خواتین مختلف معاشرتی ذمّے داریوں کی ادائی کے ساتھ اب سیاست میں بھی گراں قدر کردار ادا کر رہی ہیں بلکہ مختلف تجزیاتی رپورٹس سے ثابت ہوا ہے کہ خواتین پارلیمنٹیرینز مَردوں کے مقابلے میں زیادہ بہتر طور پر پارلیمانی ذمّے داریاں سرانجام دیتی ہیں۔
پاکستان میں خواتین مُلکی آبادی کا نصف ہیں اور یہ ایک یقینی امر ہے کہ مختلف شعبوں میں ان کی فعال شرکت کے بغیر مُلک و قوم کی ترقّی کا خواب شرمندۂ تعبیر نہیں ہوسکتا۔ ماضی میں ہماری خواتین نے تمام شعبہ ہائے زندگی میں اپنی صلاحیتوں کا لوہا منوایا ہے اور اِسی عزم کے ساتھ وہ سیاسی محاذ پر بھی اپنا کردار ادا کر رہی ہیں۔
نیز، سرزمینِ بلوچستان کی خواتین نے بھی قبائلی سیاسی نظام میں کم وقت میں اپنا مقام بنایا ہے اور آج مثبت سیاست کے فروغ میں اپنے حصّے کی شمع روشن کیے ہوئے ہیں۔ واضح رہے کہ ایک آزاد جمہوری معاشرہ خواتین کے سیاسی، سماجی، معاشی، مذہبی، قانونی، تعلیمی اور شہری حقوق کا ضامن ہوتا ہے اور اس ضمن میں بلوچستان کے قبائلی معاشرے کے باوجود خواتین نہ صرف عام انتخابات میں حصّہ لیتی ہیں، بلکہ کام یابیاں بھی حاصل کرتی ہیں۔2002ء کے جنرل الیکشن میں قومی اسمبلی کی نشست این-اے272کیچ کم گوادرسے زبیدہ جلال نے انتخابات میں حصّہ لیا اور44177ووٹ لے کر کام یابی حاصل کی۔
اِسی طرح 2013 ء کے انتخابات میں راحت بی بی فائق جمالی نے صوبائی اسمبلی کی نشست پی-بی26جعفر آباد سے12521 ووٹ حاصل کر کے کام یابی حاصل کی۔ نیز، بلوچستان اسمبلی کو یہ اعزاز بھی حاصل ہے کہ اسپیکر اور ڈپٹی اسپیکر جیسے اہم عُہدوں پر بھی خواتین فائز رہ چُکی ہیں، جب کہ موجودہ اسمبلی میں بھی پاکستان پیپلز پارٹی کی رہنما، غزالہ گولہ ڈپٹی اسپیکر کے عُہدے پر فرائض سرانجام دے رہی ہیں۔
اِس سے قبل 2015ء سے 2018ء تک پاکستان مسلم لیگ نون کی رہنما، راحیلہ حمید خان درّانی اسپیکر بلوچستان اسمبلی رہیں، جب کہ بلوچستان نیشنل پارٹی عوامی کی ڈاکٹر فوزیہ نظیر مَری ڈپٹی اسپیکر رہ چُکی ہیں۔اس کے علاوہ کئی خواتین مخصوص نشستوں پر بھی صوبائی اسمبلی کا حصّہ بنی ہیں اور اب بلوچستان کی ترقّی میں اپنا حصّہ ڈال رہی ہیں۔ سو، آج مخصوص نشستوں پر اسمبلی تک پہنچنے والی ان ہی11خواتین ارکان کا تعارف جنگ،’’ سنڈے میگزین‘‘ کے قارئین کی نذر ہے۔
راحیلہ حمید خان درّانی
پاکستان مسلم لیگ نون کی رہنما، رکن صوبائی اسمبلی، راحیلہ حمید خان درّانی سینئیر پارلیمنٹیرین اور منجھی ہوئی سیاست دان ہیں۔ وہ اِن دنوں صوبائی وزیرِ تعلیم ہیں اور اُنھوں نے اِس عرصے میں محکمۂ تعلیم میں بھرپور اصلاحات کا آغاز کیا ہے، جن کے سبب پرائمری اور سیکنڈری تعلیم کے معیار میں واضح بہتری نظر آرہی ہے۔ محکمۂ تعلیم کو جدید خطوط پر استوار کرنا اُن کا مشن ہے۔ وہ سیاسی میدان کے ساتھ اسپورٹس میں بھی سرگرمِ عمل ہیں اور کھیلوں کی کئی تنظیموں کی سرپرستی کررہی ہیں۔
