• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
ہم بحث کے بادشاہ ہیں۔ رائی کا پہاڑ بنانے اور بال کی کھال اتارنے میں ثانی نہیں رکھتے۔ سب کو علم ہے کہ کوا کالا ہے ، مگر اسے سفید کہنے اور ثابت کرنے والے بھی مل جائیں گے۔ کسی زمانے میں دانشور ڈھونڈے نہیں ملتے تھے، اب ہر کوئی دعویدار ہے اور ہمہ وقت ا س کوشش میں کہ کچھ انوکھا کہے، کوئی اچھوتی اور چونکا دینے والی بات، تاکہ خلق خدا کی توجہ پائے۔ اپنے باپ کے عیب ہر کوئی چھپاتا ہے، مگر قوم کے باپ کے ناکردہ گناہوں کو بھی طشت ازبام کرنے میں راحت محسوس کرتا ہے میں اپنے کالج کے اس مالی کوسلام کرتا ہوں ، جس نے قائداعظم کے خلاف ہرزہ سرائی کرنے والے لیکچرار کو تھپڑ رسید کردیا تھا، بات پرنسپل تک پہنچی تو وہ بولا ، قائداعظمؒ قوم کا باپ ہے ، تو میرا بھی باپ ہوا، کون سا بیٹا باپ کی گستاخی پر چپ رہے گا۔ بد قسمتی سے ہمارے ہاں وقفے وقفے سے قائداعظم کے حوالے سے ابال اٹھتا رہتا ہے، کبھی بحث کہ پاکستان کینٹ مشن پلان کی ناکامی کے نتیجے میں معرض وجود میں آیا، کبھی کھوٹے سکوں والی بات، کبھی ٹائپ رائٹر کی کہانی، کبھی ان کی جائے پیدائش کو ہی متنازع بنادیا جاتا ہے کہ کراچی میں نہیں، ضلع ٹھٹہ کے ایک دور افتادہ گاؤں جھرک میں پیدا ہوئے تھے اور آجکل زیر بحث مسئلہ یہ ہے کہ قائداعظم مولوی تھے یا مسڑ۔ کالم پہ کالم سیاہ ہورہے ہیں۔ ہر کوئی اپنی پسند کا قائد تراش رہا ہے ساری بحث تین چار نکات کے گرد گھوم رہی ہے جن کو سب نے اس قدر رگیرا ہے کہ دہرانے کی ہمت نہیں کرپا رہا قائد کی بدقسمتی یہ کہ انہوں نے ایک ناشکری قوم میں جنم لیا جسے ان کی عظمت کا ادراک ہی نہیں۔ زیادہ زحمت نہ کریں۔ صرف ’’ جناح آف پاکستان ‘‘ کے پیش لفظ کا پہلا جملہ پڑھ لیجئے۔ ان کے سوانح نگار اسٹینلے والپرٹ لکھتے ہیں:
Few individuals significantly alter the course of history, Fewer still modify the map of the world, Harldy anyone can be credilted with creating a nation- state,Mohammad Ali Jinnah did all three.
ترجمہ :( چند افراد نمایاں طور پر تاریخ کارخ موڑدیتے ہیں۔ دنیا کے نقشے کو تبدیل کرنے والے ان سے بھی کم ہوتے ہیں اور شاید ہی کوئی ایسا ہو جس نے نئی مملکت تخلیق کرنے کا کارنامہ انجام دیا ہو۔ محمد علی جناح نے یہ سب کردکھایا)
یعنی قائداعظمؒ دنیا کی واحد شخصیت ہیں۔ جنہوں نے ، تاریخ کارخ ہی نہیں موڑا، دنیا کے نقشے کو بھی تبدیل کیا اور نئی مملکت تخلیق کرنے کا انوکھا کارنامہ بھی کردکھایا۔ اور پھر قائد کے اس پاکستان نے ہمیں کیا کچھ نہیں دیا؟ جو حوالدار بھی نہ بن سکتے تھے، جرنیلی تک پہنچے، سینئر کلرکی کا خواب دیکھنے والے فیڈرل سیکریٹری بنے اور کندھے پر رکھ کر پارچات فروخت کرنے والے ٹیکسٹائل ملوں کے مالک ٹھہرے۔ یہ مملکت خداداد بے شک اس قوم پر قائد کابہت بڑا احسان ہے اور ہم ہیں کہ پچھتائے پھرتے ہیں کہ ان کا یہ احسان کیوں لیا۔ لہذا وہ سب کچھ کر گزرنے کے درپے ہیں جس سے پاکستان کو نقصان پہنچے۔ کبھی اس کے جغرافیہ پر ضرب لگاتے ہیں، تو کبھی نظریئے کے درپے ہوجاتے ہیں۔ ہم بھی عجب قوم ہیں، جس درخت پر بسیرا کرتے ہیں، اسی کی جڑ کاٹتے ہیں۔ قائد نے من، تن، دھن سب پاکستان پر قربان کردیا ، ہم نے انہیں کیا دیا؟ اور ان کا ہماری زندگیوں میں عمل دخل ہی کتنا ہے؟ وہ محض نوٹ پر ہیں یادیوار پر اور یار لوگ اس کے بھی درپے ہیں۔ ان مہربانوں کی خدمت میں درخواست ہے کہ قوم کے حال پر رحم کریں۔ نئی نسل کومایوس نہ کریں۔ خوش قسمتی سے قائداعظم پاکستان کے واحد شخصیت ہیں، جنہیں پاکستانی قوم اپنا محسن سمجھتی ہے۔ ان کی ذات میں کیڑے نکالنے والے ان کا نہیں، اپنا ہی نقصان کررہے ہیں۔
