• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

8 ماہ میں پولیو کے 15 کیسز، 12 کا تعلق بلوچستان سے ہونا سخت تشویش ناک ہے

ایمرجینسی آپریشن سینٹر، کوئٹہ کے صوبائی کوآرڈی نیٹر، انعام الحق قریش سے خصوصی بات چیت
 ایمرجینسی آپریشن سینٹر، کوئٹہ کے صوبائی کوآرڈی نیٹر، انعام الحق قریش سے خصوصی بات چیت

بات چیت: فرّخ شہزاد ملک، کوئٹہ

بلوچستان کے بہت اچھی شہرت کے حامل نوجوان بیورو کریٹ، ایمرجینسی آپریشن سینٹر، کوئٹہ کے صوبائی کوآرڈی نیٹر، انعام الحق قریش کا تعلق ضلع ژوب کے ایک متوسّط گھرانے سے ہے۔ ابتدائی تعلیم ژوب سے حاصل کی، جب کہ جامعہ بلوچستان سے شعبہ ماس کمیونی کیشن میں گولڈ میڈل حاصل کیا اور اگلے ہی سال مقابلے کے امتحان میں کام یاب ہو کر بطور اسسٹنٹ کمشنر کیریئر کا آغاز کیا۔ اُن کے بڑے بھائی، نور الحق بھی سی ایس پی آفیسر ہیں۔واضح رہے، انعام الحق قریش مختلف اضلاع میں ڈپٹی کمشنر بھی رہے۔

آج جب کہ پوری دنیا سے پولیو کا مرض ختم ہو چُکا ہے، صرف دو ہم سایہ ممالک، پاکستان اور افغانستان سے اس کا تاحال خاتمہ ممکن نہیں ہو سکا، بلکہ سالِ رواں متعدّد کیسز سامنے آنے کے بعد یہ یہاں ایک مرتبہ پھر ایک بڑے خطرے کے طور پر سَر اُٹھا رہا ہے، جس سے عالمی تشویش میں بھی اضافہ ہوا ہے کہ عالمی ادارۂ صحت کی طرف سے کسی بھی خطّے کو اُسی وقت پولیو سے پاک قرار دیا جاتا ہے، جب اُس خطّے کے تمام ممالک سے مسلسل تین سال تک کوئی نیا کیس سامنے نہ آئے۔

پاکستان اور افغانستان کئی بار پولیو کے خاتمے کے قریب پہنچنے کے باوجود کام یابی کی منزل سے دُور ہیں کہ رواں برس صرف پاکستان سے پولیو کے 15کیسز سامنے آ چکے ہیں، جن میں سے 12 بلوچستان سے رپورٹ ہوئے اور اُن میں سے3 بچّوں کی موت بھی واقع ہوگئی۔

سو، مسلسل کوششوں کے باوجود پاکستان سے پولیو ختم نہ ہونے کی وجوہ جاننے کے ضمن میں ہم نے ایمرجینسی آپریشن سینٹر، کوئٹہ کے صوبائی کوآرڈی نیٹر، انعام الحق قریش سے ایک تفصیلی نشست کی، جس کا احوال جنگ،’’سنڈے میگزین‘‘ کے قارئین کی نذر ہے۔

نمایندہ جنگ سے بات چیت کرتے ہوئے… (عکّاسی: رابرٹ جیمس)
نمایندہ جنگ سے بات چیت کرتے ہوئے… (عکّاسی: رابرٹ جیمس)

س: ایمرجینسی آپریشن سینٹر کے اغراض و مقاصد کیا ہیں اور محکمۂ صحت کی موجودگی میں اس کے قیام کی ضرورت کیوں محسوس کی گئی؟

ج: مُلک میں پولیو کے بڑھتے کیسز کے پیشِ نظر وفاقی سطح پر نیشنل ایمرجینسی آپریشن سینٹر اور صوبوں میں پروینشل ایمرجینسی آپریشن سینٹرز قائم کر کے ایک ہی چھت کے نیچے مختلف ڈونرز کے دفاتر قائم کر دئیے گئے تا کہ روابط میں آسانی رہے اور انسدادِ پولیو کے لیے مؤثر و بروقت کام کیا جا سکے۔ ان ڈونرز میں ڈبلیو ایچ او، یونیسیف اور بل گیٹس فائونڈیشن شامل ہیں۔

