• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
تاریخ دو طرح کی شخصیتوں کا احسان کبھی نہیں بھولتی اور انہیں ہمیشہ اپنے اوراق میں زندہ و جاوید رکھتی ہے۔ ان میں ایک شخصیت کسی ملک یا نظام کے بانی اور دوسری اپنے وقت کے مصلح کی ہوتی ہے۔اس حوالے سے قائداعظم بانیٔ پاکستان اور قائدِ عوام ذوالفقار علی بھٹو ایک مصلح کی حیثیت سے پاکستان کی تاریخ میں ہمیشہ زندہ رہیں گے لیکن سوال یہ ہے کہ اس بات کا فیصلہ کون کرتا ہے کیونکہ ایک وقت تک تو پیغمبروں سمیت تاریخ کی ہر ممتاز شخصیت ’’متنازع حیثیت کی حامل ‘‘ ہوتی ہے اور حکمران طبقے اپنے اپنے دور میں لامحدود اختیارات کی بنا پر خود کو بہترین اور اپنے مخالفین کو بدترین ثابت کرنے میں کوئی کسر اٹھا نہیں رکھتے لیکن بسا اوقات تاریخ کا فیصلہ مختلف ہوتا ہے۔ وہ وقت کے حاکموں کو مجرم اور ان کے معتوبین کو ہیرو قرار دے دیتی ہے۔ دراصل یہ فیصلہ عوام کرتے ہیں اور عوام کی عدالت ہی وہ عدالت ہوتی ہے جس کا فیصلہ حتمی ہوتا ہے کیونکہ تاریخ کی عدالت کسی مخصوص وقت کی عدالت کے نظریۂ ضرورت کے بجائے نظریۂ فطرت کے تحت فیصلہ کرتی ہے۔ جس پر فطری اصولوں کے سوا کسی اور طاقت کا اثر نہیں ہوتا۔ اس کا قانون سب کے لئے برابر اور حقیقی انصاف کا حامل ہوتاہے۔ذوالفقار علی بھٹو ہر بڑی شخصیت کی طرح اپنی زندگی میں متنازع حیثیت کے حامل رہے ہیں۔ ان کے چاہنے والے انہیں قائد عوام قرار دیتے رہے جبکہ مخالفین انہیں فاشسٹ، غدار اور قاتل کے الزامات سے نوازتے رہے ہیں۔ جنرل ضیاء کے گیارہ سالہ دور میں بھٹو کی کردار کشی میں سفاکانہ ذہنیت کا مظاہرہ کیا گیا۔ ان کے سیاسی کردار کے ساتھ ساتھ ان کی ذاتی زندگی ، یہاں تک کہ ان کے مسلمان ہونے کو بھی مشکوک بنانے کی کوششیں کی گئیں، انہیں ایک قاتل کی حیثیت سے ایک متنازع عدالتی فیصلے کے ذریعے تختۂ دار پر لٹکا دیا گیا۔ انہیں اور ان کے خاندان کو طرح طرح کی اذیتیں دی گئیں اور ایک طویل عرصے تک بھٹو کی تصویر اور ذکر کو بھی ممنوع قراد دے دیا گیا لیکن اس سب یکطرفہ پروپیگنڈہ کے باوجود عوام کی اکثریت نے نہ تو وقت کی عدالت کے فیصلے کو تسلیم کیا اور نہ ہی حکومتی پروپیگنڈے پر یقین کیا بلکہ اس کا الٹا اثر ہوا اور ہم نے دیکھا کہ ہماری تاریخ میں پہلی بار عوام نے اپنے بچوں کے نام بھٹو کے نام پر رکھے اور جنرل ضیاء کے بعد ہونے والے پہلے عام انتخابات میں بھٹو دشمن اسٹیبلشمنٹ کی تمام تر ٹیکنیکل دھاندلیوں کے باوجود پیپلزپارٹی کو کامیاب کرایا۔ جیسے جیسے وقت گزرتا گیا بھٹو کا سحر بڑھتا گیا اور اس کے مخالفین تاریخ کی دھند میں مجرموں کی حیثیت سے گم ہوتے گئے۔آج یہ عالم ہے کہ بھٹو جمہوریت اور انسانی حقوق کا سمبل بن چکا ہے کیونکہ ذوالفقار علی بھٹو علامت ہے جمہوریت اور جمہوری جدوجہد کے لئے جان قربان کرنے والے بہادر انسان کی، جس نے عوام کے حقوق کی خاطر تختۂ دار کو چوم لیا لیکن کسی غاصب کے سامنے سر نہ جھکایا۔
