اتوار اور پیر کی درمیانی شب بلوچستان کے چھ سات اضلاع میں انسانوں کے خون سے جو ہولی کھیلی گئی ہے، اُس نے پوری قوم کو شدید عدم تحفظ کا احساس دلایا ہے۔ کچھ عرصے سے ڈیجیٹل دہشت گردی نے ایک حشر اٹھا رکھا ہے جس سے آہنی ہاتھوں سے نمٹ لینے کا بار بار عزم دہرایا جاتا ہے۔ اب عزم اور ہمت کے معنی بھی تبدیل ہو گئے ہیں۔ یہی معاملہ ہماری اجتماعی فہم و فراست کا بھی ہے۔ اب کامن سینس سے محروم اربابِ اختیار اَپنی بےتدبیری اور طاقت آزمائی کو ہمت اور عزم سے تعبیر کرتے ہیں۔ اِس کے علاوہ ہمارے ہاں ایک اور مسئلہ بھی بہت گہری جڑیں بنا چکا ہے کہ ہمارے اربابِ علم و دَانش جب ملکی معاملات پر گفتگو کرتے ہیں، تو بالعموم ایک ہی بات کہتے ہیں کہ 77 برسوں سے حالات خراب چلے آ رہے ہیں اور اُن میں کوئی بہتری نہیں آئی۔
اُن کا یہ فرمانا سراسر حقیقت کے خلاف ہے۔ اُن کو اَندازہ ہی نہیں کہ جب پاکستان بنا تھا، تو اُس کے حالات کس قدر مخدوش تھے اور اُس کی محتاجی کا کیا عالم تھا۔ لاہور کی بجلی ہندوستان سے آتی تھی اور زیادہ تر دریاؤں اور نہروں کے منبع ہندوستان ہی میں رہ گئے تھے۔ مَیں اُن دنوں محکمہ انہار میں سگنیلر کے طور پر کام کر رہا تھا۔ عالم یہ تھا کہ جب ہمیں پانی کی ضرورت ہوتی، تو ہندوستان ہمارا پانی روک لیتا، چنانچہ ہم وقت پر فصلیں کاشت نہیں کر سکتے تھے۔ جب ہم پانی کی شدید قلت کے باوجود فصلیں اُگا لیتے، تو اُن کی کٹائی کے وقت دریاؤں اور نہروں میں پانی چھوڑ دیا جاتا اور یوں قیامت خیز سیلاب میں کھڑی فصلیں تباہ ہو جاتیں۔ اُس وقت میاں ممتاز دولتانہ پنجاب میں ریونیو کے وزیر تھے۔ اُنہیں مشرقی پنجاب جا کر ایک معاہدے پر دستخط کرنا پڑے جس میں پاکستان کو اَپنے بعض حقوق سے دستبردار ہونا پڑا تھا۔ اب اللہ کے فضل سے پاکستان میں ایک سے زائد بجلی گھر ہیں جو پورے پاکستان میں گھروں، کارخانوں اور اَیوانوں کو روشن رکھے ہوئے ہیں۔ یہ الگ بات ہے کہ آئی پی پیز کے ساتھ معاہدوں کے نتیجے میں جو بجلی گھر بنے، اُن میں توازن کا خاصا فقدان تھا جو آج پاکستان کے عوام کا سب سے بڑا مسئلہ بنا ہوا ہے۔
کلکتہ اور دِہلی دو اَیسے شہر تھے جن کی تعمیر اور اَفزائش میں مسلمانوں نے عظیم الشان کردار اَدا کیا تھا۔ مشرقی بنگال میں مسلمان پٹ سن کی کاشت کرتے جس کے کارخانے کلکتہ میں لگے تھے۔ یہ شہر ہر اعتبار سے اِس قدر اَہمیت اختیار کر چکا تھا کہ 1911 تک برطانوی سلطنت کا دارالحکومت رہا۔ اِسی طرح دہلی مسلمانوں کی تہذیب و معاشرت اور عظمت کا سب سے بڑا مرکز تھا۔ جب پاکستان کی تحریک آخری نکتے پر پہنچ گئی، تو مسلمانوں میں زبردست خواہش پیدا ہوئی کہ کلکتہ اور دِہلی پاکستان میں شامل ہوں، مگر ہندوؤں اور اَنگریزوں کی ملی بھگت سے یہ دونوں شہر اور پنجاب کے دو مسلم اکثریتی اضلاع فیروزپور اَور گورداسپور بھی بھارت کی تحویل میں دے دیے گئے جس پر قوم قدرتی طور پر دلبرداشتہ ہوئی۔
