• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

پاکستان میں جعلی عاملوں اور نام نہاد پیروں، فقیروں کی لُوٹ مار سے متاثرہ افراد کی تعداد آئے روز بڑھتی جا رہی ہے اور اِس کی بڑی وجہ عوام میں پائی جانے والی توہّم پرستی، کم علمی اور سرکاری سطح پر اِن عناصر کی نگرانی و جانچ پڑتال اور اِن سے باز پرس کے لیےکسی ادارے کی عدم موجودگی ہے۔ 

اِن دنوں مُلک کے مختلف شہروں میں موجود ایسے ہی لاتعداد مزاروں، آستانوں میں متعدّد جعلی عامل، بابے بہت دھڑلے سے سادہ لوح عوام سے لُوٹ ماراوراسلامی اقدارکی بےتوقیری میں مصروف ہیں۔ یہ جعلی عامل اور نام نہاد پیر، فقیر اپنی تشہیر کے لیے اخبارات سمیت دیگرذرایع استعمال کرتے ہیں اور جب اِن کے مریدوں کی تعداد بڑھ جاتی ہے، تو پھر مقامی سیاست دان بھی ان کے حلقۂ اثر پرمشتمل ووٹ بینک کو اپنی طرف متوجّہ کرنے کے لیے اِن سے تعلقات استوار کر لیتے ہیں۔ نتیجتاً، مقامی انتظامیہ بھی اِن سے خوف کھانے لگتی ہے۔ یہ جعلی عامل، نام نہاد پیر، فقیر سادہ لوح افراد کا جذباتی استحصال کر کےاُن سے ماہانہ لاکھوں روپے کماتے ہیں، لیکن خود ٹیکس کی مَد میں ایک روپیا بھی ادا نہیں کرتے۔ 

عام طور پریہ جعلی عامل اپنے قبضے میں مؤکلین ہونےاوراپنے’’عملیات‘‘ کے ذریعے محبوب کوقدموں میں لانے،دشمن کوزیر کرنے، جنّات نکالنے، گھروں میں آگ لگانے یا بُجھانے اور خاندانی تنازعات سُلجھانے جیسے دعوے کرتے ہیں اور اِن کی اِن ہی چکنی چُپڑی باتوں میں آکر کئی اَن پڑھ، سادہ لوح افراد اپنی عُمر بھر کی جمع پونجی لُٹانے سے بھی دریغ نہیں کرتے۔ جب کہ اِس ضمن میں زیادہ حیرت انگیز اور افسوس ناک اَمر یہ ہے کہ کئی اعلیٰ تعلیم یافتہ افراد بھی ان آستانوں، مزاروں پر حاضری دے کر ان کے مذموم کاروبار کو تقویّت دینے کا باعث بن رہے ہیں۔

یہ جعلی عامل درحقیقت معاشرے کا ناسور ہیں، جوعموماً قرآنِ پاک میں جادو، حسد اور جنّات کے ذکر کے حوالے دے دے کر پریشان حال افراد کو شیشے میں اُتارتے ہیں۔ لہٰذا، فوری طور پر ضرورت اس اَمر کی ہے کہ وزارتِ مذہبی امور اس ضمن میں جیّد علمائے کرام کا ایک بورڈ تشکیل دے، جو باقاعدہ طریقۂ کار کے تحت فہمِ دین اور خوفِ خدا رکھنے والے حقیقی عاملوں اور پیروں، فقیروں کے آستانوں کی رجسٹریشن کرے اور جعلی پیروں،عاملوں کامحاسبہ کرے۔ 

نیز،حکومت اِن تمام ترآستانوں کوٹیکس نیٹ میں لانے کے بھی اقدامات کرے۔ علاوہ ازیں، مُلکی قرضہ اُتارنے کے لیے اِن آستانوں، مزاروں کی ایک چوتھائی آمدن بہ طورعطیہ بھی وصول کی جائے، تاکہ اور کچھ نہیں، تو مُلک کی معاشی مشکلات میں تو کسی حد تک کمی آئے۔

سنڈے میگزین سے مزید