• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
بھارتی سیاستدانوں کو اکثر یہ کہتے سنا گیا ہے کہ پاکستان اس لئے آزاد ہوگیا کہ اُس وقت کے بھارتی لیڈر گاندھی اور نہرو، قائداعظم جیسی قائدانہ اور دوراندیشانہ صلاحیتوں کے حامل نہ تھے۔ ان کا یہ بھی کہنا ہے کہ ’’قائداعظم کے بعد پاکستان کو اُس پائے کا کوئی لیڈر نہیں مل سکا، اسی لئے آزادی کے 66 سال گزرنے کے بعد بھی پاکستان ترقی کے وہ منازل طے نہ کرسکا جن کا خواب قائداعظم نے دیکھا تھا لیکن اس کے برعکس بھارت نے اپنی لیڈرشپ کی بدولت بے پناہ ترقی حاصل کی‘‘۔
اس میں کوئی شک نہیں کہ قائداعظم نے جس طرح تن تنہا ایک گولی چلائے بغیر مسلمانوں کے لئے علیحدہ وطن حاصل کیا، اس کی مثال دنیا میں کہیں نہیں ملتی۔ قائد کی وفات کے بعد اس انکشاف سے پردہ اٹھا کہ وہ جس وقت آزادی کی جنگ لڑ رہے تھے، اُنہیں ٹی بی کا مہلک مرض لاحق تھا جسے انہوں نے دوسروں سے پوشیدہ رکھا اور اس کا علم اپنی بہن فاطمہ جناح کے علاوہ کسی کو نہ ہونے دیا جبکہ انہوں نے علاج کرانے پر بھی توجہ نہ دی کیونکہ انہیں ڈر تھا کہ اگر ان کی بیماری کا راز فاش ہو گیا تو اس سے نہ صرف جدوجہد آزادی کی مہم کمزور پڑ جائے گی بلکہ دشمن بھی اس کا فائدہ اٹھائیں گے۔ قائداعظم کا یہی جذبہ حب الوطنی تھی جس کی بدولت مسلمانوں کو آزاد وطن حاصل ہوا لیکن قیام پاکستان کے بعد قائداعظم پر ذمہ داریوں کا بوجھ بڑھتا گیا جس کے باعث ان کی صحت بگڑتی چلی گئی اور آزادی کے صرف ایک سال بعد وہ دنیا سے رخصت ہو گئے۔ قائداعظم کی موت کے بعد سابق وائسرائے لارڈ مائونٹ بیٹن نے کہا کہ ’’اگر اُنہیں یہ علم ہوجاتا کہ جناح ٹی بی جیسے موذی مرض میں مبتلا ہیں تو وہ مذاکرات کو طول دے دیتے تاکہ جناح کی موت کے بعد جدوجہد آزادی کی مہم کمزور پڑجاتی اور پاکستان معرض وجود میں نہ آتا‘‘۔ مجھے اس بات پر پورا یقین ہے کہ اللہ تعالیٰ نے قائداعظم کو دنیا میں ایک مملکت اسلامی کے قیام کے لئے بھیجا تھا اور جب وہ مقصد پورا ہوگیا تو اللہ تعالیٰ نے اُنہیں اپنے پاس بلالیا۔
قائداعظم کی آخری قیام گاہ گورنر ہائوس کراچی کی وہ عمارت جہاں قائد نے پاکستان کے پہلے گورنر جنرل کی حیثیت سے اپنے عہدے کا حلف اٹھایا اور مرتے دم تک یہاں مقیم رہے، ہر پاکستانی کے لئے تاریخی حیثیت رکھتی ہے۔ اس عمارت میں میرا اکثر مختلف تقریبات میں شرکت کے لئے آنا جانا رہتا ہے، میں جب بھی یہاں آتا ہوں قائداعظم کے دور میں چلا جاتا ہوں کیونکہ اس عمارت کے ہر حصے سے قائد کی یادیں وابستہ ہیں لیکن کچھ روز قبل یہاں گزارے گئے دن مجھے ہمیشہ یاد رہیں گے جسے میں اپنی زندگی کا سرمایہ سمجھتا ہوں۔ گزشتہ دنوں جب گورنر پنجاب چوہدری محمد سرور میری دعوت پر عشایئے میں شرکت کے لئے کراچی تشریف لائے تو اُن کا قیام گورنر ہائوس کے اُس حصے میں تھا جو کسی وقت میں قائداعظم کی خواب گاہ اور دفتر کے طور پر استعمال ہوتا تھا۔ اس طرح گورنر پنجاب کے دو روزہ قیام کے دوران میرا زیادہ تر وقت عمارت کے اسی حصے میں گزرا۔
میری خواہش پر جب گورنر ہائوس کی انتظامیہ نے قائداعظم کے دفتر جو ہمیشہ تالہ بند رہتا ہے، کو میرے لئے کھولا اور میں جب دفتر میں داخل ہوا تو مجھے ایک لمحے کے لئے ایسا لگا کہ جیسے قائداعظم اپنے دفتر سے اٹھ کر کچھ دیر کے لئے کہیں گئے ہوں کیونکہ دفتر میں قائداعظم کی ذاتی اشیاء آج بھی جوں کی توں موجود ہیں۔ قائداعظم کے زیر استعمال حصے میں موجود کمرے کے ایک جانب لکڑی کی میز مع کرسی رکھی تھی جہاں قائداعظم ملکی امور سرانجام دیا کرتے تھے جبکہ میز کے سامنے مزید 3 کرسیاں موجود تھیں۔ اس کے علاوہ کمرے میں پرانی طرز کا ایک صوفہ سیٹ بھی اپنی اصلی حالت میں موجود تھا جس پر قائداعظم سے ملاقات کے لئے آنے والے مہمان تشریف فرما ہوتے تھے۔ کمرے کے ایک جانب قائداعظم کی رائٹنگ ٹیبل بھی موجود تھی جبکہ کمرے کی ایک دیوار پر قائداعظم کے والد، والدہ، بہن اور بیٹی کی کچھ ایسی نادر تصاویر آویزاں تھیں جو میں نے اس سے قبل نہیں دیکھی تھیں۔ ان تصاویر میں ایک جگہ قائداعظم کو گھوڑے پر سوار جبکہ دوسری جگہ زیارت میں زمین پر لیٹے دکھایا گیا ہے۔ اس کے علاوہ کمرے کی دوسری دیوار پر قائداعظم کے انڈین پاسپورٹ کی فوٹو کاپی اور ساتھ ہی سندھ مدرستہ الاسلام میں داخلے کے رجسٹر کا صفحہ فریم کرکے آویزاں کیا گیا تھا۔ کمرے میں موجود ایک شوکیس میں قائداعظم کا نقرئی قلمدان، لائٹر اور سگار باکس جبکہ قریب ہی اُن کا شیونگ ریزر بھی رکھا تھا۔ میں نے قائداعظم کے زیر استعمال اس حصے میں کافی دیر تک وقت گزارا، اس دوران مجھے قائداعظم کی اُس کرسی پر بیٹھنے کا شرف بھی حاصل ہوا جس پر بیٹھ کر قائداعظم دفتری امور انجام دیا کرتے تھے۔ کمرے میں بچھے قالین کے بارے میں مجھے بتایا گیا کہ یہ 400 سال پرانا ہے اور قائداعظم کے علاوہ برطانوی دور کے کئی گورنروں کے زیر استعمال رہا ہے۔ میں جب قائداعظم کے دفتر سے متصل باتھ روم میں داخل ہوا تو مجھے قدیم طرز کے اس دفتر کے ساتھ جدید طرز کا باتھ روم دیکھ کر بڑی حیرانگی ہوئی کیونکہ یہ باتھ روم قدیم طرز کے دفتر سے کسی طرح بھی مطابقت نہیں رکھتا تھا۔ اس موقع پر دفتر کی نگرانی پر مامور افسر نے مجھے بتایا کہ یہ دفتر گورنر سندھ ڈاکٹر عشرت العباد سے قبل کے ایک گورنر کے زیر استعمال رہ چکا ہے، اس دوران اُنہیں پرانے طرز کا یہ باتھ روم پسند نہ آیا جسے انہوں نے جدید طرز کے باتھ روم میں تبدیل کرادیا۔
کمرے میں موجود قائداعظم کے زیر استعمال کٹلری اور ڈنر سیٹ دیکھ کر مجھے نواب آف بہاولپور صلاح الدین عباسی کا وہ واقعہ یاد آگیا جو انہوں نے دوران ملاقات مجھے سنایا تھا۔ اُن کے بقول قیام پاکستان کے فوری بعد جب ایران کے شہنشاہ رضا شاہ پہلوی پاکستان کے دورے پر آئے تو اُن کے اعزاز میں قائداعظم نے گورنر ہائوس میں عشایئے کا اہتمام کیا مگر کوئی اچھا ڈنر سیٹ نہ ہونے کے سبب قائداعظم نے نواب آف بہاولپور سے درخواست کی کہ وہ عشایئے کے لئے اپنا ڈنر سیٹ بھجوادیں جس پر نواب صاحب نے اپنا قیمتی ڈنر سیٹ بذریعہ ریل کراچی بھجوادیا لیکن جب شہنشاہ ایران کے دورے کے بعد قائداعظم نے وہ ڈنر سیٹ واپس کرنا چاہا تو نواب آف بہاولپور نے اُنہیں ایسا کرنے سے روکا اور کہا کہ ’’آپ اسے میری جانب سے تحفہ سمجھیں‘‘۔
قیام پاکستان کے بعد ملک کی معاشی ابتری کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ اُس وقت سرکاری ملازمین کی پہلی تنخواہ نواب آف بہاولپور کے خزانے سے ادا کی گئی تھی، اس دور میں دفتروں میں کاغذ نتھی کرنے کے لئے پیپر پن تک دستیاب نہ تھی اور اس کے لئے کانٹے استعمال کئے جاتے تھے مگر ان حالات میں بھی قائداعظم نے ہمت اور بڑی جانفشانی سے حالات کا مقابلہ کیا۔ یہ حقیقت بھی سب پر واضح ہے کہ جب قائداعظم کو اُن کی زندگی کے آخری ایام میں زیارت سے کراچی منتقل کیا گیا تو ایئرپورٹ سے جس ایمبولینس میں اُنہیں لایا جارہا تھا، خستہ حالی کے سبب راستے میں ہی خراب ہوگئی اور متبادل ایمبولینس آنے تک قائداعظم ایک گھنٹے تک خستہ حال ایمبولینس میں تکلیف کی حالت میں پڑے رہے۔ اس موقع پر قائداعظم کے رفقاء نے اُنہیں بیرون ملک علاج کرانے کا مشورہ بھی دیا لیکن انہوں نے قومی خزانے پر بوجھ بننا گوارہ نہ کیا مگر افسوس کہ آج اُسی قائد کے دیئے ہوئے وطن کے حکمراں معمولی بیماری میں بھی بیرون ملک علاج کرانے، بلٹ پروف گاڑیوں میں گھومنے، شاہانہ طرز زندگی گزارنے اور ملکی دولت اپنے اوپر لٹانے میں فخر محسوس کرتے ہیں۔ کاش کہ ہمارے حکمراں بھی قائداعظم کی سادہ طرز زندگی اور اُن کی اٹھائی گئی تکالیف کا احساس کرتے ہوئے سبق حاصل کریں۔
تازہ ترین