راحیلہ حمید خان درّانی پیشے کے اعتبار سے معروف وکیل ہیں اور خواتین کمیشن کی رُکن بھی رہی ہیں۔ پہلی مرتبہ2002ء میں رکن صوبائی اسمبلی منتخب ہوئیں، پھر2008 ء میں رکن اسمبلی بنیں اور اِس دَوران صوبائی وزیر پراسیکیوشن بھی رہیں۔ بعدازاں، 2013ء میں تیسری مرتبہ اسمبلی پہنچیں اور 2015ء سے2018ء تک بلوچستان اسمبلی کی اسپیکر رہیں۔
اپنے پورے Tenure( مدتِ عہدہ) میں اسمبلی رُولز آف بزنس پر فوکس رکھا۔ حکومتی اور اپوزیشن ارکان میں کوئی تفریق نہیں برتی، سب کو برابر وقت دیا اور اسمبلی قواعد و ضوابط کی پوری پاس داری کی۔ وہ مشکل ترین حالات میں بھی پارٹی کے ساتھ وفا دار رہیں۔ مسلم لیگ نون، خواتین ونگ، بلوچستان کی صدر اور پارٹی کی سینڑل ایگزیکٹیو کمیٹی کی رُکن بھی ہیں۔
راحیلہ حمید خان درّانی 2024ء میں چوتھی مرتبہ صوبائی اسمبلی کی رکن منتخب ہوئی ہیں اور اس بار اُنہیں وزارتِ تعلیم کا قلم دان سونپا گیا ہے، جسے اُنہوں نے ایک چیلنج سمجھ کر نہ صرف قبول کیا، بلکہ مختصر عرصے میں محکمۂ تعلیم میں نمایاں بہتری بھی نظر آ رہی ہے۔ اُنہوں نے جامعہ بلوچستان سے ماسٹرز اور ایل ایل بی کی اسناد حاصل کیں، جب کہ حکومتِ پاکستان نے اعلیٰ خدمات پر تمغۂ امتیاز سے بھی نوازا۔
نیز، اُنہوں نے اپنے خصوصی فنڈز سے کوئٹہ شہر میں کئی اہم ترقیاتی منصوبے مکمل کروائے، جن میں اولڈ ہوم، یتیم خانوں، اسکول، کالجز میں صاف پانی کی فراہمی کے لیے فلٹر پلانٹس، ٹیوب ویلز، اسپتالوں کے وارڈز، سِول اسپتال میں نرسنگ ہاسٹل، کمز کالج میں طلبہ اور عملے کے لیے ہاسٹل، ایس بی کے یونی ورسٹی میں ڈیجیٹل لائبریری، ہاسٹل، کینٹ کالج کی اساتذہ کے لیے فلیٹس، سِول اسپتال میں برن سینٹر اور لیبر رومز کے قیام سمیت کئی منصوبے شامل ہیں، جن سے لاکھوں افراد مستفید ہو رہے ہیں۔
راحیلہ حمید خان درّانی کا کہنا ہے کہ’’ اپنے شہر اور صوبے کے عوام کی فلاح و بہبود کے لیے کام کرنا میرا مشن ہے اِور اِسی جذبے کے تحت سیاسی عمل کا حصّہ بنی ہوں۔میرا سرکاری اسکول، کالجز کی عمارتوں اور معیارِ تعلیم کی بہتری ہی پر فوکس نہیں، بلکہ ایڈمنسٹریشن میں موجود خامیاں دُور کرنے کے لیے بھی اقدامات کر رہی ہوں۔‘‘
شاہدہ رؤف
ایڈوکیٹ شاہدہ رؤف ایک تجربہ کار سیاست دان اور بلوچستان اسمبلی کی سینئیر رکن ہیں۔ وہ اسمبلی میں جمعیت علمائے اسلام(ف) کی نمائندگی کرتی ہیں۔ پہلی مرتبہ2002ء میں رکن صوبائی اسمبلی منتخب ہوئیں، پھر 2008ء میں دوسری مرتبہ اسمبلی پہنچیں اور اِس دَوران مشیر برائے صحت رہیں۔ تیسری مرتبہ2013 ء میں رکنِ اسمبلی رہیں، جب کہ2024ء میں چوتھی مرتبہ اُنھیں رکنِ اسمبلی بنایا گیا ہے۔
