• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

خنساء سعید، سیال کوٹ

آگ وبارود، کسی اژدھے کی مانند ساری بستی کو دھیرے دھیرے نگل رہے تھے۔ بستی کے سارے جان دار، جن میں انسان، جانور، چرند پرند سب شامل تھے، آسمان سے برستی آگ میں جل کر بھسم ہو رہے تھے۔ پوری دھرتی جیسے خون کی ندی، لاشوں کی آماج گاہ بنتی جا رہی تھی۔ بستی کےمکین مدد کےلیے پوری دنیا کے لوگوں کو پکاررہےتھے، مگر کوئی بھی آگ و بارود برساتے وحشیوں کو روک نہیں پا رہا تھا۔

دنیابھرکا میڈیا، ہر روز بستی کا احوال گھر گھر پہنچاتا، دیکھنے والے ہر روز اُن کی چیخ و پکار سُنتے، مگر بس سانس روک، چُپ سادھے کسی ڈراؤنی فلم کی طرح دیکھتے رہتے۔ کسی المیہ ڈرامے کے اختتام کی طرح آنکھوں میں پانی بھر کر ٹی وی بند کرتے اور اپنے پُرامن گھروں میں سکون کی نیند سو جاتے۔

بستی میں ہر گزرتے دن کے ساتھ زندگی بھی ختم ہورہی تھی۔ ہر روز، طلوعِ سحر سے بچّے، بوڑھے، جوان، مرد و خواتین سب آنکھوں میں اُمید کے دیے روشن کیے، اپنوں کی راہ تکتے کہ شاید آج کوئی اپنا مدد کو آ پہنچے۔ اور شام تک اُن میں سے کئی اُن ہی پُرامید آنکھوں کے ساتھ فردوسِ بریں کے مہمان بن جاتے۔

آج چند باقی بچ جانے والے بستی کے مکینوں کو دُور سےکہیں گاڑیوں کے ہارن سنائی دئیے۔ وہ خوش ہوئے کہ ہماری مدد کو ہمارے اپنے آن پہنچےہیں۔ مگر…جیسے جیسے گاڑیوں کی آوازقریب آرہی تھی، گولہ باری تیز ہوتی جا رہی تھی۔ اورپھر…بستی کے وہ بچ رہنے والے باقی سب مکین بھی جامِ شہادت نوش کرگئے۔ اب بستی میں کوئی جان دار باقی نہ رہا تھا۔ 

سفید ستاروں جیسے پاکیزہ و پوتّر بچّے، خُون سے غسل کر کے آسمان کے سُرخ ستارے بن گئے تھے۔ بستی کی ہر گلی، نکڑ، ہر چوک، چوراہے پر شہداء کی لاشیں ہی لاشیں تھیں۔ امداد لےکرآنے والوں نےجب زمین پر ہر طرف انسانی وجود بکھرے دیکھے تو بےاختیار چلّا اُٹھے۔

’’اے بھوک سے نڈھال لوگو! اُٹھو، دیکھو، ہم امداد لےکرپہنچ چُکے ہیں۔ ہم تمہارے لیے ٹرک بھر بھرکھانا لائے ہیں۔ اُٹھو، یہ کھانا کھا لو، کیا بھوکے ہی جامِ شہادت نوش کرجاؤ گے؟؟‘‘

سنڈے میگزین سے مزید