• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

سامیہ خان، کراچی

عموماً جرائم کی دنیا میں زیادہ ذکر مَردوں ہی کا ہوتا ہے۔ اُن کے مقابلے میں خواتین کی تعداد آٹے میں نمک ہی کے برابر ہے، لیکن اِس حقیقت سے بھی انکار ممکن نہیں کہ بہرحال خواتین بھی مختلف اقسام کے جرائم میں ملوّث ضرور ہوتی ہیں۔ جیسے اسمگلنگ، بچّوں کا اغوا، قوانین کی پامالی، قتل یا چوری چکاری کی وارداتیں وغیرہ۔

ان جرائم کے پسِ پردہ محرّکات ہی کی تلاش میں گزشتہ دنوں ہم نے کراچی سینٹرل جیل کا دَورہ کیا، تو دورانِ ملاقات پتا چلا کہ قیدی خواتین کے جیل آنے کی وجوہ تو الگ الگ، لیکن جرائم کے پسِ پردہ عوامل زیادہ تر ملتے جُلتے ہیں۔غربت، جہالت، شادی بیاہ کے مسائل یا جائیداد کے تنازعات وغیرہ۔ آئیے، ذرا اِن عوامل پر کچھ تفصیلاً روشنی ڈالتے ہیں۔

غربت اور تعلیم کی کمی :غربت و جہالت ایک ایسا عُنصر ہے، جو انسان کو کسی بھی حد تک جانے پر مجبور کر سکتا ہے۔ ہم نے دیکھا، جیل میں موجود تقریباً تمام ہی خواتین نہ صرف نچلے طبقے سے تعلق رکھتی تھیں بلکہ اَن پڑھ بھی تھیں۔ کم عُمری میں شادی کی وجہ سے اُن کی تعلیم نامکمل رہی اور اِسی ناخواندگی کے باعث اپنے اخراجات کی تکمیل کے لیے ہمیشہ دوسروں پر انحصار کرتی رہیں۔

دراصل، ہمارے یہاں لڑکیوں کی تعلیم سے زیادہ اُن کے شادی بیاہ پر زور دیا جاتا ہے، نتیجتاً ناخواندگی یا کم تعلیم کے سبب وہ تمام عُمر اپنے شوہروں پر انحصار پہ مجبور ہوتی ہیں اور بسا اوقات بہت سی پریشانیوں، تکلیفوں کے باوجود بھی جبراً چکّی کے دو پاٹوں میں پستی رہتی ہیں۔ 

حالاں کہ اگر لڑکوں سے زیادہ لڑکیوں کی تعلیم پر توجّہ دی جائے، اُنھیں اُن کے پیروں پر کھڑا ہونا سکھایا جائے کہ وہ اپنے اخراجات اور ضروریات خود پوری کر سکیں، تو اُنہیں کسی قسم کا ظلم و ستم برداشت کرنے کی ضرورت پڑے اور نہ ہی غربت کے باعث کسی جرم میں ملوّث ہوں۔ بحالتِ مجبوری وہ خود حلال روزی کما کر سُکون کی زندگی گزار سکیں۔

کم عُمری کی شادیاں: بہت چھوٹی عُمر میں شادی قانونی اور شرعی، دونوں لحاظ سے غلط ہے، مگر پھر بھی ہمارے یہاں آج بھی خواتین کی ایک بڑی تعداد اس ظلم کا شکار ہے اور انتہائی کم عُمری میں شادی بھی اُن وجوہ میں سے ایک ہے، جو خواتین کو مجرمانہ سرگرمیوں میں ملوّث ہونے پر مجبور کرتی ہے۔

جب لڑکیاں کم عُمری میں شادی کے بندھن میں بندھ جاتی ہیں، تو ایک تو اُن کی تعلیم نامکمل رہ جاتی ہے، دوم، وہ ذہنی اور جسمانی طور پر بھی بالغ نہیں ہوتیں، تو یہ حالات اُنہیں زندگی کی بنیادی ضروریات کے لیے بھی دوسروں پر انحصار پہ مجبور کرتے ہیں اور پھر یہی مسائل بعض اوقات اُنہیں جرائم کی طرف بھی دھکیل دیتے ہیں۔ لہٰذا، معاشرے میں کم عُمری کی شادیوں کے خلاف شعور بے دار کرنا بھی ازحد ضروری ہے۔

ذہنی ابتری کا شکار معاشرہ: اِس ساری ابتر و بدتر صُورتِ حال میں سب سے اہم کردار معاشرے کا ہے اور ہمارے یہاں تو لڑکیوں کی پیدائش سے موت تک معاشرہ ایک کلیدی کردار ادا کرتا ہے۔ اِدھر کسی گھرانے میں لڑکی پیدا ہوئی نہیں کہ اُس کی پرورش، تعلیم و تربیت، رہن سہن، چال ڈھال، پہننے اوڑھنے تک پر رائے زنی شروع ہوگئی۔ 