اپنے اِس پارلیمانی کیریئر کے دَوران متعدّد قائمہ کمیٹیز کی رُکن، جب کہ کئی کمیٹیز کی چیئرپرسن بھی رہیں۔ کمیٹیز میں اُن کی شمولیت گڈ گورنینس اور عوامی خدمت کے لیے اُن کے عزم کا اظہار کرتی تھی۔ اُنہوں نے پشاور یونی ورسٹی سے بی ایس سی، بلوچستان یونی ورسٹی سے ایم اے انگلش اور یونی ورسٹی آف لاء کالج، کوئٹہ سے ایل ایل بی کی ڈگری حاصل کی، جب کہ اِسی یونی ورسٹی سے ایل ایل ایم بھی کیا۔
ایڈوکیٹ شاہدہ رؤف اِن دنوں محکمہ منصوبہ بندی اور ترقّی، صحت، بہبودِ آبادی، پبلک ہیلتھ انجینئرنگ، واسا، ایس اینڈ جی اے ڈی، بین الصوبائی رابطہ، قانون، پارلیمانی امور، پراسیکیوشن، انسانی حقوق، قواعد و ضوابط اور استحقاق سمیت کئی اہم قائمہ کمیٹیز کی فعال رُکن ہیں۔ امریکا، تُرکی، برطانیہ سمیت کئی ممالک کے پارلیمانی دَورے بھی کرچُکی ہیں۔
نیز، اُنھوں نے مختلف اداروں کے تربیتی پروگرامز میں بھی حصّہ لیا ہے، جن میں نیشنل ڈیفینس یونی ورسٹی اور نیشنل میڈیا ورک شاپ کے تربیتی پروگرامز شامل ہیں۔ اُنہوں نے ایوان میں ہمیشہ بلوچستان کے عوام کے حقوق اور اُن کی فلاح و بہبود کے لیے آواز اُٹھائی ہے۔
ڈاکٹر ربابہ بلیدی
ڈاکٹر ربابہ بلیدی کا شمار بلوچستان کی سینئیر پارلیمنٹیرینز میں ہوتا ہے۔ اُن کا تعلق ضلع نصیر آباد کے بلیدی قبیلے کے ایک سردار خاندان سے ہے۔ وہ تین بار رکن صوبائی اسمبلی منتخب ہوچُکی ہیں اور اِس وقت صوبائی مشیر برائے وومن ڈویلپمنٹ ڈیپارٹمنٹ ہیں۔ اِس سے قبل مشیرِ صحت، مشیر برائے محکمہ سائنس اور انفارمیشن ٹیکنالوجی رہنے کے ساتھ، پارلیمانی سیکرٹری برائے قانون اور پارلیمانی امور کی ذمّے داریاں بھی نبھا چُکی ہیں، جب کہ خواتین پارلیمانی کاکس کی سابق چیئرپرسن بھی ہیں۔
وہ مُلک کی ایک ایسی پارلیمنٹیرین ہونے کا منفرد ریکارڈ بھی رکھتی ہیں کہ جو بیک وقت3اہم قائمہ کمیٹیز کی چیئرپرسن اور 8قائمہ کمیٹیز کی رُکن رہیں۔ ڈاکٹر ربابہ بلیدی بلوچستان کے بڑے اسپتالوں کے بورڈ آف گورنرز کی رُکن ہیں، تو مختلف اداروں اور تنظیموں میں اعزازی عُہدوں پر بھی فائز ہیں۔اُنھوں نے پاکستان کے علاوہ برطانیہ اور جنوبی افریقا سے بھی تعلیم حاصل کی۔
انہوں نے ایم بی بی ایس کے بعد انٹرنل میڈیسن میں ایم ڈی کیا، جب کہ ہیلتھ مینجمنٹ اینڈ اسپتال ایڈمنسٹریشن میں ایم بی اے کی ڈگری بھی حاصل کی۔ اس کے علاوہ ڈی ڈرم (ڈرمٹالوجی) اور ڈی ایم آر ڈی (ڈائیگنوسٹک میڈیسن) کا امتحان بھی پاس کیا۔ ڈاکٹر ربابہ بلیدی دینی تعلیم پر بھی خاصا عبور رکھتی ہیں اور اِس ضمن میں بھی دراساتِ دینیہ سمیت کئی تعلیمی اسناد کی حامل ہیں۔