س: پوری دنیا سے پولیو کا مرض ختم ہو چُکا، لیکن پاکستان میں تاحال نئے کیسز سامنے آ رہے ہیں، اس کی کیا وجہ ہے؟

ج: پاکستان میں پولیو کے پھیلاؤ کی کئی وجوہ ہیں، جن میں سے ایک والدین یا سرپرستوں کے تحفّظات ہیں، جس کے سبب وہ بچّوں کو پولیو سے بچاؤ کے قطرے پلانے ہی سے انکار کر دیتے ہیں۔ حکومت کی جانب سے سخت اقدامات کے بعد ایسے انکاری والدین کی تعداد کم ہوئی ہے، لیکن اس کے بعد جو سب سے بڑا ایشو سامنے آیا، وہ انسدادِ پولیو ٹیمز کے ساتھ مل کر فیک فنگر مارکنگ ہے۔ یعنی بچّوں کو قطرے پلائے بغیر ہی اُن کے ہاتھ کی انگلی پر مخصوص نشان لگا دیا جاتا ہے۔

نیز، کوئٹہ بلاک، خاص طور پر پشین، قلعہ عبداللہ، چمن اور دیگر اضلاع میں حویلی نُما گھروں میں کئی کئی فیملیز ایک ساتھ رہائش پذیر ہیں اور اُن گھروں میں درجنوں بچّے رہتے ہیں۔ دیہی علاقوں میں خواتین ٹیمز کی کمی کے باعث مَردوں پر مشتمل ٹیمز بنانی پڑتی ہیں، جو ان بڑے گھروں کے اندر نہیں جا سکتیں اور ان گھروں میں سے چند بچّے باہر بھیج دئیے جاتے ہیں اور انہیں قطرے پلا دئیے جاتے ہیں، جب کہ دیگر بچّے محروم رہ جاتے ہیں۔ اِسی طرح بلوچستان میں پولیو کے پھیلاؤ کی ایک بڑی وجہ ’’گولڈن چائلڈ‘‘ بھی ہیں۔ یہ اصطلاح اُن لڑکوں کے لیے استعمال کی جاتی ہے، جو کئی لڑکیوں کے بعد پیدا ہوتے ہیں۔

ایسے گھروں میں بچیوں کو تو پولیو سے بچاؤ کے قطرے پلائے جاتے ہیں، لیکن لڑکے کو چُھپا دیا جاتا ہے یا قطرے پلانے سے صاف انکار کردیا جاتا ہے۔ اِسی طرح کا ایک کیس گزشتہ دنوں قلعہ عبداللہ میں رپورٹ ہوا۔ بڑے حویلی نُما گھر میں 15بچّے، بچیاں تھے، جن میں 14کی ویکسی نیشن کی جا رہی تھی، جب کہ ایک بچّے کو قطرے نہیں پلائے گئے، جس کے باعث وہ پولیو میں مبتلا ہوگیا۔

اِسی طرح ناقص سیوریج سسٹم اور صفائی ستھرائی کا فقدان بھی پولیو کے مرض پر قابو نہ پانے کی ایک بڑی وجہ ہے۔ بلوچستان کے اکثر علاقوں میں سیوریج سسٹم کے مسائل ہیں، جب کہ بچّوں کی صفائی ستھرائی کا بھی کوئی خاص خیال نہیں رکھا جاتا اور بلوچستان میں پولیو کے زیادہ تر کیسز پشتون بیلٹ سے سامنے آتے ہیں، جب کہ بلوچ بیلٹ میں امن و امان کے مسائل کے باوجود پولیو کا مرض کنٹرول میں ہے۔ 

پھر پچھلے چند ماہ سے پولیو سے بچاؤ کے قطروں سے انکار کا ایک نیا ٹرینڈ سامنے آیا ہے، جو خیبر پختون خوا میں بہت زیادہ ہے، وہ یہ کہ عوام کی جانب سے پولیو مہم سڑکوں اور اسپتالوں کی تعمیر سمیت عوامی مسائل کے حل سے مشروط کر دی جاتی ہے۔ چند ماہ قبل چمن میں دھرنا جاری تھا، جس کے شرکا نے پولیو مہم کا صرف اِس لیے بائیکاٹ کیا کہ جب تک اُن کے مطالبات تسلیم نہیں کیے جاتے، وہ پولیو مہم کا بائیکاٹ کریں گے۔ 

