ’’آنے دو تمہارے ابّو کو، اُن سے تمہاری شکایت کروں گی۔‘‘ اور ہم ڈر کر فوراً دوسرے کمرے میں چُھپ جاتے تھے، لیکِن اتنا یقین ہوتا تھا کہ ابّو ہمیں نہیں ڈانٹیں گے، کیوں کہ امّی یہ جملہ صرف ہمارے دل میں اُن کا رُعب بٹھانے کے لیے بولتی تھیں۔
گویا یہ ہماری تربیت کا حصّہ تھا کہ ’’کھلاؤ سونے کا نوالہ، دیکھو شیر کی نظر سے۔‘‘ بلاشبہ، یہ امّی، ابّو ہی کا رُعب تھا، جس نے ہم دونوں بہن، بھائی کو زندگی کی شاہ راہ پر کبھی بھی ڈگمگانے نہیں دیا۔ جب میں سات برس کی تھی، تو ایک دن کھیل کے دوران اپنا ہاتھ فریکچر کروا بیٹھی، سارا دن درد اور کرب سے بلبلاتی رہی، شام کو ابّو آئے اور انھیں پتا چلا تو بے حد پریشان ہوگئے، فوراً الٹے قدموں مجھے گود میں لے کر اسپتال پہنچ گئے۔ اسی طرح گیارہ برس کی عُمر میں جب مجھے شدید بخار ہوا۔
مختلف میڈیکل ٹیسٹس اور ایکس ریز کے باوجود ڈاکٹرز کو کچھ سمجھ نہیں آرہا تھا، تو اس وقت ابّو کی پریشانی دیدنی تھی۔ اُن کا میرے لیے پریشان ہونا میں کیسے بُھول سکتی ہوں، خاص طور پر ابّو کا وہ جملہ تو مجھے آج بھی رُلاتا ہے کہ’’بیٹا! مَیں اپنے خون کا آخری قطرہ بھی دے کر تمہیں بچالوں گا۔‘‘ اور اس کے بعد جائے نماز پر اللہ تعالیٰ سے رو رو کر میری صحت یابی کی دُعائیں مانگنا، اُن کا گِڑگڑانا اور میرا صحت یاب ہوجانا، سب کسی کرامت سے کم نہیں تھا۔
میری زندگی کا ایک یادگار لمحہ وہ بھی ہے، جب پہلی بار مَیں نے پُھولی ہوئی گول روٹی پکائی اورخوشی سے نعرہ لگایا کہ ’’امّی! دیکھیے، میں نے آپ کی طرح پھولی ہوئی روٹی پکائی ہے۔‘‘ تو ابّو اُسی وقت گھر داخل ہو رہے تھے، میری آواز سُنی تو سیدھے میرے پاس چلے آئے۔ وہ ایسے خوش ہورہے تھے، جیسے میں نے کوئی بہت بڑاکارنامہ سرانجام دیا ہو، فوراً جیب سے پانچ روپے (آج کے کئی سو روپوں کے برابر) نکال کر ہاتھ پر رکھے اور میری خوشی دوبالا کردی۔
پیارے ابّو! مَیں آپ کی کون کون سی باتیں یاد کروں، ابھی تو مَیں بچپن ہی سے باہر نہیں نکل پا رہی۔ اپنی گرمیوں کی چھٹّیاں بھی مجھے اچھی طرح یاد ہیں، کیوں کہ میرے ساتھ ساتھ آپ کے اسکول کی بھی چھٹّی ہوا کرتی تھی۔ اُن چُھٹیوں میں آپ کا نعتیں سُننا اور سُنانا، ہمیں انگلش گرامر سکھانا، ہمارے ساتھ لڈو اورکیرم کھیلنا، سیر و تفریح کے لیے چڑیا گھرلے کر جانا..... ایک ایک لمحہ میرے حافظے میں آج تک محفوظ ہے۔ اور پھر کب بچپن رخصت ہوا اور جوانی نے دستک دی، کچھ پتا ہی نہیں چلا۔