اس کے علاوہ ہیلتھ اور اس سے منسلک شعبوں میں6 ڈپلومے کرچکی ہیں۔اُنہوں نے بطور وزیر اور رُکن اسمبلی غربت کے خاتمے، تعلیم اور صحت کے شعبے کی بہتری، خاص طور پر خواتین کی فلاح و بہبود کے لیے خاصا کام کیا ہے۔اِس ضمن میں متعدّد اسکولز اور مراکزِ صحت میں اپنے خصوصی فنڈ سے صاف پانی کی فراہمی ممکن بنائی۔ ڈاکٹر ربابہ نے بطور پارلیمانی سیکرٹری برائے قانون اور پارلیمانی امور، بلوچستان کے لیے قانون سازی اور دیگر اقدامات کے حوالے سے بھی اہم کردار ادا کیا۔
بلوچستان کے219 سالہ قوانین کی تالیف اور اشاعت اُن کی اہم خدمات میں سے ایک ہے۔ نیز، اعلیٰ کارکردگی پر بین الاقوامی اور قومی اعزازات جیسے کہ ڈیوک آف ایڈنبرا ایوارڈ، پرنس فلپ سے لیا، تو حکومتِ سندھ نے وزیرِ اعلیٰ سندھ ایوارڈ سے نوازا، جب کہ حکومتِ پاکستان نے اعلیٰ ترین سِول ایوارڈ ستارۂ امتیاز کے لیے نام زد کیا ہے اور این سی او سی کی جانب سے مُلک میں بہترین کووِڈ19-مینجمنٹ پر بھی خصوصی ایوارڈ کی مستحق قرار پائیں۔
غزالہ گولہ
غزالہ گولہ کا تعلق پاکستان پیپلز پارٹی سے ہے۔ وہ دوسری مرتبہ رُکن صوبائی اسمبلی منتخب ہوئی ہیں اور اِس وقت بلوچستان اسمبلی کے 17ویں ڈپٹی اسپیکر کے طور پر فرائض سرانجام دے رہی ہیں۔ اِس سے پہلے2008ء میں بلوچستان اسمبلی کی رُکن رہیں، تب وہ اقلیتی امور اور ترقّیٔ نسواں کی وزیر تھیں۔ گزشتہ پانچ سال سے پارٹی کی خواتین ونگ کی صوبائی صدر ہیں۔ غزالہ گولہ پیپلز پارٹی کی دیرینہ کارکن ہیں۔ زمانۂ طالبِ علمی ہی میں پیپلز پارٹی سے وابستہ ہو گئی تھیں۔ یوں اُن کی پارٹی سے وابستگی کو کم از کم50 سال کا عرصہ ہو چکا ہے۔
ابتدائی تعلیم کوئٹہ سے حاصل کی، جب کہ گریجویشن حیدرآباد سے کیا۔ غزالہ گولہ کا تعلق ضلع صحبت پور سے ہے، وہ اکتوبر1952 ء میں گولہ قبیلے کے سربراہ، سردار ارشاد علی خان گولہ کے ہاں پیدا ہوئیں۔دادا، سردار نور محمّد گولہ، بانیٔ پاکستان قائدِ اعظم کے قریبی ساتھیوں میں سے تھے اور انگریز دَور میں شاہی جرگے کے رُکن، جب کہ قیامِ پاکستان کے بعد بلوچستان سے قائدِ اعظم کے پہلے مشیر تھے۔
غزالہ گولہ کے والد، سردار ارشاد علی گولہ چیئرمین پبلک سروس کمیشن رہے، اُن کا شمار ذوالفقار علی بھٹّو اور نواب اکبر بگٹی کے قریبی ساتھیوں میں ہوتا تھا، جب کہ اُن کے شوہر، میر اشفاق احمد گولہ(مرحوم) نیشنل بینک کے ڈائریکٹر تھے۔
غزالہ کے ایک بھائی پرویز احمد گولہ جوڈیشل آفیسر اور دوسرے بھائی سردار ڈاکٹر شعیب احمد گولہ سینئیر بیوروکریٹ تھے۔ غزالہ گولہ کا کہنا ہے کہ’’ مَیں نے اُس وقت بلوچستان کی سیاست میں حصّہ لینا شروع کیا، جب خواتین کے لیے گھروں سے نکلنا تک مشکل تھا اور اخباری بیانات میں اُن کا نام آنا تو گویا شجرِ ممنوعہ تھا۔