اِنہی وجوہ کے باعث بلوچستان میں امسال پولیو کے 12کیسز رپورٹ ہوچُکے ہیں، جن میں 3بچّوں کی ہلاکت بھی ہوئی۔ ان بچّوں کا تعلق قلعہ سیف اللہ، کوئٹہ اور خاران سے تھا۔ آخر الذکر بچّہ پولیو کا شکار تھا اور اُس کی موت ڈائریا سے ہوئی۔ 

فیک پولیو مہم کا حصّہ بننے اور فرائض میں غفلت برتنے والے4 ہزار ورکرز میں سے 534 کا احتساب کرکے74 کو ملازمتوں سے برخاست کیا گیا ہے۔ یاد رہے، بلوچستان28 ماہ تک پولیو فِری صوبہ رہا ہے۔ یہاں کُل 36اضلاع ہیں، جن میں سے20 میں پولیو وائرس کی موجودگی پائی گئی ہے۔

س: عوام میں عام تاثر ہے کہ پولیو ویکسی نیشن آبادی کم کرنے کی سازش ہے، پولیو کے علاوہ دیگر امراض کے خاتمے پر کیوں توجّہ نہیں دی جاتی، تو اِن تحفّظات کو دُور کرنے کے لیے کیا اقدامات کیے گئے؟

ج: ایمرجینسی آپریشن سینٹر میں ایک پوری ٹیم ہے، جس کا کام ہی کمیونی کیشن ہے، یعنی کہ عوام تک صحیح پیغام پہنچانا۔ شروع دنوں میں مذہبی طبقہ پولیو کے قطروں کے بہت خلاف تھا، یہاں تک کہ علماء خطبات میں بھی اس کے خلاف بات کیا کرتے تھے، جس کے بعد علمائے کرام سے ملاقاتیں کر کے اُن کے تحفّظات دُور کیے گئے۔ 

مفتی محمّد تقی عثمانی اور مفتی منیب الرحمان جیسے جید علمائے کرام سے قومی سطح پر رابطہ کر کے ماہرین نے اُن کے تحفّظات و خدشات دُور کیے، جس کے بعد انھوں نے پولیو سے بچاؤ کے قطرے پلانے کے حق میں باقاعدہ فتوے جاری کیے، جن کی اشاعت کے بعد مذہبی طور پر پولیو مہم کی مخالفت میں بہت کمی آگئی۔ 

اِسی طرح علمائے کرام ہماری ٹیم کاحصّہ ہیں، جنہیں’’ آر ایس پیز‘‘ کہا جاتا ہے، جو عوام کے خدشات دُور کرتے ہیں۔ نیز، وقتاً فوقتاً ’’علماء کانفرنسز‘‘ کا بھی انعقاد کیا جاتا ہے۔ ایسی ہی ایک کانفرنس گزشتہ ماہ بھی منعقد کی گئی۔اگر پولیو کے مکمل انسداد کی بات کی جائے، تو یہ صرف مہمّات ہی کے ذریعے کنٹرول کیا جا سکتا ہے۔ اِس ضمن میں ہمارے پاس آزاد کشمیر کی مثال موجود ہے، جہاں امیونائزیشن توسیعی پروگرام (EPI) سینٹرز میں 80فی صد سے زائد لوگ اپنے بچّوں کی حفاظتی ویکسی نیشن کرواتے ہیں، جن میں پولیو کے قطرے بھی شامل ہوتے ہیں۔ 

وہاں انسدادِ پولیو مہم بھی چلائی جاتی ہے، لیکن 80فی صد سے زائد آبادی ازخود حفاظتی ویکسی نیشن کے باعث پولیو سمیت دیگر بیماریوں سے محفوظ ہے۔ یہی وجہ ہے کہ 24برس کے دَوران آزاد کشمیر میں پولیو کا کوئی کیس رپورٹ نہیں ہوا۔ اس کے برعکس، بلوچستان میں سینٹرز میں جا کر بچّوں کی ویکسی نیشن کروانے کی شرح بہت کم ہے۔ ایک محتاط اندازے کے مطابق صرف 38فی صد بچّوں کو سینٹرز لایا جاتا ہے۔

س: ایک رائے یہ بھی ہے کہ جب تک بیرونی دنیا سے کسی بیماری کے لیے فنڈز مل رہے ہوتے ہیں، وہ بیماری موجود رہتی ہے اور جیسے ہی فنڈنگ ختم ہوتی ہے، بیماری بھی ختم ہو جاتی ہے؟

