• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

ڈاکٹر عزیزہ انجم

مانا کہ زندگی بہت مشکل، بڑی کٹھن ہے ۔ اِک محبّت کے سوا بھی بہت سے غم انسانوں کو کھائے جارہے ہیں، لیکن پھر بھی کیا یہ ممکن نہیں ہے کہ احساسِ محبّت، نرمی بھرے لہجوں اور روشنی بکھیرتی مسکراہٹوں سے بیش تر غموں، دُکھوں کا مداوا کیا جائے۔ نیز، یہ بھی ممکن ہے کہ بڑھتی ہوئی منہگائی، گیس و بجلی کے ہوش رُبا بِلز، بیماریوں کے علاج معالجے اور بچّوں کی تعلیم پر اُٹھنے والے اخراجات میں ایک دوسرے سے تعاون کر کے زندگی کو کسی قدر آسان بنایا جائے۔

چاہے شہر ہو یا گاؤں، بنگلا ہو یا اپارٹمنٹ، ہمیں مختلف وجوہ کی بنا پر مل جُل کر رہنا ہی پڑتا ہے۔ کسی گھر میں بہن بھائی ایک ساتھ رہتے ہیں، تو کہیں بھائی اور کوئی گھرانہ ماں، بیٹوں اور بہوؤں پر مشتمل ہوتا ہے کہ عموماً الگ گھر بنانا ہر ایک کے لیے ممکن نہیں ہوتا ،تو والدین کے بنائے ہوئے آشیانے ہی میں سَر چُھپانے کے لیے تھوڑی سی جگہ مل جانے کو غنیمت جانا جاتا ہے، جس میں کچن مشترکہ ہوتا ہے اور لاؤنج میں بیٹھ کر سب ناشتا کرتے اور کھانا کھاتے ہیں۔ سبھی بجلی، گیس اور پانی استعمال کرتے ہیں، جن کے بِلز بھی ادا کرنا ہوتے ہیں۔

تاہم، گھر کے کسی فرد کی آمدنی زیادہ ہوتی ہے ،تو کوئی رزق کی تنگی کا شکار ہوتا ہے۔ سو، اس موقعے پر باہمی رنجشیں، بدگمانیاں اور سرد مہری ہو ہی جاتی ہے، جو گھر کا ماحول خاصا تکلیف دہ بنا دیتی ہے۔ کسی کا بلڈ پریشر ہائی ہو جاتا ہے، تو کسی کا ڈیپریشن بڑھ جاتا ہے۔ کوئی غصّے میں زور زور سے چِلّاتا ہے، تو کسی کی بڑبڑاہٹ ختم نہیں ہوتی۔ 

اس صورتِ حال میں بچّوں کی پڑھائی بھی متاثر ہوتی ہے اور بڑوں کی نیند اور ذہنی و جسمانی صحت بھی۔ لیکن یہ بھی ذہن میں رہے کہ مشترکہ خاندانی نظام صرف مجبوری ہی نہیں، بلکہ اس کے ذریعے بہت سے مسائل کا حل بھی نکالا جا سکتا ہے۔ تاہم، اس کے لیے خاندان کے تمام افراد کو وسیع القلبی کا مظاہرہ کرنا اور اپنی اخلاقی ذمّے داریاں نبھانا ہوں گی۔

یعنی آپ گھروں میں فریق نہیں، رفیق بن کر رہیں۔ مثال کے طور اگر آپ مشترکہ خاندانی نظام کے تحت رہتے ہیں، تو یوٹیلیٹی بِلز سمیت دیگر گھریلو اخراجات میں اپنا حصّہ ضرور ڈالیں۔ ڈنڈی مارنے یا ٹال مٹول کی عادت نہ بنائیں۔ اس موقعے پر آپ کو یہ سوچنا چاہیے کہ یہ اخراجات تو آپ کو الگ رہتے ہوئے بھی اُٹھانا پڑتے، تو اب کیوں ہاتھ کھینچ رہے ہیں اور اس ضمن میں اگر مقرّرہ تاریخ سے قبل ہی مل جُل کر حساب کتاب کر لیا جائے، تو باقی مہینہ اپنی آمدنی کے لحاظ سے گزارا جا سکتا ہے۔ 

عموماً یہ دیکھا گیا ہے کہ مناسب آمدنی کے باوجود چالاک بننے کی کوشش میں کوئی ایک فرد ٹال مٹول کرتا ہے، جس کے نتیجے میں پورے گھر کا بجٹ اور ماحول متاثر ہوتا ہے۔ لہٰذا، اس رویّے کو ترک کریں اور دوسروں پر بوجھ بننے سے گریز کریں۔ مطلب یہ ہے کہ اگر مالی معاملات ٹھیک رکھے جائیں، تو کسی حد تک گھر کا ماحول بہتر ہو جاتا ہے۔

