تحریر: نرجس ملک
ماڈل : اقراء علی
ملبوسات: Sab Textiles by Farrukh
آرائش: ماہ روز بیوٹی پارلر
کوارڈی نیٹر: عمران ملک
عکّاسی : ایم ۔ کاشف
لے آؤٹ: نوید رشید
شیکسپیئر نے کہا تھا ناں کہ ’’جب کوئی آپ کا درد نہیں لے سکتا، تو کسی کو اپنی خوشیاں چھیننے کا حق بھی ہرگز نہ دیں۔‘‘ یوں بھی خوشیاں تو تتلیوں سی ہوتی ہیں، اُن کے پیچھے لپکیں، بھاگیں، تو ایک ڈال سے دوسری ڈال، دوسری سے تیسری تھکا ماریں گی اور جوں ہی آپ تھک ہار کے کسی سنگی بینچ پر جا بیٹھیں، یہ خود بخود آپ کے ارد گرد منڈلانے لگیں گی، کاندھے، گود میں آبیٹھیں گی۔ اور لڑکیوں بالیوں کی خوشیاں… وہ تو اتنی چھوٹی چھوٹی، معمولی معمولی باتوں پر خوش ہوجاتی ہیں کہ جن پر لڑکے بالے خوش ہونے کا تصوّر بھی نہیں کر سکتے۔
یک لخت موسم سہانا، عاشقانہ ہوجائے، کہیں سے کوئی اچھا شعر، غزل، جملہ، مدھر گیت، سُن لیں، کسی افسانے، ناول، ڈرامے کا اختتام اُن کے حسبِ منشا ہو۔ یک دَم بدلی چھا جائے، برکھا کے آثار ہوں، رِم جِھم بوندیں برسنے لگیں، کیاری میں کِھلے کسی گلاب، موتیے پہ نظر پڑجائے۔
اچانک کہیں سے کوئل کی کُوک، بانسری کی دُھن، ریل کی سیٹی سُنائی دے جائے۔ کوئی مَن پسند کھانا، اسنیکس، فیوریٹ آئس کریم مل جائے، کسی پرانی سَکھی سہیلی کا میسیج، کال آجائے۔ کوئی سُندر سپنا دیکھ لیں، ایک لمبی، پُرسکون نیند لے لیں، یوں ہی کسی پسندیدہ مقام کی سیر کا پروگرام بن جائے۔
کھیتوں میں سرسوں پُھولتی ہو، خزاں رُت میں پیروں تلےسوکھے پتّے کڑکڑاتے ہوں، پہاڑوں پہ برف گرتی، ٹنڈمنڈ شاخوں نے کُہرے کی چادر اوڑھی ہو۔ آسمان تاروں بَھرا ہو، چودہویں کے چاند کی چاندنی صحن میں اُترتی ہو، قوسِ قزح کی ست رنگی کمان نے رنگ بکھیرے ہوں۔ کسی معطّر باغ، باغیچے سے گزر ہو جائے، نیلگوں سمندر پہ بجرے تیرتے ہوں، طلوعِ آفتاب کا منظر ہو یا غروب آفتاب سمے شفق کی سُرخی بکھری ہو۔
ساحل سے سیپیاں چُنتے، لمبی، ہم وار سڑک پہ ہم راہی کے سنگ دُور تلک چلتے، ندی کنارے بیٹھ کے باتیں کرتے، انگیٹھی کے سامنے ہاتھ تاپتے، لحاف میں دبک کے مونگ پھلیاں، چلغوزے کھاتے، مَن آنگن میں جاگزیں کی یاد پہ بے وجہ مُسکراتے، کسی اچھوتے، الوہی احساس کی سرشاری سے بےاختیار ہی گنگناتے، صرف خوش ہی نہیں، بے تحاشا، بے مُحابا خوش ہو سکتی ہیں۔ اور… اگر خوش ہوں، تو پھر کیسے کیسے نہیں سجتی سنورتیں، اِتراتی، اِٹھلاتیں، کیا کیا رنگ و انداز نہیں اپناتیں، آرائش و زیبائش، سج دھج، سولہ سنگھار سب کو ’’لائن حاضر‘‘ کرلیتی ہیں۔
اور…اِن ہی پگلی، جھلّی، سُندر، کومل، الھڑ، چنچل، سوہنی، مَن موہنی سی کُڑیوں ہی کے لیےکامی شاہ نے کیا خُوب صُورت سی غزل لکھی تھی ؎ ویسے تم اچھی لڑکی ہو…لیکن میری کیا لگتی ہو…مَیں اپنے دل کی کہتا ہوں…تم اپنے دل کی سُنتی ہو…جھیلوں جیسی آنکھوں والی…تم بے حد گہری لگتی ہو…موجِ بدن میں رنگ ہیں اتنے…لگتا ہے رنگوں سے بنتی ہو…پھول ہوئے ہیں ایسے روشن…جیسے اُن میں تم ہنستی ہو…جنگل ہیں اور باغ ہیں مجھ میں…تم اُن سے ملتی جلتی ہو…یوں تو بشر زادی ہو لیکن…خوشبو جیسی کیوں لگتی ہو…اکثر سوچتا رہتا ہوں مَیں…خلوت میں تم کیا کرتی ہو…وہ قریہ آباد ہمیشہ…جس قریے میں تم رہتی ہو۔ اورہم بھی ہرہفتے اِن ہی چڑیوں سی چہکتی، کلیوں سی مہکتی اور ککڑی کی بیلوں سی تیزی سے اُٹھان بَھرتی، نازک اندام ناریوں کے لیے ہی ایک سے بڑھ کر ایک بزم سجا لاتے ہیں۔ جیسےکہ ہماری آج کی یہ محفل۔
ذرادیکھیے تو، گہرے نیلے کے شیڈ میں تِھری پیس پہناوا ہے، تو گہرے زرد پھول دار ڈریس کے ساتھ ٹائی اینڈ ڈائی کا حسین دوپٹا۔ پھر مسٹرڈ رنگ میں کاٹن کا ایمبرائڈرڈ اسٹرائپڈ ڈریس ہے، تو کاہی سبز اور بیج رنگوں میں تھری پیس پرنٹڈ پہناووں کی بہار ہے، جب کہ سفید و سیاہ کے سدا بہار امتزاج میں شیفون کے پرنٹڈ دوپٹے کی ہم آمیزی لیے، بہت نفیس و دل کش سے لباس کے تو کیا ہی کہنے۔
وہ کیا ہے کہ ہماری بھی بس اتنی سی ہی خواہش ہے کہ ’’بچیاں سدا خوش باش، شاد آباد رہیں‘‘ بقول فاضل جمیلی ؎ مجھے اداس کرگئے ہو، خوش رہو…مِرے مزاج پرگئے ہو، خوش رہو…مِرے لیے نہ رُک سکے، تو کیا ہوا…جہاں کہیں ٹھہر گئے ہو، خوش رہو…خوشی ہوئی ہے، آج تم کو دیکھ کر…بہت نکھرسنور گئے ہو، خوش رہو… اداس ہو کسی کی بے وفائی پر…وفا کہیں تو کر گئے ہو، خوش رہو…گلی میں اور لوگ بھی تھے آشنا…ہمیں سلام کر گئے ہو، خوش رہو۔