تب مَیں مسز یا بیگم اشفاق گولہ کے نام سے اخبارات میں بیانات دیا کرتی تھی۔ تاہم، آج وقت بہت بدل گیا ہے۔ خواتین کے لیے سیاست کے دروازے کُھل گئے ہیں اور اس کٹھن سفر میں ہماری جدوجہد کا بھی کچھ نہ کچھ حصّہ شامل ہے۔‘‘
فرح عظیم شاہ
قلّات سے تعلق رکھنے والی فرح عظیم شاہ انتہائی متحرّک اور منجھی ہوئی سیاست دان ہیں، جو بین الاقوامی سطح پر بلوچستان اور پاکستان کی نمائندگی کرچُکی ہیں۔ فرح عظیم شاہ پہلی مرتبہ 2002 ء میں رکن صوبائی اسمبلی منتخب ہوئیں اور اس دَوران متعدّد قائمہ کمیٹیز کی رُکن رہیں۔ وہ سابق صوبائی حکومت کی ترجمان بھی رہ چکی ہے، جس کے دَوران اُنہوں نے حکومتی ترجمانی کا بھرپور حق ادا کیا اور مین اسٹریم میڈیا میں نہ صرف حکومتی کارکردگی اجاگر کی، بلکہ بلوچستان کے مسائل پر بھی آواز اُٹھائی۔
وہ 2024 ء میں دوسری مرتبہ بلوچستان عوامی پارٹی کے کوٹے پر رکن اسمبلی بنی ہیں۔ فرح عظیم شاہ نے ابتدائی تعلیم کوئٹہ سے حاصل کی،جب کہ بی اے اور ایم اے پولیٹیکل سائنس جامعہ بلوچستان سے کیا۔ فرح عظیم سیاسی میدان کے ساتھ سماجی میدان میں بھی اپنا کردار ادا کر رہی ہیں۔ ایک سماجی ادارے’’ایمان پاکستان ٹرسٹ‘‘ کی چیئرپرسن، کئی کتب کی مصنّفہ ہیں، تو وہ خواتین کے حقوق کی بڑی عَلم بردار بھی۔
اُنہیں یہ اعزاز بھی حاصل ہے کہ اُنہوں نے پرتگال کی اسمبلی میں بھی عالمی مسائل پر خطاب کیا۔ نیز، پیمرا کی رُکن بھی رہ چُکی ہیں۔ اُنھوں نے چین، سعودی عرب، عرب امارات اور برطانیہ سمیت کئی ممالک کے دورے کیے اور چین، رومانیہ سمیت کئی یورپی ممالک کے ساتھ کاروبار کے فروغ کے ایم او یوز بھی سائن کیے تاکہ انٹرنیشنل بزنس کمیونٹی کو یہاں لا کر بہترین کاروباری مواقع فراہم کیے جائیں، جس سے ایک تو بے روزگاری کی شرح میں کمی آئے گی، دوم، ٹیکسز کی مد میں قومی خزانے میں بھی خطیر اضافہ ہوگا۔
مینا مجید بلوچ
مینا مجید بلوچ پاکستان پیپلز پارٹی کی رہنما اور پارلیمانی سیکرٹری برائے بین الصوبائی رابطہ ہیں۔ وہ بلوچستان کے ضلعے، کیچ مند سے تعلق رکھتی ہیں۔ ابتدائی تعلیم اپنے علاقے سے حاصل کی، جب کہ بیوٹمز یونی ورسٹی سے بی بی اے اور جامعہ بلوچستان سے ماسٹرز کیا۔زمانۂ طالبِ علمی ہی سے سیاسی میدان میں متحرّک ہیں۔ ایوان میں بھی ہر عوامی مسئلے پر اپنی آواز بُلند کرتی ہیں۔
