• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
جن ملکوں میں مالی سال جولائی، جون کے درمیان ہوتا ہے وہاں مارچ کے مہینے کی بڑی اہمیت ہوتی ہے کیونکہ اس ماہ میں رواں سال کے بجٹ کے نو ماہ پورے ہو جاتے ہیں اور موجودہ بجٹ کے اہداف کا 90 فی صدی اندازہ ہو جاتا ہے کہ وہ کس سمت میں جا رہے ہیں اور انہی کی بنیاد پر اگلے سال کا بجٹ تیار کیا جاتا ہے چنانچہ وزیر خزانہ نے تین موقعوں پر بجٹ پر اظہار خیال کیا۔ جون میں موجودہ حکومت کا دوسرا بجٹ قومی اسمبلی میں پیش ہوگا۔ عوام کو نئی حکومت سے بڑی توقعات تھیں مگر سیاست اور معیشت کے حقائق بڑے بے رحم ہوتے ہیں ان پر قابو پانا بڑے دل گردے کا کام ہے خصوصاً اس لئے کہ بجٹ سازی میں قدرت بھی ایک اہم کردار ادا کرتی ہے اور زرعی ملکوں پر یہ کردار بڑا اہم ہوتا ہے، اسی لئے برصغیر میں پچھلی دہائیوں میں بجٹ کو ’’بارش کا جوا‘‘ کہا جاتا تھا، اس جوئے سے جان اب بھی نہیں چھوٹی بالخصوص ناگہانی قدرتی آفات جیسے بلوچستان میں آواراں اور کیچ کے زلزلے جن میں سیکڑوں افراد، مویشی ہلاک اور زخمی ہوچکے ہیں اور سیکڑوں دودھ اور غذا کے لئے سسک رہے ہیں۔ قیام پاکستان سے پہلے بنگال میں شدید قحط پڑا وائسرائے ہند اپنی ٹیم کے ساتھ معائنے کے لئے گئے، سینڈوجز، ابلے انڈے، اور پانی لنچ کے لئے اپنے ساتھ لے گئے جب ہمارے وزیراعظم تھر گئے، ان کے لنچ کے لئے بریانی، کوفتے، روسٹ چکن اور ٹھنڈے مشروبات کا اہتمام کیا گیا، وزیراعظم نے مصیبت زدہ زمین پر ایسا لنچ کھانے سے انکار کردیا البتہ مدعوین نے ان ڈشوں کے ساتھ پورا انصاف کیا۔
نئی یعنی موجودہ حکومت کو بہت سے مسائل کا سامنا ہے، بجلی کی قلت اور چوری اور نتیجے میں لوڈشیڈنگ، گیس کی قلت اور چوری (ایک سال میں 7 ارب 70 کروڑ روپے کی گیس کی چوری) ٹیکسوں کی عدم وصولی اور چوری، بڑھتی ہوئی مہنگائی کا سامنا، امن و امان کی بگڑتی ہوئی صورت سے نپٹنا، ڈرون اور طالبان کے حملے وغیرہ۔ حکومت ان مسائل پر قابو نہ پا سکی اور عوام میں مایوسی پھیلی یہ مسائل چٹکی بجاتے ہوئے حل نہیں ہو سکتے۔ مثلاً گیس قدرت کا عطیہ ہے، مصنوعی گیس بہت گراں ہو گی، بجلی کوئلے، تیل، ہوا، سورج او جوہری توانائی کے ذریعوں سے حاصل ہوتی ہے اور ان سے بٹن دبا کر روشنی حاصل نہیں کی جا سکتی اس کے لئے سرمایہ اور وقت درکار ہے اور یہ سلسلے اگلے سال بھی جاری رہیں گے۔
معاشی بحالی کی سب سے بڑی خوشخبری یہ ہے کہ روپیہ جس کی قدر بیرونی کرنسیوں کے مقابلے میں خصوصاً ڈالر کی نسبت سے گر کر 111 روپے فی ڈالر ہو گئی تھی وہ 97.70 روپے پر آگئی اور مزید کمی کی توقع ہے۔
(2) مالیاتی فنڈ کو شرح نمو کا ہدف حاصل ہونے کی امید نہیں مگر دوسرے اشاریوں سے بہتری کی توقع ہے۔
