نفسیات میں ایک اصطلاح استعمال ہوتی ہے، جسے Obsessionکہتے ہیں۔ Obsession یہ ہوتا ہے کہ انسان کی ساری سوچ پوری قوت کے ساتھ ایک نکتے پر فوکس ہو جاتی ہے۔ ویسے تو جو لوگ توجہ مرکوز کرسکتے ہوں، وہی کامیاب ہوتے ہیں۔ ہر چیز کی مگر نارمل حد ود ہوتی ہیں۔ ان حدود سے کوئی چیز باہر نکل جائے تو پھر تباہی ہے۔ کوئی شخص اولاد کا تحفظ یقینی بنانے کیلئےاسے گھر سے باہر ہی نہ نکلنے دے تو یہ نارمل نہیں۔ بچے کی تعلیم سمیت پوری زندگی متاثر ہو گی۔ دنیا کا کوئی بھی شخص Obsessedہو سکتاہے اور کبھی بھی Obsessed ہو سکتاہے۔ جن لوگوں نے اس خوفناک بیماری کا مشاہدہ نہیں کیا، وہ اس بات کو سمجھ نہیں سکتے۔ اللہ انکے درجات بلند فرمائے، ہمارے ایک رشتے دار گھنٹوں ہاتھ دھوتے رہتے؛حتیٰ کہ جلد پھٹ جاتی اور ٹینکی میں پانی ختم ہو جاتا۔ انہیں مگر اطمینان نصیب نہ ہوتا کہ انکے ہاتھ جراثیم سے پاک ہو چکے ہیں۔ ایسے شخص سے آپ اگر بات کریں تو وہ آپ کو ایک ایک بات کا جواب پوری ہوشمندی سے دے گا۔ دنیا کی ہر چیز میں وہ نارمل ہوگا، سوائے اپنے اس Obsessionکے۔ ایسے ہی ایک شخص کو دیکھا کہ اہل و عیال باہر جاتے تو ہربیس منٹ بعد فون کر کے وہ تسلی حاصل کرتا کہ سب کچھ ٹھیک ہے، کوئی حادثہ تو رونما نہیں ہوا۔مزید برآں یہ کہ ایسے شخص کو اگر آپ یہ بتائیں کہ اس کا رویہ نارمل نہیں تو وہ خود بھی اس بات سے اتفاق کرے گا۔ علمی اور عقلی طور پر وہ بھی جانتا ہے کہ چھ گھنٹے ہاتھ دھونے یا ہر چند منٹ بعد بچوں کی خیریت دریافت کرنے کی ہرگز کوئی ضرورت نہیں۔ اسکے باوجود کریگا وہ یہی اور کرتا رہے گا اور پوری زندگی کریگا۔ دماغ کے اندر کیمیکلز کا عدم توازن اسے اس بات پر مجبور کر دیگا۔ اس دوران دوسروں کو تو جو کوفت ہوگی سو ہوگی، سب سے زیادہ تکلیف سے خود مریض گزررہا ہوتا ہے۔گھنٹوں دھوتے دھوتے جلد جب پھٹ جائے تو اسے کتنی تکلیف ہوگی۔ وہ مگر مجبور ہے۔ اس کے بس میں اگر ہو تو وہ خود کو اس اذیت سے نکال نہ لے۔ ایک بار کہا کہ جو لوگ دن رات دولت اکھٹی کرنے میں مصروف ہیں، سب سے بڑے ذہنی مریض وہ ہیں۔ خود ڈاکٹر صاحب ساری زندگی بے انتہا مالی ایثار کرتے رہے۔ انسان Obsession کی تکلیف دہ وادی میں کیوں اتر جاتاہے؟ جواب: خوف، بے پناہ خوف۔ یہ خوف ہے جس نے اسے ایک نکتے پر مرتکز کر دیا ہے۔ ایک ہی عمل اور ایک ہی شے بار بار دہرانے پر مجبور کر دیا ہے۔ یہ خوف ہی ہے، جو مختلف شکلیں اختیار کر کے انسان پہ حملہ آور ہوتاہے۔ وہ اگر جراثیم کے خوف سے ہاتھ نہ دھو رہا ہوگا تو یہ خوف کوئی اور شکل اختیار کر لے گا۔ اولاد کا خوف آجائے گا۔آج اکثر لوگ آنے والے کل میں بھوکے مرنے کے خوف کا شکار ہیں۔ ہر انسان کو ڈر ہے کہ آنے والے دن میں کچھ اتنا برا ہونے والا ہے کہ کھانے کو روٹی بھی نہ ملے گی۔ حل اس نے یہ نکالا ہے کہ پوری قوت سے دولت اکٹھی کرنا شروع کر دی ہے۔ وہ جتنی مرضی دولت اکٹھی کر لے، یہ خوف اسی طرح قائم و دائم رہے گا۔ کوئی چیز اسے ختم کر سکتی ہے تو وہ توکل ہے۔توکل دینے سے ملتاہے، جمع کرنے سے نہیں۔ گناہ اور جرم کے نتیجے میں خوف پیدا ہوتا ہے۔ ایک خوف لاعلمی، پچھتاوے اور اللّٰہ کے حضور نہ بخشے جانے کا ہوتاہے۔ شیطان بھی انسان کے کان میں پھونکتا ہے کہ وہ انسانیت کے مرتبے سے گر چکا ہے۔ اب کچھ نہیں ہو سکتا۔ جو کچھ پروفیسر مبشر صاحب نے ارشاد فرمایا تھا، اس کی روشنی میں، جس کی سوئی بھی پوری قوت سے دولت پہ اٹکی ہوئی ہے، وہ Obsessionکا مریض ہے۔ آپ اپنے خیالات کا ذرا جائزہ لیجیے۔ اگر جاگتے ہوئے زیادہ تر وقت غیر ارادی طور پر آپ ایک یا دو خواہشات کے بارے میں سوچتے رہتے ہیں تو آپ Obsessedہیں۔ یا آپ کسی سے انتقام لینا چاہتے ہیں۔لالچ بھی انسان کو Obsessedکر دیتاہے۔سیاستدان کیوں اقتدار پہ قابض ہونے کیلئے ایک دوسرے کی گردنیں اتارتے ہیں۔کیا 1971ء کی جنگ کو تازہ کر کے پھانسیاں دینے والی شیخ حسینہ نارمل تھی؟ پاکستان میں اقتدار کی میوزیکل چیئرکے حالات بھی آپ کے سامنے ہیں۔ لوگ اقتدار کی خواہش میں دیوانے کیوں ہو جاتے ہیں۔جواب:دولت کی خواہش، جو کہ Obsessionکی حدود میں داخل ہو چکی۔ حکمران بن کر دولت اکٹھی کرنا آسان ہو جاتا ہے۔ انسانوں کی ایک بہت بڑی اکثریت غیر ارادی طور پرہمہ وقت دولت اور جنسی تلذذ کے بارے میں سوچتی رہتی ہے۔ یہ خواہشات دراصل وہ رسی ہیں، جنہوں نے ہمیں باندھ رکھاہے۔ ہم ایک غلام کی زندگی بسر کر رہے ہیں۔ انسان یہ نہیں جانتا کہ اس خوف اور لالچ کے Obsessionپر اگر انسان قابو پالے تو پھر ایک تابناک آزادی ہے، جس کا انبساط بیان نہیں کیا جا سکتا۔ ایسی آزادی، جس میں حیرت سے انسان سوچتا رہ جاتا ہے کہ خواہشات تلے دبا ہو اا س کا دماغ اسے کیسی قابلِ رحم زندگی بسر کرا رہا تھا۔