آج ذوالفقار علی بھٹو صرف پاکستان پیپلز پارٹی کے ہی نہیں، پاکستان کے ہر جمہوریت پسند اور انسانی حقوق کے داعی کے بھی لیڈر ہیں کیونکہ عوام نے ان کے خلاف غداری اور قتل کے الزامات کو تسلیم نہیں کیا اور تاریخ کی عدالت نے بھی انہیں ان الزامات سے بری قرار دے دیا ہے۔یہی وجہ ہے کہ جب ان کے کٹر مخالفین بھی ان کے مقدمۂ قتل کو انصاف کا قتل قرار دیتے ہیں اور میاں نواز شریف اور عمران خان انہیں عظیم قوم پرست لیڈر کہنے پر مجبور ہوجاتے ہیں تو وہ پاکستان پیپلز پارٹی کے بانی سربراہ کو نہیں ایک مقبول عوامی لیڈر اور مصلح (ریفارمر) کو خراجِ تحسین پیش کر رہے ہوتے ہیں کیونکہ اپنی تمام تر بشری خامیوں کے باوجود ذوالفقار علی بھٹو نے پاکستانی قوم کے لئے جو تاریخی کارنامے سرانجام دیئے انہیں تاریخ کبھی فراموش نہیں کر سکتی۔ ان میں 73ء کا متفقہ جمہوری آئین، اسلامی سربراہی کانفرنس، مسلم ممالک کی اکثریت پر مشتمل تیسری دنیا کے بلاک کی تشکیل، چین اور اسلامی ممالک کے ساتھ مخصوص تعلقات، آزاد خارجہ پالیسی، 90ہزار جنگی قیدیوں اور پانچ ہزار مربع میل علاقے کی بھارت سے بازیابی اور پاکستان کے ایٹمی پروگرام کی بنیاد رکھنا شامل ہیں۔ بھٹو کا سب سے بڑا کارنامہ محنت کش طبقے کو زبان دینا اور ان کے حقوق کو اجاگر کرنا ہے، انہوں نے محنت کش طبقے کو تحفظ ِ ملازمت ، حقِ یونین سازی اور دیگر مراعات سے بہرہ ور کیا اور انہیں انسان ہونے کا شعور بخشا۔ انہوں نے پہلی مرتبہ سیاست کو ڈرائنگ روموں سے نکال کر گلی کوچوں اور کھیتوں اور کھلیانوں تک پہنچایا۔ انہوں نے غریب طبقے کو پاکستان کی سیاست میں اہم مقام دیکر ان کے اندر جو ذہنی انقلاب پیدا کیا تھا، اس نے انہیں تاریخ میں ہمیشہ کے لئے امر کردیا ہے۔ وہ ایک ریفارمر اور پاکستان کی جدید عوامی سیاست کے بانی کی حیثیت سے ہمیشہ قابلِ احترام رہیں گے۔ یہی وجہ ہے کہ آج کا ہر مقبول سیاسی لیڈر ان کے اسٹائل کو اپنانے کی کوشش کرتا ہے۔ ذوالفقار علی بھٹو کی شخصیت کے بارے میں شاعروں ، ادیبوں ، تاریخ نویسوں اور دانشوروں نے جتنا کچھ لکھا ہے وہ بھی اپنی مثال آپ ہے۔ آج کی مسلم لیگ کی منتخب جمہوری حکومت جب 73ء کے آئین اور پاکستان کے ایٹمی پروگرام کے تحفظ کے عزم کا اظہار کرتی ہے تو درحقیقت وہ مسٹر بھٹو کو خراجِ تحسین پیش کرتی ہے۔جب کسی قومی شخصیت کا وجود اپنی پارٹی یا گروہ کے وجود سے بھی بڑھ کر ملکی یا عالمی شہرت کا حامل ہو جائے تو وہ اپنے ملک یا قوم کی شناخت کا درجہ حاصل کر لیتا ہے۔ایسی صورت میں وہ شخصیت قومی لیڈر کا روپ دھار لیتی ہے اور زندہ قومیں اپنے قومی لیڈروں کا ان کی پارٹی، گروہ یا علاقے سے قطع نظر ہمیشہ احترام کرتی ہیں۔ جمہوریت کی بنیادیں مضبوط بنانے کے لئے ضروری ہے کہ جمہوری جدوجہد کی علامت ذوالفقار علی بھٹو کو قومی لیڈر کا درجہ دے دیا جائے کیونکہ جمہوریت کے تسلسل ہی میں ہماری بقا ہے۔
تازہ ترین