• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

تحریر: نرجس ملک

ماڈل: سعدیہ تبسّم

ملبوسات: سعدیا ز وارڈروب

آرائش: ماہ روز بیوٹی پارلر

کوآرڈی نیشن: عمران ملک

عکّاسی: ایم۔ کاشف

لے آؤٹ: نوید رشید

عرب دنیا کی معروف شخصیت، خُوب صُورت رومانی شاعر، لکھاری، انٹلیکچوئل نزار توفیق قبانی کا ایک قول ہے۔ ’’مشرقی لوگوں کا عشق و محبت سے کوئی واسطہ نہیں، کیوں کہ وہ معشوقہ سے شادی نہیں کرتے اور بیویوں سے عشق نہیں کرتے۔‘‘ نزار قبانی کی محبّت کے موضوع پر101 نظموں کا منظوم ترجمہ مُنّو بھائی نے بعنوان ’’محبّت کی101 نظمیں‘‘ کیا اور یہ کتاب سنگِ میل پبلی کیشنز نے شائع کی، جب کہ ایک آن لائن جریدے نے بھی کچھ نظموں کا ترجمہ کیا۔ 

جیسے ؎ مجھے جب محبّت ہوتی ہے… تو لگتا ہے، مَیں وقت کا شہنشاہ بن گیا ہوں… زمیں اور جو کچھ بھی اِس میں ہے، میری ملکیت بن چکا ہے… اور مَیں گھوڑے پر سوار، سورج کی سیر کو نکل کھڑا ہوتا ہوں… مجھے جب محبّت ہوتی ہے… تو مَیں بہتی ہوئی روشنی میں ڈھل جاتا ہوں… کہ نظر جسے دیکھ نہ سکتی ہو… اور میری ڈائریوں میں لکھی نظمیں… ببول اور پوست کے کھیت بن جاتی ہیں… مجھے جب محبّت ہوتی ہے… پانی میری انگلیوں سے پھوٹ کر بہہ نکلتا ہے… گھاس میری زبان پراُگنے لگتی ہے… جب مَیں محبّت کرتا ہوں… مَیں اِس سبھی وقت سے باہر کا کوئی وقت بن جاتا ہوں۔ 

اور ایک اور نظم ہے ؎ اے میری چاہت… اگر تم پاگل پَن میں میرے برابر ہوتی… تو تم اپنے گہنے اُتار پھینکتی… اپنے تمام کنگن بیچ کر… میری آنکھوں میں آکر سو جاتی۔ اِسی طرح معروف روسی مصنّف، فلسفی، فیوڈور دوستو فسکی کا اپنی محبوبہ ماریا کے نام (جو بعدازاں اُس کی انتہائی وفا شعار اہلیہ کے درجے پر فائز ہوئی) ایک خط بہت مقبول ہے، جس میں اُس نے لکھا کہ ’’اُس گلی میں جہاں تم رہتی ہو، نو عورتیں تم سے زیادہ خُوب صُورت ہیں۔ 

سات عورتیں تم سے لمبی ہیں، دس تم سے چھوٹی ہیں۔ ایک عورت ایسی بھی ہے، جو مجھے، تم سے زیادہ چاہتی ہے۔کام پرایک عورت ہمیشہ مجھے مُسکرا کے دیکھتی ہے۔ ایک مجھے بات کرنے کےلیےاُکسانے کی کوشش کرتی ہے۔ ریستوران کی ویٹرس میری چائےمیں چینی کی بجائے شہد ڈالتی ہے، لیکن… مَیں، صرف تم سےمحبّت کرتا ہوں۔ دوستوفسکی کے ’’محبّت‘‘ ہی کے حوالے سے کچھ اقوال بھی مشہور ہیں۔ 

جیسے ’’محبّت کرنے کا مطلب، تکلیف اُٹھانا ہے، کیوں کہ تکلیف اُٹھائے بغیر کوئی محبّت ہو ہی نہیں سکتی۔‘‘، ’’جہنم کیا ہے؟ یہ دراصل محبّت نہ کرنے کی اذیت ہے۔‘‘، ’’عملی محبّت، خواب و خیال کی محبّت کےمقابلے میں کہیں زیادہ سخت اورتکلیف دہ چیزہے۔‘‘، ’’کسی سے محبّت کرنے کا مطلب اُس کی طرف اِس طرح دیکھنا ہے، جیسےاللہ، اپنے بندوں کی طرف دیکھتا ہے۔‘‘، ’’ایک گناہ گار بھی محبّت کےلائق ہو سکتا ہے۔ (نفرت گناہ سےہونی چاہیے، گناہ گارسےنہیں) بلکہ ایسی محبّت تو الہٰی محبّت کے مثل اور زمین پر گویا محبّت کی معراج ہے۔‘‘

