50سال قبل 7ستمبر1974ء کو پاکستان کی پارلیمنٹ نے آئین میں دوسری ترمیم کر کے قادیانیوں، احمدیوں اور لاہوری گروپ کو دائرہ اسلام سے خارج قرار دے دیا تھا۔ آئین کے آرٹیکل 260کی شق(3) کا اضافہ کیا گیا،جس میں وضاحت کی گئی کہ غیر مسلم کون ہے؟ آئین کا یہ آرٹیکل تعریفات سے متعلق ہے۔ نئی شق میں یہ بیان کیا گیا ہے کہ ’’کوئی ایسا شخص جو خاتم النبیین حضرت محمد مصطفی ﷺ کی ختم نبوت پر مکمل اور غیر مشروط ایمان نہ رکھتا ہو اور پیغمبر یا مذہبی مصلح کے طور پر کسی ایسے شخص پر ایمان رکھتا یا جانتا ہو جس نے حضرت محمد مصطفیٰﷺ کے بعد اس لفظ کے کسی بھی مفہوم یا کسی بھی تشریح کے لحاظ سے کسی اور کو تسلیم کیا ہو وہ آئین یا قانون کی روسے غیر مسلم ہو گا۔‘‘پچھلے 50سال کے دوران اس آئینی ترمیم کو غیر موثر بنانے یا اس کی تنسیخ کیلئے بار ہا کوششیں کی گئیں لیکن مسلمانان پاکستان کے مسلسل پہرہ دینے سے کوئی کوشش کامیاب نہ ہوئی۔ بد قسمتی سے اس دوسری آئینی ترمیم کے تحت کئے گئے فیصلے کو قادیانیوں، احمدیوں اور لاہوری گروپ نے تسلیم نہیں کیا اور اپنے آپ کو مسلمان کہلانے پر اصرار کیا جس کے باعث تاحال یہ تنازع ختم نہ ہو سکا۔ یہی وجہ ہے جب کبھی قادیانیوں کے بارے میں کسی قانون میں معمولی نوعیت کی نرمی کی جاتی ہے تو اس کے خلاف ایک تحریک جنم لیتی ہے۔ آج کی نسل کو بہت کم معلوم ہو گا کہ قادیانیوں کے خلاف 90سال سے تحریک چل رہی تھی جس میں ہزاروں افراد شہید ہوئے لیکن اس تحریک کو اس وقت مہمیز ملی جب نشتر میڈیکل کالج ملتان کے طلبہ کی شمالی علاقہ جات کی سیر سے واپسی پر ربوہ میں احمدیوں نے حملہ کر دیا انہیں تشدد کا نشانہ بنایا، اس واقعہ کے بعد ملک گیر تحریک نے جنم لیا جس کے نتیجے میں پاکستان کی پارلیمنٹ نے تحریک ختم نبوت کا قادیانیوں اور لاہوریوں کو غیر مسلم قرار دینے کا مطالبہ تسلیم کر لیا مجھے یاد ہے اگست کے اواخر میں قومی اسمبلی کی خصوصی کمیٹی (پوری قومی اسمبلی کو خصوصی کمیٹی کا درجہ دے دیا گیا) کے اجلاس میں قادیانیوں کے پیشوا مرزا ناصر کو طلب کیا گیا اور کم و بیش 13روز تک اس سے مسئلہ ختم نبوت پر اس کا موقف معلوم کرنے کیلئے سوالات و جوابات ہوئے جس کے بعد قومی اسمبلی نے متفقہ طور پر قادیانیوں کو مسلمانوں کی صفوں سے خارج کرنے کی آئینی ترمیم منظور کی۔ 1970کی اس قومی اسمبلی میں پاکستان کی قد آور شخصیات ذوالفقار علی بھٹو، مولانا شاہ احمد نورانی، مفتی محمود، سردار شوکت حیات، عبدالولی خان، پروفیسر غفور، میاں محمود قصوری، مولانا کوثر نیازی اور سید قائم علی شاہ رکن تھیں۔ بتایا جاتا ہے کہ ذوالفقار علی بھٹو اس آئینی ترمیم کی منظوری کے وقت خاصی سوچ بچار میں تھے۔ عاشق رسول ﷺ آغا شورش کاشمیری نے راولپنڈی میں ذوالفقار علی بھٹو سے ملاقات کر کے انہیں یہ ترمیم منظور کرنے پر آمادہ کیا انہوں نے دوسری ترمیم کی منظوری کے بعد اس پر دستخط ثبت کرتے ہوئے تاریخی جملہ کہا تھا کہ ’’میں اپنی موت کے پروانے پر دستخط کر رہا ہوں‘‘ پچھلے 50سال کے دوران اس آئینی ترمیم کو غیر موثر بنانے کیلئے ’’چھیڑ چھاڑ‘‘ کی جاتی رہی لیکن دینی و سیاسی حلقوں کی جانب سے شدید ردعمل کے باعث کسی حکومت کو اس ترمیم کو غیر موثر بنانے کی جرات نہیں ہوئی، بہر حال پارلیمان کے اندر اور باہر ہنگامہ خیز کیفیت رہی 50سال مکمل ہونے پر ’’گولڈن جوبلی‘‘ تقریبات منعقد ہوئیں سب سے بڑا اجتماع مینار پاکستان میں ہوا جس میں بیشتر جماعتوں کے نمائندوں نے شرکت کر کے اپنا حصہ ڈالا۔ جس سے یہ ظاہر ہوتا تھا کہ پوری امت مسلمہ بیدار ہے اور آئین کی دوسری ترمیم کی منظوری کے بعد اب یہ مسئلہ گروہی یا لسانی نہیں آئینی ہے، اب اس کی حفاظت کرنا بھی پارلیمان کی ذمہ داری ہے۔ البتہ اس ایشو کی آڑمیں کسی کوسیاست کرنے کا موقع نہیں ملنا چاہیے۔ نواز شریف دور میں انتخابی اصلاحات کی آڑ میں حلف کو اقرار میں تبدیل کرنے کی کوشش کی گئی تو حکومت کو اپنی غلطی تسلیم کرنا پڑی۔ اس کے بعد مبارک ثانی کیس میں سپریم کورٹ نے 6فروری اور26 جولائی 2024ء کے فیصلوں بارے علما کرام کی رائے کے مطابق تصحیح کر دی جس سے ملک میں اس کیس کے فیصلے سے پیدا ہونے والی خطرناک صورت حال ختم ہو گئی۔ لہٰذا سپریم کورٹ نے جہاں مسلمانان پاکستان کے جذبات کا احترام کیا ہے وہاں اس نے اپنی غلطی کا بھی اعتراف کر لیا۔ تحریک ختم نبوت 140سال سے چل رہی ہے 90سال بعد 1974ء میں اس وقت کی پارلیمان نے اس مسئلہ کو ہمیشہ کیلئے حل کر دیا۔ اس تحریک کے روح رواں مولانا عبدالستار نیازیؒ، سید ابوالاعلیٰ مودودی، سید عطا اللہ شاہ بخاریؒ، آغا شورش کاشمیری، مولانا تاج محمودؒ اور دیگر شخصیات تھیں جب کہ پچھلے 50سال سے اکابرین ملت اور پارلیمنٹرین اس آئینی ترمیم کی حفاظت کر رہے ہیں۔ قادیانیوں کو اقلیت قرار دئیے جانے کے بعد مسلمانان پاکستان کو کسی صورت قانون کو ہاتھ میں نہیں لینا چاہیے کیونکہ تشدد کے واقعات پر قادیانی پوری دنیا میں ہمدردی حاصل کرنے کی کوشش کرتے ہیں اور پورا مغرب ان کی حمایت میں کھڑا ہو جاتا ہے۔ 1956میں ملک محمد جعفر خان نے ’’احمدیہ تحریک‘‘ کے عنوان سے کتاب لکھی۔ حال ہی میں ممتاز مذہبی اسکالر عمر فاروق نے تحریک ختم نبوت کے عنوان سے کتاب لکھی ہے جس کی دو جلدیں شائع ہو چکی ہیں جبکہ تیسری جلد زیر طبع ہے اسی طر ح سینئر صحافی جمیل اطہر نے مسئلہ قادیانیت پر قلم اٹھایا ہے کتاب میں مختلف اسکالرز کے تحقیقاتی مقالہ جات بھی شامل ہیں، کتاب میں1953ء سے 1974ء تک تحاریک ختم نبوت کا جائزہ لیا گیا ہے اس دوران دستوری جدوجہد بھی بیان کی گئی ہے۔ ممتاز صحافی سعود ساحر مسئلہ قادیانیت پر دوسری آئینی ترمیم کے دوران ’’بند کمرے‘‘ میں ہونے والی کارروائی کو پہلی بار منظر عام پر لائے ہیں۔ اب قومی اسمبلی کی اس کارروائی کو پبلک کر دیا گیا ہے سینئر صحافی جبار مرزا کی بھی مسئلہ ختم نبوت پر کتاب زیرطبع ہے۔ 1984ء میں آپا نثار فاطمہ نے قادیانیوں کے بارے میں ایک قراداد پیش کی جسے متفقہ طور پر تسلیم کر لیا گیا بعد ازاں وفاقی شرعی عدالت نے اس قانون کی توثیق کر دی۔ حکومت کو چاہیے کہ نہ صرف اس قانون پر عمل درآمد کرائے بلکہ اس کی خلاف ورزی پر سخت کارروائی کر کے امن و امان کو یقینی بنائے اور کسی کو قادیانیت کے مسئلہ کی آڑ میں ملک کا امن و امان خراب نہ کرنے دے۔