ج: پولیو کے خاتمے کے لیے عالمی دنیا کا تعاون حاصل ہے، جس کی بڑی وجہ یہ ہے کہ پوری دنیا میں پولیو ختم ہو چُکا ہے، صرف افغانستان اور پاکستان ہی میں اس کا وائرس موجود ہے ( اور ابھی حال ہی میں ایک کیس غزہ سے رپورٹ ہوا ہے) اور اگر یہ وائرس کسی ایک مُلک میں بھی موجود ہے، تو دوبارہ پوری دنیا میں اس کے پھیلائو کے خطرات موجود رہیں گے۔

ڈونرز کا تعاون اپنی جگہ، ہماری حکومتیں بھی اِس مرض کے خاتمے پر خطیر رقم خرچ کر رہی ہیں۔ عوام میں یہ تاثر موجود ہے کہ لوگ کینسر سے مر رہے ہیں، دیگر بیماریوں کا شکار ہو رہے ہیں، حتیٰ کہ خوراک کی کمی کے باعث بھی اموات ہو رہی ہیں، لیکن پولیو معاملہ کا یہ ہے کہ یہ پوری دنیا سے 99فی صد ختم ہو چُکا، صرف ایک فی صد باقی ہے، تو یہی وجہ ہے کہ اندرونی اور بیرونی طور پر اِس کے خاتمے کے لیے بہت کوششیں کی جا رہی ہیں۔

س: پولیو کے مکمل خاتمے کے لیے کیا پیغام دینا چاہیں گے؟

ج: چند سال پہلے تک پاکستان کا شمار اُن ممالک میں ہوتا تھا،جہاں پولیو کیسز بہت زیادہ تھے اور آج پاکستان پولیو فِری ممالک کی فہرست میں داخل ہونے کے قریب پہنچ چُکا ہے۔ پولیو کا واحد دفاع، پولیو ویکسین ہے، جو پانچ سال تک کے بچّوں کو پلائی جاتی ہے، اُس کے چند قطرے اِس ناقابلِ علاج مرض سے بچاؤ کے لیے ڈھال کا کام دیتے ہیں۔ اِس ضمن میں پولیو ٹیمز سے بھرپور تعاون کی ضرورت ہے۔ ہمارے مُلک میں انسدادِ پولیو مہم کے دوران ٹیمز کئی کئی مرتبہ لوگوں کے گھروں پر جاتی ہیں، حالاں کہ دنیا کے دیگر ممالک میں ایسا نہیں ہوتا۔

پولیو کے قطروں کو بعض حلقوں کی طرف سے حرام بھی قرار دیا گیا اور یہ اِس منفی پراپیگنڈے ہی کا نتیجہ ہے کہ مُلک کے پس ماندہ علاقوں میں پولیو مہم چلانا ایک نہایت ہی دشوار کام بن گیا۔ پولیو ورکرز پر حملے ہونے لگے اور اِس مقصد کے لیے جانے والی ٹیمز کو اغوا اور یرغمال بنانے جیسے سنگین واقعات بھی پیش آئے۔تاہم، اس کے باوجود پولیو کے خاتمے کے لیے کوششیں جاری ہیں۔ افغانستان کی طرف سے خطرات موجود ہیں، اِس لیے ہمیں مسلسل چوکس رہنے کی ضرورت ہے۔

خوش آئند امر یہ ہے کہ پولیو مہم سے متعلق معاشرے میں خاصا شعور بے دار ہوا ہے اور منفی پراپیگنڈا بھی دَم توڑ گیا ہے۔ اس ضمن میں پولیو ورکرز کو سلام پیش کرنے کی ضرورت ہے، جو سردی دیکھتے ہیں نہ گرمی، سیلابی کیفیت اُن کا راستہ روک سکتی ہے اور نہ برف باری، وہ گھر گھر پہنچتے ہیں اور بچّوں کو پولیو سے بچاؤ کے قطرے پلاتے ہیں۔ ایک صحت مند، توانا اور مضبوط پاکستان ہم سب کا خواب ہے اور ذمّے داری بھی،سو اِس کے لیے ہر سطح پر کوششوں کی ضرورت ہے۔

س: تعلیم یافتہ نوجوانوں میں مقابلے کے امتحانات میں شرکت کا رجحان بڑھ رہا ہے، آپ اسے کیسے دیکھتے ہیں؟