یوں تو اِک ’’محبّت‘‘ پر اتنا کچھ کہا، سُنا، بولا، لکھا، حتیٰ کہ لکھ کے مٹایا بھی جا چُکا ہے کہ لگتا ہے، اب شاید ہی کوئی بات، کوئی نئی بات ہو، لیکن پھربھی غالباً اِس لفظ ’’محبّت‘‘ کی تاثیر ہی کچھ ایسی ہے کہ کسی جملے، مصرعے، قول، گیت، سنگیت یا لب ولہجے، طرزِعمل، آنکھوں ہی سے عیاں ہو، دل یک بارگی زور سے دھڑکتا، مچلتا ضرور ہے۔ 

ممکن ہے، اِس لیے کہ بقول جگر مُراد آبادی ؎ اِک لفظ محبّت کا ادنیٰ سا یہ فسانہ ہے… سِمٹے تو دلِ عاشق، پھیلے تو زمانہ ہے۔ مطلب، اس بَھری دنیا میں، کیا ہے، جو محبّت کا شاخسانہ نہیں۔ جینے، مرنے سے لے کر پہننے اوڑھنے، سجنے سنورنے تک سب ہی کچھ اِس محبّت ہی کا تو مرہونِ منّت ہے۔ اب یہی دیکھیے، محبّت نہ ہو، تو بھلا ایسی بزمِ رنگ و انداز سجانے کا کوئی تصوّر بھی ممکن ہے، تو لیجیے، ملاحظہ فرمایئے، اِسی چاہت و الفت، پیار و محبّت کی قوسِ قزح سے سجی ہماری آج کی محفل۔

اِسکن فٹڈ سفید اور بلیو جینز کے ساتھ اسٹائلش کُرتیاں ہیں۔ ایک برائون رنگ چیتا پرنٹ اسٹائل کُرتی ہے، جس کے باٹم اور سلیوز پر Smocking پیٹرن سے خُوب ندرت پیدا کی گئی ہے، تو سیاہ و سفید کے سدابہار امتزاج میں خُوب صُورت پھول دار کُرتی کا جلوہ ہے۔ 

سن فلاور پرنٹ سے مزیّن قدرے چست سی حسین کُرتی ہے، تو اسکرین پرنٹنگ سے آراستہ کُرتی کی جدّت و دل آویزی کے بھی کیا ہی کہنے اور جیومیٹریکل ڈیزائن سے آراستہ رنگارنگ کُرتی کی دل کشی تو گویا اپنی مثال آپ ہے۔ 

نزار کی فلاسفی کے مطابق معشوقہ سے شادی، بیوی سے عشق نہ بھی ہو یا دوستوفسکی کے تجربے کے مطابق محبوبہ ہی بہترین شریکِ حیات، رفیقِ سفر ٹھہرے (کہ جِسے بسترِ مرگ پہ اُس نے کہا، مَیں نے تمہیں کبھی یاد میں بھی دھوکا نہیں دیا) ہر دو صُورتوں میں عورت کا دل جیتنے کے لیے بہرحال اُس کی فطری و ازلی خواہش،’’بنائو سنگھار‘‘کی تکمیل تولازم ٹھہری، اوراُس کے لیے، ہماری کیژول سے ملبوسات سے مرصّع اِس بزم سے بھی استفادہ کیا جاسکتا ہے۔ وہ کیا ہے کہ ؎ خواب گر، خواب بناتا ہی چلا جاتا ہے… جس کو جو آئے سمجھ، اُس کو اُٹھا لاتا ہے… یہ تِرے سوچے ہوئے رنگ کا محتاج نہیں… حُسن تو حُسن ہے، ہر رنگ میں اتراتا ہے… دیکھنے والے محبّت کی نظر سے دیکھیں … مَیں وہ منظر ہوں، جسے حُسنِ نظربھاتا ہے… اے معلم کی طرح عشق پڑھانے والے… عشق لیکچر سے نہیں، کرکے سمجھ آتا ہے۔