مشترکہ خاندانی نظام میں رہتے ہوئے مالی معاملات کے علاوہ دیگر چھوٹی چھوٹی باتوں کا بھی خیال رکھنا چاہیے۔ مثال کے طور پر بچّوں کو بجلی کی بچت کی عادت ڈالنی چاہیے۔ اگر گھر میں کوئی پڑھ رہا ہے یا بچّے امتحانات کی تیاری میں مصروف ہیں، تو شور شرابے سے گریز کرنا چاہیے۔ اسی طرح اگر گھر کا کوئی فرد بیمار ہے، تو اس کی تیمار داری کرنی چاہیے۔ 

نیز، اگر اللہ نے آپ کو نوازا ہے، تو اپنے رزق میں دوسروں کو بھی شریک کریں۔ مثال کے طور پر اگر آپ اپنے بچّوں کے لیے پیزا آرڈر کر رہے ہیں، تو اُس وقت دوسرے بچّوں کو بھی ضرور یاد رکھیں۔ اس کے برعکس اگر آپ کے لیے بعض لذّتوں اور آسائشوں کا حصول ممکن نہیں، تو دوسروں کی طرف نہ دیکھیں۔ 

اس سے نہ صرف احساسِ محرومی اور نا شُکری کا جذبہ پیدا ہوتا ہے، بلکہ لوگوں سے تعلقات بھی خراب ہوتے ہیں۔ بدقسمتی سے آج کل ہر فرد دوسروں ہی سے اچّھائی کی توقّع رکھتا ہے اور خود نیک کاموں میں پہل نہیں کرتا، حالاں کہ ہونا تو یہ چاہیے کہ اگر کوئی ایک فرد نیکی کر رہا ہے، تو آپ بھی اس کا جواب نیکی سے دیں۔ 

تاہم، ہوتا یہ ہے کہ شیطان دِلوں میں وسوسے اور بدگمانیاں ڈال دیتا ہے۔ یوں دِلوں میں بسی بُرائیاں لہجوں میں دَر آتی ہیں، آوازیں بلند ہو جاتی ہیں اور کمروں کے دروازے کسی کے آنے پر بھی نہیں کُھلتے۔

واضح رہے کہ مشترکہ خاندانی نظام میں گھر کا ماحول خوش گوار رکھنے میں خواتین کا بھی بے حد اہم کردار ہوتا ہے۔ اگر خواتین چاہیں، تو اہلِ خانہ کے باہمی تعلقات بہت بہتر بہو سکتے ہیں اور خراب بھی۔ وہ کسی نے کہا تھا ناں کہ ’’کیا ہم خواتین گھروں میں ساس، نند، دیورانی، جیٹھانی، بھابھی اور بہو کی بجائے سہیلیاں بن کر نہیں رہ سکتیں۔ 

کیا ہم ایک ساتھ بیٹھ کر ہنس کھیل نہیں سکتیں۔ کیا ہم مہمانوں کا خوش دِلی اور خندہ پیشانی سے استقبال نہیں کر سکتیں اور کیا مہمان جاتے وقت محبّت سے ہاتھ پکڑ کر اپنے گھر آنے کا نہیں کہہ سکتے۔‘‘کسی زمانے میں گھر کے تمام افراد ایک ہی دسترخوان کے گرد بیٹھ کر ہنسی خوشی اچار، چٹنی اور دال روٹی کھاتے تھے، لیکن اب یہ حال کہ روز ہی انواع و اقسام کی ڈِشز تیار کی جاتی ہیں، مگر دِلوں میں کدورتیں ہی بَھری رہتی ہیں۔ 

پہلے کبھی کسی کے سَر میں بھی درد ہوتا، تو اہلِ خانہ ہر دَم اُس کی تیمار داری کے لیے آمادہ رہتے اور اب اگر کوئی اسپتال میں بھی داخل جائے، تو برائے نام اُس کی خیریت پوچھنا ہی غنیمت ٹھہرتا ہے۔ یاد رہے کہ یہ دُنیا قطعاً عارضی ہے، تو ساتھ رہیں یا الگ الگ، ایک دوسرے کی مجبوریوں کو سمجھیں اور انہیں دُوریوں میں ہرگز نہ ڈھالیں اور ہمیشہ محبّت کی ڈور کو مضبوط بنانے میں پہل کریں کہ کیا پتا؎ نہ جانے کس گلی میں زندگی کی شام ہوجائے …تو کیوں نہ اُس شام سے پہلے کا دن بہت خُوب صُورت بنالیا جائے۔کیا خیال ہے…؟؟