مینا مجید بلوچ کا کہنا ہے کہ’’ مَیں نے دقیانوسی تصوّرات رد کرکے اپنی محنت سے کام یابی کی راہ ہم وار کی۔ مَیں چیلنجز کا مقابلہ کرنے کی بھرپور صلاحیت رکھتی ہوں۔ گرچہ مجھے سیاسی سفر میں کئی مشکلات کا سامنا کرنا پڑا، لیکن ایک جذبہ تھا کہ اپنے عوام کے لیے کچھ کرنا ہے اور اسی جذبے نے مجھے ہمّت و توانائی دی، تو مَیں آج اِس مقام پر ہوں۔ مجھے ایک بلوچ اور محبِ وطن پاکستانی ہونے پر بہت فخر ہے۔بلوچستان سے غربت و پس ماندگی، جہالت و ناخواندگی کا خاتمہ میرا عزم اور ایک خوش حال بلوچستان میرا وژن ہے۔‘‘
ہادیہ نواز بہرانی
ہادیہ نواز بہرانی کا تعلق پاکستان مسلم لیگ نون سے ہے اور پاپولیشن ڈیپارٹمنٹ کی پارلیمانی سیکرٹری ہیں۔ اُنہوں نے بلوچستان یونی ورسٹی سے گریجویشن کی۔ اُن کا تعلق ایک سیاسی گھرانے سے ہے۔ کئی پارلیمانی کمیٹیز کی رُکن ہیں اور ایوان میں عوام کی نمائندگی کا بھرپور حق ادا کرتی ہیں، خاص طور پر خواتین کے حقوق کے لیے ہمیشہ آواز بلند کرتی ہیں۔
ہادیہ نواز بہرانی کا کہنا ہے کہ’’مَیں اپنی پارٹی،پاکستان مسلم لیگ نون کے وژن کے مطابق عوامی خدمت کے مِشن پر قائم ہوں۔ ہماری حکومت عوام کی فلاح و بہبود کے لیے انقلابی اقدامات کررہی ہے اور عوام جلد ہی اِن منصوبوں کے ثمرات سے مستفید ہوں گے کہ اِس وقت مُلکی و صوبائی سطح پر کئی اہم منصوبے جاری ہیں، جن کی تکمیل پر ان شاء اللہ تعالیٰ عوام کو بڑا ریلیف ملے گا۔ ہم پُرعزم ہیں اور خواتین کی فلاح و بہبود کے لیے بھی اقدامات کر رہے ہیں بلکہ خواتین کے لیے سہولتوں کی فراہمی ہماری اوّلین ترجیح ہے۔نیز، مَیں نے بطور پارلیمانی سیکریٹری، محکمہ پاپولیشن میں بھی اصلاحات کا آغاز کر دیا ہے۔‘‘
شہناز عمرانی
پاکستان پیپلز پارٹی کی رکن صوبائی اسمبلی، شہناز عمرانی کا تعلق بھی ایک سیاسی گھرانے سے ہے۔ اُن کے شوہر، میر محمّد صادق عمرانی پاکستان پیپلز پارٹی کے رہنما اور صوبائی وزیر ہیں۔ شہناز عمرانی نے ابتدائی اور اعلیٰ تعلیم کراچی سے حاصل کی۔ گریجویشن اور سوشیالوجی میں ماسٹرز جامعہ کراچی سے کیا۔
سیاسی گھرانے سے تعلق کی وجہ سے زمانۂ طالبِ علمی ہی سے سیاست میں قدم رکھ چُکی تھیں، لیکن اُن دنوں خواتین کے لیے سیاست میں مواقع نہ ہونے کے برابر تھے۔ اُن میں عوامی فلاح و بہبود کا بھر پور جذبہ موجود تھا اور اِسی جذبے کے تحت فیڈرل پبلک سروس کمیشن کا امتحان پاس کیا اور بطور اسٹنٹ ڈائریکٹر محکمہ سوشل ویلفیئر، اسلام آباد میں فرائض سرانجام دیئے۔
شہناز عمرانی کا کہنا ہے کہ’’ اِسی عرصے میں مجھے عوامی خدمت اور فلاح وبہبود کے لیے کام کا موقع ملا۔‘‘ اُنھوں نے اپنے سیاسی سفر سے متعلق بتایا۔’’مَیں نے بچپن ہی سے پیپلز پارٹی کو سپورٹ کیا ہے کہ میرے والد اور شوہر دونوں اِسی سے وابستہ تھے۔گویا، ہم خاندانی اور نظریاتی طور پر پاکستان پیپلز پارٹی کا حصّہ ہیں۔