خصوصاً ’’بیٹی کو زیادہ نہ پڑھاؤ، شادی ہی تو کرنی ہے، آگے جاکر گھر ہی سنبھالنا ہے، کیا فائدہ، اتنا پڑھانے لکھانے کا، شادی کی عُمر نکل جائے گی۔ زیادہ آزادی نہ دو، خراب ہو جائے گی۔‘‘ جیسے جملے تو والدین کے کانوں میں ضرور ہی انڈیلے جاتے ہیں۔اور حیرت کی بات ہے کہ جو لوگ بات، بے بات مشورے دینا ضروری سمجھتے ہیں، وہ کسی بُرے وقت میں کبھی ساتھ کھڑے نہیں ہوتے۔

ہم نے جیل میں بہت سی ایسی خواتین بھی دیکھیں، جنھیں سزا نہیں ہوئی بلکہ کیس کے آغاز ہی میں ضمانت مل گئی، مگر وہ ضمانت کی رقم کے نہ ہونے سبب جیل میں ہیں۔جب کہ بیش تر خواتین جیل سے باہر نکلنے سے محض اِس لیے خوف زدہ ہیں کہ وہ بے گناہ ہوتے ہوئے بھی خود میں لوگوں اور معاشرے کی باتوں کا سامنا کرنے کی ہمّت نہیں پاتیں۔ ایک خاتون نے یہاں تک کہا کہ’’ مَیں جیل سے باہر نہیں جانا چاہتی۔ مَیں جیل سے نکلوں گی، تو کہاں جاؤں گی؟ گھر والے رکھنے کو تیار ہیں، نہ خاندان والے اور نہ ہی میرے پاس رہنے کی کوئی دوسری جگہ ہے۔‘‘

افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ ہم ایک ایسے معاشرے میں رہتے ہیں، جہاں انسان جرم ثابت نہ ہونے پر عدالت سے تو رہا ہو جاتا ہے، مگر لوگوں کی باتوں میں زندگی بَھر مجرم ہی رہتا ہے۔ جب خود اپنے ہی ساتھ چھوڑ دیں، تو پھر انسان ایک کے بعد دوسرا جرم کرنے ہی پر مجبور ہوگا ناں۔ ایک خاتون اپنے شوہر کے قتل کے جرم میں سزا کاٹ رہی ہے۔ اُس نے جن حالات میں قتل کیا، اُن وجوہ کے پیشِ نظر عدالت نے اُسے8 سال قید کی سزا سُنائی تھی، مگر جب سزا پوری ہونے کے بعد وہ اپنے گھر گئی، تو گھر والوں نے گھر میں داخل نہیں ہونے دیا۔ 

سو، تین دن کراچی کی سڑکوں پر گزارنے کے بعد دوبارہ جیل حکّام کے پاس چلی گئی اور درخواست کی کہ اُسے جیل ہی میں رہنے کی اجازت دی جائے۔ اِسی طرح کا ایک اور واقعہ ایک22 سالہ خاتون نے بھی شیئر کیا۔ اُس نے بتایا کہ’’ میرے والدین محنت مزدوری کرتے تھے اور مَیں گھر پر اکیلی ہوتی تھی۔یہ بات والدین کے لیے پریشانی کا باعث تھی۔ 

والدہ نے اپنے بھائی سے میرے رشتے کی بات کی، مگر اُنھوں نے اپنے بیٹے کے لیے میرا رشتہ قبول نہیں کیا۔والدین نے دوسری جگہ رشتہ طے کردیا، تو وہی ماموں ہنگامہ کرنے پہنچ گئے کہ میرے بیٹے سے رشتہ کرو، ورنہ دولھے کو شادی والے دن گولی مار دوں گا۔ والدہ نے خوف کے مارے اُن کی بات مان لی۔شادی ہوئی تو ماموں کا لڑکا نشے کا عادی نکلا، میرے ساتھ مار پیٹ بھی کرتا۔جب زیادہ مارتا، تو مَیں والدہ کے گھر آ جاتی۔مگر والدہ سمجھا بجھا کر واپس بھیج دیتیں کہ ہماری عزّت خراب ہوگی، بھائی سے تعلقات ختم ہو جائیں گے۔

