• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

مصنّف: خالد فاطمی

صفحات: 400، قیمت: 1100 روپے

ناشر: ہارون پبلی کیشنز، ایل 74، سیکٹر 5-C/2، بلال ٹاؤن، نارتھ کراچی، کراچی۔

فون نمبر: 2243868 - 0332

گزشتہ دنوں کراچی پر کئی کتب منظرِعام پر آئیں، جن میں خالد فاطمی کی اِس کتاب کو سب سے زیادہ سراہا گیا اور یہ اپنے وقیع و دل چسپ مواد کے سبب اِس کی پورے طور پر حق دار بھی ہے، حالاں کہ مصنّف کا تو کہنا ہے کہ’’ مَیں نے کراچی کی مٹرگشتی میں جو کچھ دیکھا یا یاد رہ گیا، لکھ دیا۔ کوئی تیر نہیں مارا کہ تعریف و توصیف کا سزاوار بنوں۔ جگہوں اور تاریخ میں ممکن ہے، انیس بیس ہوئی ہو، پر تحریریں سب سچّی بلکہ پوری سچّی ہیں۔‘‘

کتاب کا پیش لفظ، شکیل عادل زادہ نے تحریر کیا ہے، جو مصنّف کے چَھڑے دنوں کے ساتھی ہیں۔اُن کا کہنا ہے کہ’’سیاسی و سماجی، تقریباً ہر معاملے میں خالد فاطمی ایک رائے رکھتے تھے‘‘ اور اُن کی اِس عادت کا فائدہ یہ ہوا کہ قارئین کو کراچی کے بہت سے معاملات پر اُن کی آرا پڑھنے کو مل گئیں، جن سے اختلاف کرنا آسان نہیں۔مصنّف نے بیس برس امریکا میں گزارے، وطن واپسی پر مختلف ٹی وی چینلز اور ایک بڑی ایڈورٹائزنگ ایجینسی سے وابستہ رہے۔

اُن کی شروع ہی سے لکھنے لکھانے میں دل چسپی رہی،بقول شکیل عادل زادہ’’ کم عُمری میں تحریری پختگی کسی سن رسیدہ ادیب ایسی ہے‘‘اور’’ نامراد کراچی‘‘ اِس تحریری پختگی کا ایک واضح ثبوت ہے۔اُن کی تحریر سادہ، شگفتہ اور رواں ہے، جو قاری کو کتاب رکھنے نہیں دیتی۔مصنّف کا کہنا ہے کہ’’ اِس کتاب کی بیش تر تحریریں ایک ہی نشست میں لکھی گئی ہیں‘‘ اور تحریر کا جادو یہ ہے کہ قاری بھی اِسے ایک ہی نشست میں پڑھنے کی کوشش کرتا ہے۔

خالد فاطمی نے اِن80 کے قریب مضامین میں خود کو امامِ مسجد یا پیرِ طریقت ثابت کرنے کی بجائے واقعات پوری سچّائی کے ساتھ بیان کیے ہیں۔ اِس جرأت کے اُن کی شخصیت پر کیا اثرات مرتّب ہوئے ، اِس سے تو وہ خود ہی واقف ہوں گے، تاہم قارئین کو یہ فائدہ ضرور ہوا کہ بہت سے حقائق کُھل کر اُن کے سامنے آگئے۔ ادبی حلقوں میں اِس کتاب کا نام خاصا زیرِ بحث ہے اور اِس ضمن میں سوشل میڈیا پر کافی پوسٹس بھی نظر سے گزری ہیں۔ 

ہماری بھی یہی رائے ہے کہ کراچی ایک بامُراد شہر ہے، جس نے لوگوں کو روزگار، عزّت اور نام دیا، تو اِس کے ساتھ’’ نامراد‘‘ کا لفظ دل و دماغ پر بہت گراں گزرتا ہے۔ تاہم، اِس رائے کو بھی نظرانداز نہیں کیا جانا چاہیے کہ جس کے مطابق، فاضل مصنّف نے اِن مضامین میں جگہ جگہ اپنے مخصوص انداز میں کراچی کے مسائل اور اس کی محرومیوں کا تذکرہ کیا اور اِسی پس منظر میں اِسے’’ نامراد‘‘ کہا گیا ہے۔