میرے شوہر، میر محمّد صادق عمرانی کی پارٹی سے رفاقت کم از کم 50 سالہ ہے اور اِس دَوران اُنہوں نے قید و بند کی صعوبتیں بھی برداشت کیں۔ آمرانہ دَور کے تمام تر جبر سہے، لیکن پارٹی کا ساتھ نہیں چھوڑا۔ جب کہ میری آئیڈیل محترمہ بے نظیر بھٹّو ہیں کہ اُن کا جان دار سیاسی کردار ہماری تاریخ کا سنہرا باب ہے۔ میری پوری کوشش ہے کہ اپنے علاقے کے عوام، خصوصاً خواتین کی فلاح و بہبود اور بے روزگاری کے خاتمے کے لیے ہر ممکنہ اقدامات کروں۔‘‘
سلمیٰ کاکڑ
عوامی نیشنل پارٹی سے تعلق رکھنے والی رکن صوبائی اسمبلی، سلمیٰ کاکڑ کوئٹہ میں پیدا ہوئیں۔ گریجویشن جامعہ بلوچستان سے کی۔وہ شروع ہی سے باچا خان کی فکر سے متاثر اور 2008ء سے عوامی نیشنل پارٹی کی رُکن ہیں۔ اِمسال، یعنی 2024 ء میں اے این پی کی ضلعی، صوبائی اور مرکزی کاؤنسل کی رُکن منتخب ہوئیں۔ بعدازاں، مرکزی کاؤنسل سیشن میں مرکزی نائب صدر کے عُہدے پر فائز ہوئیں۔ 2024ء کے عام انتخابات میں پارٹی کے صوبائی پارلیمانی بورڈ نے مخصوص نشستوں پر ان کا نام پہلی ترجیح کے طور پر دیا تھا۔
وہ صوبائی اسمبلی میں ویمن پارلیمنٹیرین کاکس کی سیکرٹری مالیات بھی ہیں۔ سلمیٰ کاکڑ کا کہنا ہے کہ’’ اِس تمام دَورانیے میں میرے شوہر،مابت کاکا نے میری بہت حوصلہ افزائی کی۔ مجھے تنظیم اور سیاست کی طرف مائل کرنے کے لیے اُنہوں نے بہت سپورٹ کیا۔ شروع میں کچھ رکاوٹیں حائل تھیں، لیکن وقت گزرنے کے ساتھ وہ مشکلات کم ہونے لگیں اور اب الحمدللہ، مجھے کوئی دِقّت درپیش نہیں اور مَیں اس کا تمام تر کریڈٹ اپنے شوہر کو دیتی ہوں، جو دوسری بار اے این پی کے صوبائی جنرل سیکرٹری منتخب ہوئے ہیں، جب کہ اس سے پہلے پارٹی کے صوبائی ترجمان کے طور پر خدمات سر انجام دے چُکے ہیں۔‘‘
سلمیٰ کاکڑ نے اِس عزم کا اظہار کیا کہ وہ خواتین کی فلاح وبہبود اور اُنہیں مالی طور پر مستحکم کرنے کے لیے پارلیمان کے اندر بھرپور آواز اُٹھائیں گی۔اُن کا کہنا ہے کہ’’خواتین کو تعلیم وصحت سے متعلق جو مسائل درپیش ہیں، اُن کا حل میری ترجیحات میں سرِ فہرست ہے۔
عوامی نیشنل پارٹی کو یہ اعزاز حاصل ہے کہ اس میں خواتین کو بنیادی یونٹ سے لے کر تحصیل، ضلعے، صوبے اور پارٹی کی مرکزی کابینہ تک میں حقِ نمائندگی دیا جاتا ہے۔ بقول باچاخان’’ اگر آپ نے کسی قوم یا معاشرے کی ترقّی اور تہذیب وتمدّن کے مدارج ناپنے ہوں، تو ان اقوام یا معاشروں کا اپنی خواتین سے برتاؤ اور سلوک دیکھ لیں، تو پتا چل جائے گا کہ اُس معاشرے نے کتنی ترقّی کی ہے۔‘‘
کلثوم نیاز بلوچ
کلثوم نیاز بلوچ سب سے کم عُمر رُکن صوبائی اسمبلی ہیں، جن کا تعلق نیشنل پارٹی سے ہے۔ وہ20 جنوری 1998کو کوئٹہ میں پیدا ہوئیں۔ والد نیاز بلوچ نے عملی سیاست کا آغاز بلوچ نیشنل یوتھ موومنٹ سے کیا، بعدازاں بی این ایم، بی ایس او اور پھر نیشنل پارٹی کے پلیٹ فارم سے سیاست کی اور کئی مرتبہ ضلع کوئٹہ کے صدر رہے۔ اِن دنوں مرکزی کمیٹی کے رُکن ہیں۔
