• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

گوگل ہیئر اے آئی ماڈل: کھانسی کی آواز سے امراض کی تشخیص ممکن

ـــ فائل فوٹو
ـــ فائل فوٹو

دنیا کے سب سے بڑے سرچ انجن گوگل کی ایک ٹیم نے ایک ایسا اے آئی ماڈل تیار کر لیا ہے جو کھانسی کی آوازوں سے بیماریوں کی تشخیص کرنے کی صلاحیت رکھتا ہے۔

رواں سال گوگل نے نیا اے آئی ماڈل ہیلتھ ایکوسٹک ریپریزنٹیشن (HeAR) متعارف کروایا ہے جو محققین کو آواز کے نمونوں کا تجزیہ کر کے آوازوں میں موجود معمولی فرق سے مخصوص بیماریوں کی تشخیص کرنے میں مدد فراہم کرے گا۔

یہ ماڈل فی الحال محققین کے لیے دستیاب ہے اور اسے تقریباً 100 ملین کھانسی کی آوازوں کا استعمال کرتے ہوئے تربیت دی گئی ہے۔

اس حوالے سے گوگل کی ٹیم کا کہنا ہے کہ اس اے آئی سسٹم کو دوسرے تمام  ماڈلز سے اونچا درجہ دیا گیا ہے۔

بھارت میں مقیم ایک کمپنی  سالسیٹ ٹیکنالوجیز نے بھی اسی طرح کا  ’سواسا‘ نامی ایک اے آئی ماڈل ڈیزائن کیا ہے جو کھانسی کی آوازوں کا تجزیہ کر کے پھیپھڑوں کی صحت کا اندازہ کر سکتا ہے۔

اب یہ بھارتی کمپنی ہیلتھ ایکوسٹک ریپریزنٹیشن (HeAR) کو ’سواسا‘ میں ضم کرنے کا منصوبہ بنا رہی ہے تاکہ ’سواسا‘ کی صلاحیتوں کو بڑھایا جا سکے اور ٹی بی یعنی تپِ دق جیسی بیماری کی جلد تشخیص ممکن ہو سکے۔

سوجے کاکرمتھ جو ہیلتھ ایکوسٹک ریپریزنٹیشن (HeAR) کو بنانے والی گوگل کی ٹیم کا حصّہ ہیں، ان کا کہنا ہے کہ تپِ دق کا ہر وہ کیس ایک المیہ ہے جس میں بیماری کی تشخیص دیر سے ہونے کی وجہ سے مریض کی جان چلی جاتی ہے۔

اُنہوں نے کہا کہ آواز کے ذریعے بیماری کی تشخیص کرنے والا یہ اے آئی ماڈل (HeAR ) اس تبدیلی کے سفر میں جو کردار ادا کر سکتا ہے اس کے لیے میں تہِ دل سے مشکور ہوں۔

تپِ دق کے قابلِ علاج مرض ہونے کے باوجود میڈیکل کی سستی سہولتوں تک محدود رسائی کی وجہ سے اکثر ٹی بی کی تشخیص نہیں ہو پاتی اس لیے محققین کا خیال ہے کہ یہ نیا اے آئی ماڈل دنیا بھر کے لوگوں کے لیے میڈیکل کی سہولتوں کو قابلِ رسائی اور سستا بنانے میں اہم کردار ادا کر سکتا ہے۔

یاد رہے کہ گوگل 2030ء تک ٹی بی کو ختم کرنے کے ہدف کو پورا کرنے کے لیے متاثرہ کمیونٹیز کی ماہرینِ صحت تک رسائی کو ممکن بنانے کے لیے اسٹاپ ٹی بی پارٹنر شپ جیسی تنظیموں کے ساتھ بھی شراکت کر رہا ہے۔

اسٹاپ ٹی بی کی ڈیجیٹل ہیلتھ اسپیشلسٹ زی جین کن کا کہنا ہے کہ اے آئی ماڈل HeAR  جیسے آلات تک ضرورت مند لوگ آرام سے رسائی حاصل کر سکتے ہیں اور اس طرح اگر وہ تپِ دق جیسی بیماری کا شکار ہیں تو اس کی ابتدائی مراحل میں تشخیص اور مؤثر علاج میں آسانی ہو گی۔

سائنس و ٹیکنالوجی سے مزید