اس ملک کے اٹھارہ کروڑ میں سے پونے اٹھارہ کروڑ وہ ہیں، جن کے آباؤ اجداد نے قائد کی قیادت اور فراست پر آنکھیں بند کرکے صاد کیا تھا ۔ اور جو ان کی انگریزی تقریر پر بھی جذباتی ہوکر آنسو بہاتے ، کیونکہ انہیں یقین تھا کہ ان کا لیڈر جو کہہ اور کررہا ہے، وہ حق اور سچ ہے۔ قائداعظم اور پاکستان میں کیڑے نکالنے والے چند برس کیلئے ہندوستان جاکر آباد ہوجائیں تو ان کی آنکھیں کھل جائیں گی ۔ معروضی حالات کے حوالے سے ہمارے دانشوروں پر بھاری ذمہ داری عائد ہوتی ہے ازکار رفتہ تحقیق کی عیاشی چھوڑ کر وہ اس حقیقت کا ادراک کریں کہ ان کا وطن دہشت گردی کے عذاب، لیڈر شپ کے بحران، معاشی بدحالی، فرقہ واریت روزافزوں جہالت، ظالمانہ معاشی نظام، دم توڑتی قومی یکجہتی اور قومی شناخت جیسے گھمبیر مسائل سے دوچار ہے۔ ان سلگتے مسائل کا حل ڈھونڈیں۔ ورنہ یہ تو ہم جانتے ہی ہیں کہ جب ہلاکو خان بغداد پر قیامت بن کر ٹوٹا، تو وہاں کے دانشوروں کے محبوب مباحث کچھ اس قسم کے تھے کہ نبی آخرالزماںﷺ نور تھے یابشر، معراج جسمانی تھا یا روحانی، رفع یدین ثواب ہے یا بدعت، ٹخنے کہاں تک ننگے ہوں؟ وغیرہ وغیرہ، ہلاکو نے سب کو تہہ تیغ کیا اور کتابیں دریائے دجلہ میں پھنکوادیں۔ مقرب نے عرض کیا، کتابیں ضائع نہ کرو ۔ جواب ملا، اگر ان کا پراڈکٹ یہ لوگ ہیں توایسی کتب دریا برد کرنے کے ہی لائق ہیں۔ کہتے ہیں کہ علم کے ان خزینوں سے دجلہ کا پانی کئی روز تک سیاہ رہا۔ میرے ملک کے دانشورو ! خدا کا خوف کرو، ۔ للہ
للہ کنفیوژن پیدا نہ کریں اور دعا کریں کہ یہ وائرس محرومین(Home nots)تک نہ پہنچے اور کہیں وہ یہ کہنا شروع نہ کردیں کہ ’’ پاکستان نے ہمیں کیا دیا ۔ اس سے تو متحدہ ہند ہی بہتر تھا‘‘۔ کیونکہ ہمارے کرتوتوں کے سبب انکی مثال اس بیل سی ہے، جسے مالک نے گالی دی تھی کہ تمہیں چور لے جائیں اور بیل کاجواب تھا کہ اس سے کیا فرق پڑے گا۔ ہم نے توچارہ ہی کھانا ہے۔
ذاتی حوالے سے راقم تو قائدؒ کو مرشداور ولی سمجھتا ہے میں پہلے بھی کہیں لکھ چکا ہوں کہ اکتوبر1947 میں قائداعظم والٹن لاہور کے ریفیوجی کیمپ کے دورہ پر تشریف لائے، تو میری ماں استقبالی ہجوم میں شامل تھی۔ میں گود میں تھا ۔ قائداعظم پا س سے گزرے توانہوں نے میرے بائیں رخسار کوتھپتھپایا تھا۔ کوئی بیالیس برس بعد مجے اسی طرف لقویٰ ہوا تھا توڈاکٹر مشوش تھا کہ رخسار کمزور پڑجائیگا۔ مگر مجھے یقین تھا کہ ایسا نہیں ہوگا، کیونکہ اس رخسار کا محافظ قائد کا معجز نما لمس تھا اور وہی ہوا، الحمدللہ۔ میرا بایاں رخسار آج بھی دائیں سے زیادہ صحت مند ہے بعض اوقات زیادہ علم بھی انسان کو خوار کرتا ہے شاید اسی لئے بابا بلھے شاہ نے کہا تھا
اکو الف تیرے درکار
علموں بس کریں اویار
اور مرحوم اشفاق احمد بھی فرمایا کرتے تھے کہ اس ملک کو جاہلوں کی نسبت پڑھے لکھوں نے زیادہ نقصان پہنچایا ہے۔ ہاں اگر قائداعظم کے حوالے سے آپ واقعی کچھ کرنا چاہتے ہیں، تویہ آدھے پونے سچ جھوٹ کریدنے کی بجائے ان پر جامع اور ثقہ قسم کی تحقیق کا ڈول ڈالیں۔ حالیہ بحث میں درجن بھراہل قلم نے تو ضرور حصہ لیا ہے ۔ چبائے ہوئے لقموں کوچبانے، ایک ہی بات کی جگالی کرنے اور من پسند ’’تحقیق‘‘ کی بجائے ہمارا فرض بنتا ہے کہ پاکستان اور بانی پاکستان کے نام پر مل بیٹھیں اور قائد کی ایک ثقہ قسم کی سوانح لکھیں۔ ہر کوئی ایک ایک باب اپنے ذمے لے لے۔ کھلے دل ودماغ سے تحقیق کرے اور قوم کے سامنے قائد کے حقیقی خدوخال رکھے۔ چٹ پٹی اخباری تحریریں تلاطم تو پیدا کرتی ہیں، مگر محدود اور وقتی ہوتی ہیں۔ پوائنٹ اسکورنگ اور ایک دوسرے کونیچا دکھانے کی بجائے، آیئے کوئی تعمیری کام کریں۔
تازہ ترین