جیسے ہی تعلیم مکمل ہوئی، سنّتِ نبویؐ کی اطاعت میں مجھے پیا دیس سدھار دیا گیا۔ اور پھر شادی کے بعد، جب مَیں بچّوں کے ساتھ میکے آیا کرتی، تو ابّو کا چہرہ خوشی سے کِھل اُٹھتا، فرطِ مسّرت سے امّی کو پکارتے ’’ارے کہاں ہو، دیکھو ہماری وٹامن کی گولیاں (مَیں اور بچّے) آگئی ہیں۔‘‘
اُن کا وہ جملہ آج بھی میری سماعتوں میں گونجتا ہے۔ امّی کے انتقال کے تیرہ سال بعد8مئی 2017ء کو ابّو بھی ہمیں داغِ مفارقت دے گئے۔ اُنھیں ہم سے بچھڑے7سال ہوچکے ہیں، لیکن اب تک یقین نہیں آتا، ایسا محسوس ہوتا ہے کہ وہ اب بھی میرا انتظار کر رہے ہیں، میں جاؤں گی، تو اُنہیں بستر پر لیٹا پاؤں گی، مگر بے شک، اللہ اپنے بندوں پر بہت مہربان ہے، اُس نے انھیں چلتے پھرتے اپنے پاس بلا لیا۔
ابّو کہا کرتے تھے ’’ہمیشہ نیم کا درخت بننےکی کوشش کرو، جو دوست اور دشمن سب پر یک ساں سایہ فگن رہتا ہے اور ہر ایک کے ساتھ کسی صلے اور ستائش کی تمنّا کے بغیر خیر و بھلائی کرتے رہو، اللہ اس کا بہت اجر دیتا ہے۔‘‘ ابّو کی تمام باتیں مَیں نے گرہ میں باندھ رکھی ہیں اور حتی الامکان عمل کی کوشش بھی کرتی ہوں۔ مطالعے کی عادت اور لکھنے کا شوق بھی مجھے ابّو ہی سے ورثے میں ملا۔ مجھے یاد ہے، بچپن میں جمعے کو عام تعطیل ہوا کرتی تھی اور ہمارے گھر ’’روزنامہ جنگ‘‘ باقاعدگی سے آیا کرتا تھا۔ ابّو کے پاس ایک اورنج کلر کی ڈائری تھی، تو اس میں وہ اقوالِ زرّیں نوٹ کیا کرتے تھے۔ اس کے علاوہ اسلامی صفحے سے بھی مختلف مضامین کاٹ کر اپنے پاس محفوظ کرلیتے تھے۔
مَیں جب پوچھتی، تو کہتے ’’دسویں جماعت کے بچّوں کو آٹو گراف بُک میں کچھ لکھ کے دینا ہوتا ہے، اس لیے اقوالِ زرّیں اور اچھے اشعار نوٹ کرتا ہوں۔ تم بھی جب بڑی ہوجاؤگی تو نوٹ کیا کرنا، یہ بہترین مشغلہ ہے۔‘‘ 4 مئی 2024ء کو ’’رائٹرز ایوارڈز‘‘ کی تقریب میں انعام دینے کے لیے، جب میرا نام پکارا گیا، تو ابّو بے تحاشا یاد آئے۔
اللہ سے دُعا ہے کہ اپنے پیارے ابّو کے نقشِ قدم پر چلتے ہوئے جہاں تک میری بساط ہو، خیر پھیلاؤں اور اُن کے لیے صدقۂ جاریہ بنوں۔ آمین۔ ؎ یہ کام یابیاں، عزت، یہ نام تم سے ہے.....اے ’’میرے باپ‘‘مِرا سارا مقام تم سے ہے ..... تمہارے دَم سے ہیں، میرے لہو میں کھلتے گلاب.....مِرے وجود کا سارا نظام تم سے ہے..... کہاں بساطِ جہاں اور مَیں کم سِن و ناداں .....یہ میری جیت کا سب اہتمام تم سے ہے۔ (روزینہ خورشید، کراچی)