پھر ایک دن شوہر مجھے بہت مار پیٹ کر گھر سے چلا گیا اور 16دن گھر نہیں آیا۔16 روز بعد اُس کی لاش گھر لائی گئی اور پتا چلا کہ منشیات کے زیادہ استعمال کی وجہ سے اُس کی موت واقع ہوگئی ہے۔ مگر، میرے ماموں نے مجھ پر قتل کا الزام لگا دیا کہ مَیں نے اپنے سابقہ منگیتر کے ساتھ مل کر شوہر کو قتل کیا ہے، جو کہ سو فی صد جھوٹا الزام تھا۔ کیس کی پہلی ہی سماعت پر مجھے ضمانت مل گئی، مگر زرِضمانت نہ ہونے کے سبب ابھی تک جیل میں ہوں۔پھر یہ بھی ہے کہ یہاں سے نکلنے کے بعد بھی کیا کروں گی؟ پتا نہیں، لوگ قبول کریں گے بھی یا نہیں۔‘‘

حقیقت تو یہ ہے کہ ہمارا معاشرہ کسی شخص کو اصلاح کا موقع ہی نہیں دیتا۔جیسا کہ گل محمّد بلوچ کے ایک تحقیقی مقالے بعنوان’’مجرم پاکستانی خواتین: ذاتی، سماجی اور جغرافیائی پروفائلز‘‘ میں مختلف جرائم میں ملوّث پاکستانی خواتین کے حالاتِ زندگی کا جائزہ لیا گیا ہے۔جب کہ1985ء کی پاکستان کمیشن برائے خواتین کی ایک رپورٹ کے مطابق، پاکستانی معاشرہ، خواتین کو خود مختار انسان کی بجائے ملکیت کے طور پر دیکھتا ہے۔ 

یہ شدید اقتصادی نا ہم واریوں اور پدرشاہی نظام کا شکار ہے، جس کی وجہ سے خواتین کے حقوق اور حیثیت پر بہت منفی اثرات مرتّب ہوتے ہیں۔تحقیق سے پتا چلتا ہے کہ خواتین قیدیوں کی اکثریت ناخواندہ اور کم آمدنی والے گھرانوں سے تعلق رکھتی ہے۔ 1980ء میں پاکستان میں صرف70 مجرم خواتین کی دستاویزات موجود تھیں، جو 1987ء تک پنجاب میں 125اور سندھ میں 91تک جا پہنچیں۔ 1987ء میں ملتان کی خواتین جیل میں کیے گئے ایک سروے کے مطابق، 71فی صد خواتین کا تعلق کم آمدنی والے طبقے سے تھا اور زیادہ تر دیہی علاقوں سے تعلق رکھتی تھیں۔1988ء میں کیے گئے ایک سروے کے مطابق، پنجاب کی دو جیلوں میں قید90 فی صد خواتین قانون سے ناواقف تھیں اور 60فی صد کو کوئی قانونی معاونت نہیں ملی تھی۔ 

یہ نتائج ظاہر کرتے ہیں کہ پاکستانی معاشرے میں مجرم خواتین کے ذاتی، سماجی اور جغرافیائی پروفائلز اُن کی پس ماندگی و ناخواندگی سے شدید طور پر متاثر ہیں۔ اسی طرح خالد منظور بٹ کے ایک تحقیقی مقالے’’قیدی خواتین: سینٹرل جیل، کوٹ لکھپت، لاہور کا مطالعہ‘‘ میں خواتین قیدیوں کے مسائل، جرائم میں ملوّث ہونے کے عوامل اور جیل میں اُن کے حالات کا جائزہ لیا گیا ہے، جس کے مطابق، پاکستانی معاشرے میں خواتین کو اچھی تعلیم، اقتصادی مواقع اور حقوق سے محروم رکھنا ایک غیر علانیہ ایجنڈا معلوم ہوتا ہے۔ پھر کسی جرم میں ملوّث ہونے اور جیل جانے کے بعد مزید استحصال کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ 

بعدازاں، وہ تمام عُمر ایک بدنامی کے داغ کے ساتھ زندگی گزارتی ہیں۔ تحقیق میں مَردوں پر انحصار، نفسیاتی دباؤ، محبّت و وفاداری کے بہانے جذباتی استحصال کو خواتین کے جرائم میں ملوّث ہونے کی بنیادی وجوہ اور پولیس و عدلیہ کے ناروا سلوک کو اُن کے مزید استحصال کا سبب قرار دیا گیا ہے۔

نیز، خواتین کو پولیس تفتیش، مقدمے کی سماعت اور قید کے دَوران بھی سخت بدسلوکی کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔اِس مقالے کے مطابق، خواتین قیدیوں کے مسائل اور جرائم میں ملوّث ہونے کے عوامل کے ضمن میں متعدّد معاشرتی، اقتصادی اور قانونی اصلاحات کی اشد ضرورت ہے، جب کہ اسلامی نقطۂ نظر سے دیکھا جائے، تو ان مسائل کا حل، مساوی انسانی حقوق، سماجی معاشی، نفسیاتی و جنسی عدم استحصال اور ہر طرح کے امتیازی رویّوں کے خاتمے ہی کی صُورت ممکن ہے۔

سنڈے میگزین سے مزید