(3)اسٹیٹ بینک آف پاکستان جو حکومت کی معاشی پالیسیوں سے اتفاق نہیں کرتا تھا اس سال بعض امور میں حکومت کی ہمنوائی کرتا ہے، اس کا اندازہ ہے کہ اس سال شرح نمو 5 فیصدی رہے گی۔
(4) وزیر خزانہ 7 یا 14جون کو قومی اسمبلی میں بجٹ پیش کریں گے۔
(5) اس سال بیرونی ملکوں سے ترسیلات زر کی رفتار اچھی رہی اور 25 مارچ تک مبادلات خارجہ کے ذخائر 9 ارب 64 کروڑ80 لاکھ ہو چکے ہیں ان میں آئی ایم ایف کی طرف سے 550 ملین ڈالر وصول ہونے والی قسط اور ڈھائی کروڑ ڈالر کا تحفہ ایک دوست ملک کا شامل ہے جس پر بڑی لے دے ہو رہی ہے کہ اس کے معاوضے میں ہمیں کیا دینا ہو گا حالانکہ سرکاری سطح پر کھل کر یہ بات کہی گئی کہ یہ بلاکسی شرط کے صرف تحفہ ہے۔
(6) بلوچستان کے زلزلے میں ایک خیر کا پہلو یہ نظر آیا کہ ایک بڑا اور دو چھوٹے جزیرے نمودار ہو گئے، اس سمندری علاقے میں میتھین گیس کی بو آرہی ہے جو گھروں میں بطور ایندھن استعمال ہوتی ہے۔
(7) وزیرخزانہ نے بجٹ کی تیاری کا ذکرکرتے ہوئے یہ بھی کہہ دیا کہ بجٹ میں سرکاری ملازمین کی تنخواہوں اور پنشنوں کا کوئی ذکر نہیں۔ اس پر آل پاکستان کلرکس ایسوسی ایشن فوری طورپر میدان میں آگئی اور اعلان کیا کہ وہ قلم چھوڑ اسٹرائک کے علاوہ 3؍ اپریل سے اسٹرائک شروع کریں گے، دفتروں کو تالے لگا دیں گے اور ریلیاں نکالیں گے، وزارت خزانہ کے ایک عہدیدار کی طرف اس خبر کو غلط اور شر انگیز قرار دیا گیا پھر وزیر خزانہ کی طرف سے کہا گیا کہ تنخواہوں میں اضافہ کابینہ کی طرف سے ہو گا اور افراط زر کے اوسط کو پیش نظر رکھتے ہوئے فیصلہ کیا جائے گا۔
(8) اگلے ماہ حکومت 50کروڑ ڈالر کے یورو بانڈ جاری کرے گی یہ رقم بھاشا ڈیم کیلئے استعمال کی جائے گی۔
(9) بینکوں کے غیر فعال قرضوں میں 73فیصد کی کمی ہوئی۔
(10) اسٹاک مارکیٹ میں مسلسل تیزی کی روایت قائم ہے۔
(11) امریکہ نے پاکستان کی امدادی رقم میں ایک کروڑ ڈالر کٹوتی کردی اور یہ رقم یوکرائن کو دی جائے گی۔
(12) اسٹیٹ بینک نے سود/ مارک اپ کی شرح بدستور دس فی صدہی رکھی۔
(13) حکومت طالبان سے امن کی خاطر مذاکرات کر رہی ہے اس کی کامیابی سے ملک میں امن و امان کی صورت حال تبدیل ہو جائے گی۔
(14) افراط زر کی شرح 10 فی صد رہے گی۔
(15) پیٹرول کی قیمت میں یکم اپریل سے کمی ممکن ہے مگر بجلی اور گیس کے نرخوں میں اضافہ ہو رہا ہے، گندم، اور نیشکر کی فصلیں اچھی ہوئی ہیں کپاس کی پیداوار میں کمی کے باوجود اس کی قیمت 7ہزار فی 40کلو گرام تک پہنچ گئی ہے، مہنگائی کم نہیں ہو رہی، عوام کو 2014-15ء کا سال بھی کم و بیش اسی سطح پر گزارنا ہوگا جس پر 2013-14ء گزرا، البتہ حکومت کو روپے کی قدر میں اضافے سے اورتیل کی بین الاقوامی قیمتوں میں کمی سے اور برآمدات میں اضافے سے کچھ فائدہ حاصل ہو جائے گا۔
تازہ ترین