ج: بلاشبہ معیاری تعلیم کی بدولت ہی ترقّی کی منازل طے کی جا سکتی ہیں اور آگے عملی زندگی کے چیلنجز کا کام یابی سے سامنا کیا جا سکتا ہے۔ جہاں تک نوجوانوں میں بیورو کریسی میں شمولیت کے رجحان کی بات ہے، تو مَیں اسے حوصلہ افزا نہیں سمجھتا، کیوں کہ مقابلے کے امتحانات میں محدود نشستیں ہوتی ہیں اور یوں پڑھے لکھے تمام نوجوان بیورو کریسی کا حصّہ نہیں بن سکتے۔ 

ہمارے ہاں کئی پیشے ہیں، جن کے ذریعے نوجوان نہ صرف اپنا مستقبل سنوار سکتے ہیں، بلکہ مُلک اور صوبے کی ترقّی میں بھی اہم کردار ادا کر سکتے ہیں۔ جیسے کہ طب، تعلیم، انجینئرنگ اور قانون وغیرہ انتہائی وسیع شعبے ہیں۔ اِن دنوں سافٹ ویئر انجینئرنگ کی بہت زیادہ ڈیمانڈ ہے۔ ہمیں مختلف پروفیشنز میں قابل اور با صلاحیت نوجوان چاہئیں۔ 

بلوچستان میں اچھے، پڑھے لکھے ڈاکٹرز، اساتذہ اور کمپیوٹر سائنس کے ماہرین کی ضرورت ہے۔طلبہ تعلیم کے ساتھ مختلف شعبوں میں بھی مہارت حاصل کریں اور اگر وہ دل چسپی رکھتے ہیں، تو مقابلے کے امتحان میں بھی ضرور قسمت آزمائیں۔ نوجوانوں کی اکثریت پروٹوکول کے باعث انتظامی پوسٹس کو پسند کرتی ہے، لیکن انتظامی افسران کو میّسر گاڑی یا سیکیوریٹی گارڈ اُن کی جاب کے لیے ضروری ہوتے ہیں۔

س: وزیرِ اعلیٰ میر سرفراز بگٹی نے پچھلے دنوں بیورو کریسی کی کارکردگی پر کئی سوالات اُٹھائے اور بتایا کہ کس طرح بیورو کریٹ پُرکشش پوسٹس پر تعیّناتی کے لیے سفارشیں کرواتے ہیں، اِس تناظر میں آپ سمجھتے ہیں کہ مُلکی زبوں حالی میں بیورو کریسی کا بھی اہم کردار ہے؟

ج: دیکھیں، اچھے بُرے لوگ تو ہر شعبے میں ہوتے ہیں اور بیورو کریسی بھی ہمارے معاشرے کا حصّہ ہے۔ اگر ہمارا معاشرہ ہی ٹھیک نہیں، تو پھر یہ کیسے ہو سکتا ہے کہ بیورو کریسی 100فی صد ٹھیک ہو۔ اِس امر میں کوئی شک نہیں کہ پیشہ وَر اور متحرّک بیورو کریسی مُلکی نظم و نسق کی بہتری اور ترقّی کے اہداف حاصل کرنے میں اہم کردار ادا کر سکتی ہے اور بہتر اور مؤثر گورنینس میں بیورو کریسی کا اہم کردار ہے۔ دیانت دار افسران بامعنی اور پائے دار تبدیلی لا سکتے ہیں۔

س: جرنلزم میں گولڈ میڈل حاصل کرنے اور قومی اخبارات کے لکھاری ہونے کے باوجود آپ نے میڈیا کی فیلڈ کیوں اختیار نہیں کی؟

ج: مَیں نے جرنلزم کی ڈگری حاصل کرنے کے بعد گھر والوں سے صحافت میں آنے سے متعلق مشورہ کیا، تو اُنھوں نے کہا کہ پہلے سرکاری ملازمت کی کوشش کر لو، اگر نہ مل سکی، تو پھر صحافت کی طرف چلے جانا۔ خوش قسمتی سمجھ لیں کہ ڈگری ملنے کے اگلے ہی سال مَیں نے بلوچستان پبلک سروس کمیشن کے تحت اسسٹنٹ کمشنر کے امتحان میں کام یابی حاصل کی، جب کہ اُسی سال میرے بڑے بھائی نور الحق نے بھی سی ایس ایس کلیئر کیا۔ ہم دونوں بھائی ایک ساتھ امتحانات کی تیاری کرتے تھے اور دونوں نے ایک ہی ساتھ سِول سروس جوائن کی۔