اُس وقت پاکستان کا اپنا کوئی دارالحکومت تھا نہ کوئی مستحکم انتظامیہ تھی۔ سرکاری دفاتر خالی پڑے تھے کیونکہ ہندو اَور سکھ بھارت چلے گئے تھے۔ اِس کے علاوہ قتل و غارت کا بازار گرم تھا۔ دس لاکھ افراد فسادات کی نذر ہوئے اور ساٹھ لاکھ مسلمان آگ اور خون کے دریا عبور کر کے پاکستان آ رہے تھے۔ مَیں نے یہ سارے مناظر اپنی آنکھوں سے دیکھے اور یہ بھی دیکھا کہ نحیف و نزار قائدِاعظم ہمت و عزم کی ایک ناقابلِ تسخیر چٹان ثابت ہوئے۔ اُن کی قیادت میں قوم نے بےمثل ایثار اَور اَن تھک محنت سے کام لیا اور سیاسی رہنماؤں نے دنیا کی سب سے بڑی ہجرت کے سنگین مسائل حُسن و خوبی سے نمٹا دیے تھے۔ تجربےکار بیوروکریٹس نے ملکی نظم و نسق اچھی بنیادوں پر قائم کیا۔ عوام کی شبانہ روز کوششوں سے پاکستان معاشی طور پر اِس قدر مستحکم ہو گیا کہ اُس کا سکّہ بھارت کے مقابلے میں بہت طاقت ور ہو گیا۔ خون میں لتھڑی ہوئی قوم نے چند ہی برسوں میں ایک معجزہ تخلیق کر دیا تھا جبکہ بھارتی وزیرِاعظم پنڈت جواہر لال نہرو جو اِنسانی آزادی کے بہت بڑے چیمپئن بنے ہوئے تھے، اُنہوں نے الٹی میٹم دیا تھا کہ پاکستان صرف چھ ماہ زِندہ رَہے گا اور اُس کے بعد ہمارے ساتھ دوبارہ مل جانے کے لیے منت سماجت کرے گا۔
یہ کہنا بالکل غلط ہے کہ پاکستان کے حالات 77برسوں سے خراب چلے آ رہے ہیں۔ بھارت کی پاکستان دشمن پالیسی کی وجہ سے پاکستان میں قحط پڑتے رہے اور ہمیں امریکہ سے گندم کی بھیک مانگنا پڑی اور ہماری حالت یہ تھی کہ اُونٹوں کے گلے میں ’تھینک یو امریکہ‘ کی تختیاں ڈالنا پڑتی تھیں۔ اُس پاکستان میں زبردست سبز انقلاب آیا اور ہم ہر چیز میں خودکفیل ہو گئے۔ سخت نامساعد حالات کے باوجود ہم ایٹمی طاقت بن گئے ہیں اور چین کی مدد سے ہم اپنے لڑاکا طیارے، ٹینک اور آبدوزیں بنانے لگے ہیں۔ تمام تر کوتاہیوں اور خرابیوں کے باوجود آج پاکستان کا محلِ وقوع اِس قدر اَہمیت اختیار کر گیا ہے کہ چین، روس، امریکہ، سعودیہ اور دُوسرے ممالک کو وسیع تر تجارتی راستے بنانے کے لیے پاکستان کا تعاون درکار ہے۔
بدقسمتی سے ہم ایک مستحکم سیاسی بندوبست نافذ نہیں کر سکے اور اَچھی حکمرانی کا نظام قائم کرنے میں کسی قدر ناکام رہے ہیں۔ تاریخ کے مطالعے سے معلوم ہوتا ہے کہ عوام کو مطمئن اور آسودہ رَکھنے کا ایک ہی عمدہ رَاستہ ہے کہ اُنہیں فیصلہ سازی میں پوری طرح بااختیار بنایا جائے، اُن کے ساتھ انصاف کیا جائے اور حکمران طبقے متوازن رویّے اختیار کریں۔ ریاست کے تمام ادارے اپنی آئینی حدود میں رہیں اور قائدِاعظم کے نقشِ قدم پر چلنے کی مثال قائم کریں۔ بلوچستان کے مسائل پر خصوصی توجہ دی جائے اور قانون نافذ کرنے والے ادارے اپنے فرائض پوری تن دہی سے انجام دیں اور اَپنی صلاحیتِ کار میں غیرمعمولی اضافہ کریں، تبھی شہری، سیکورٹی فورسز اور خود فوج محفوظ رہیں گے۔ چند سال پہلے جو قومی ایکشن پلان تیار کیا گیا تھا، اُس پر کامل یک جہتی اور تن دہی سے عمل کیا جائے۔ مجھے کامل یقین ہے کہ میری قوم ناممکن کو ممکن بنانے کی عظیم صلاحیتوں سے مالامال ہے۔
(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائےدیں00923004647998)