کلثوم نیاز بلوچ نے گورنمنٹ گرلز کالج، جناح ٹاؤن سے ایف ایس سی، جب کہ ایگری کلچر کالج، کوئٹہ سے بی ایس آنرز کیا۔ جامعہ بلوچستان سے انگلش لٹریچر میں ماسٹرز کرنے کے بعد اب ایگری کلچر یونی ورسٹی سے ایم فِل کر رہی ہیں۔
کلثوم نیاز بلوچ کا کہنا ہے کہ’’ مجھے سیاست سے لگاؤ اُس وقت پیدا ہوا، جب مَیں ساتویں جماعت میں تھی۔ میرے والد روزانہ مجھے صبح وقت پر اسکول پہنچاتے، مگر چُھٹی کے وقت اُن کی سیاسی مصروفیات کے باعث اکثر دیر ہو جایا کرتی، تو مجھے اسکول کے باہر اُن کا انتظار کرنا پڑتا۔ مَیں جب بھی والد سے دیر سے آنے کی وجہ دریافت کرتی، تو جواب ملتا’’بیٹی! ایک سیاسی مصروفیت تھی، اِس لیے تاخیر ہو گئی۔‘‘
پھر مَیں نے بھی کم عُمری ہی میں اپنے والد کے ساتھ سیاسی سرگرمیوں میں شرکت شروع کر دی۔‘‘ اُن کا مزید کہنا ہے کہ’’ میری ترجیح خواتین کے حقوق کا حصول ہے اور اس کے لیے دن رات کام کر رہی ہوں تاکہ عورتوں میں اُن کے حقوق سے متعلق شعور و آگاہی پیدا کر سکوں۔ میرا سیاسی سفر کوئٹہ میں نیشنل پارٹی کی ضلعی رُکن کی حیثیت سے شروع ہوا اور اب مَیں پارٹی کی صوبائی سیکریٹری برائے خواتین ہوں۔ ہماری نیشنل پارٹی ایک متوسّط اور غریب طبقے کی جماعت ہے، جس نے ہر دَور میں عوام کے حقوق کے لیے بلا تفریقِ رنگ و نسل جدوجہد کی ہے۔‘‘
صفیہ فضل الرحمٰن
جمعیت علماء اسلام سے تعلق رکھنے والی رکن صوبائی اسمبلی صفیہ فضل الرحمٰن نے ابتدائی تعلیم اپنے آبائی علاقے، سوراب سے حاصل کی۔بعدازاں، عالمہ کا کورس مکمل کیا اور اپنے والد، ممتاز عالمِ دین مولانا اللہ بخش کے مدرسۃ البنات، جامعہ محمّدیہ میں بطور معلّمہ فرائض سرانجام دینے شروع کر دئیے۔ وہ دینی درس و تدریس سے وابستہ ہیں۔ان کے شوہر، مفتی فضل الرحمٰن بھی نام وَر عالمِ دین اور جمعیت علمائے اسلام کے رہنما ہیں۔
صفیہ فضل الرحمٰن گرچہ پہلی مرتبہ اسمبلی کی رُکن بنی ہیں، مگر اس وقت متعدّد کمیٹیز کا حصّہ ہیں۔ اُن کا اپنی سیاسی سرگرمیوں اور عزائم کے ضمن میں کہنا ہے کہ’’بلوچستان سے غربت و پس ماندگی کے خاتمے کے لیے سب کو مل جُل کر اپنا کردار ادا کرنا ہوگا۔ میری پوری کوشش ہے کہ ایوان میں اُن طبقات کے لیے آواز اُٹھاؤں اور اُن کی نمائندگی کروں، جن کے حقوق پر کوئی بات نہیں کرتا۔
جمعیت علمائے اسلام گزشتہ کئی دہائیوں سے بلوچستان کی سیاست میں اہم کردار ادا کرتی چلی آ رہی ہے۔ یہ جماعت کئی حکومتوں کا حصّہ بھی رہی، مگر آج بھی اس کے سادہ منش وزراء کی مثالیں دی جاتی ہیں۔‘‘