خوشحالی کے دس نکات میں سے پہلا نکتہ جھگڑوں کو چھوڑ نا اور ایک دوسرے کو معاف کرنا ہے۔ فتح مکہ کے وقت آپ ﷺ نے سب کو معاف کردیا تھا۔ اپنے دشمنوں کو معاف کردینا دل گردے کا کام ہوتا ہے۔ یہ وہی شخص کرسکتا ہے جو ملک وقوم کے ساتھ مخلص، وفادار اور خدمت کے جذبے سے سرشار ہو۔ گزشتہ حکمرانوں نے ملک کو تباہی کے دہانے اور قوم کو آخری سانس تک پہنچادیا تھا،لیکن قوم کو پوری اُمید ہے ہم اسی طرح کامیاب ہوں گے جس طرح دبئی کے زید سلطان النہیان ہوئے تھے۔ دبئی کا نام سن کر لوگوں کے ذہنوں میں ایک لق ودق صحرا کا تصور اُبھرتا تھا۔ پھر اس کی خوابیدہ قسمت نے انگڑائی لی اور اس کو ”زید بن سلطان النہیان“ جیسا رہبر مل گیا۔ انہوں نےکئی سالوں تک ہفتہ وار چھٹی بھی نہیں کی۔ ہر شعبے میں ایمان دار لوگوں کو بھرتی کیا۔ انصاف اور قانون کی بالادستی کو یقینی بنایا۔ اب وہاں آسمان کو چھوتی جگمگاتی عمارتیں ہیں۔ جس طرح سنگاپور کے لی کوآن ہوئے تھے۔ سنگاپور انیسویں صدی تک ایک ہولناک قسم کا جزیرہ تھا۔ لوگ یہاں جاتے ہوئے بھی ڈرتے تھے۔ 1965ءمیں سنگاپور کو ”لی کو آن یو“ کی شکل میں ایک ایسا رہنما مل گیا جس نے تیس سالوں میں ایک بنجر جزیرے کو دنیا کی بہترین ریاست بنادیا اور آج سنگاپور کو آئیڈیل سمجھا جاتا ہے۔ میاںشہباز شریف اسی طرح ملک وقوم کی خدمت کریں گے جس طرح ملائشیا کے مہاتیر محمد نے کی تھی۔ ملائیشیا ہر لحا ظ سے ایک تباہ حال ملک تھا۔ اس کی معیشت برباد ہوچکی تھی۔ پڑوسی ممالک ہر طرح کی مدد امداد سے ہاتھ اٹھاچکے تھے۔یہ وہ حالات تھے جن میں مہاتیر محمد میں ملائیشیا کا وزیراعظم بنا۔ عوام اسے بڑی امیدوں سے اقتدار میںلائے تھے۔ اس نے اپنا ایجنڈا مرتب کیا اور جان توڑ محنت اور ریاضت کو اپنا شعار بنالیا۔ وہ رات کو صرف چار گھنٹے سوتا تھا۔ اس نے ملک کے بہترین دماغ اپنے گرد اکھٹے کیے۔ خاکے بنائے، منصوبے ترتیب دیے۔اس نے معیشت کو فولادی بنیادیں فراہم کیں۔ معیارِ زندگی کو بڑے یورپی ممالک کے برابر لے ایا۔ آج ملائشیا کمپیوٹر، ٹیکنالوجی اور الیکٹرونکس میں ایک سوبیا لیس بلین ڈالر کی برآمدات کرتا ہے۔ فی کس آمدنی کئی سو گنا بڑھ چکی ہے۔ اس نے غربت کا ملک میں خاتمہ کر کے رکھ دیا۔ ملائیشیا دوسرے ملکوں کو امداد دینے کے قابل ہوگیا۔ اس نے ملک میں اسکولوں، کالجوں اور یونیورسٹیوں کا ایک جال بچھادیا۔ شرح تعلیم کو پچانوے فیصد سے بھی اوپر لے گیا۔ آج ملائیشیا دنیا کے امیرترین مسلمان ملکوں میں ایک ہے۔ جب مہاتیر نے اقتدار چھوڑا تو عوام نے اس کا راستہ روکنے کی بہت کو ششیں کیں، اس کا جواب تھا: ”میں نے ملک کے لیے جومنزل سامنے رکھی یہ اس سے بہت آگے نکل آیا ہے۔ نظام، ادارے، منتظم جمہوریت سب فراہم ہیں۔ اب ملائیشیا ایک بڑی معاشی قوت بن کر قائم رہے گا۔ یہ دنیا میں سرفراز رہے گا۔“ ہمیں توقع ہے میاں شہباز شریف اسی طرح ملک کو ترقی دیں گے جس طرح چین کے ”چواین لائی“ نے دی تھی۔ اگر چین کو ماؤزے تنگ جیسا انقلابی شخص اور چواین لائی جیسا زیرک رہنما نہ ملتا تو چین کبھی ترقی نہ کرتا۔ آج چین کی صنعت کاری نے امریکا ویورپ کی منڈیوں پر قبضہ کررکھا ہے اور شاید عنقریب وہ سپر پاور بھی بن جائے۔ اسی طرح ہانگ کانگ کی ساحلی زمین پر درختوں کی ٹنڈلی شاخوں اور مچھیروں کی کچھ آبادیوں کے سوا کچھ نہ تھا، مگر اب یہ دنیا کی مضبوط ترین مارکیٹوں میں سے ایک ہے۔ جنوبی کوریا جس کی راکٹ کی طرح اوپر اٹھتی ترقی کا آغاز مئی 1980ءمیں ہوا پہلے ایک بھک منگے ملک کی حیثیت سے جانا جاتا تھا۔ یہ پاکستان تک سے مدد امداد کا خواستگار ہوا کرتا تھا۔ یہ سب ترقیاں ایک بڑے لیڈر کے خواب محنت، ریاضت اور دیانتداری کی وجہ سے ہوئیں۔ یہ وقت اور بہترین آدمی کے سنگم کی پیداوار ہے۔ اس طرح بیسیوں قوموں اور متعدد ممالک کی مثالیں دی جاسکتی ہیں۔ بے شک ہماری قوم احسان فراموش نہیں، بلکہ جو شخص تبدیلی کا نعرہ لگاتا ہے اور جو تھوڑا سا بھی کام کرتا ہے پوری قوم اس کے پیچھے ہوتی ہے۔ پاکستان کو بے شمار خطرات اور چیلنج درپیش ہیں، ہم سمجھتے ہیں اگر ان دس نکات پر عمل کرلیا جائے تو ملک وقوم خوشحال ہوسکتے ہیں۔ (1)قرآن وسنت کا عملی نفاذ۔ (2)ملکی قوانین کی مکمل پاسداری۔ (3)امن وامان۔ (4)بم دھماکوں اورخود کش حملوں کا خاتمہ۔ (5)بیرونی مداخلت کا خاتمہ۔ (6)کرپشن، لوٹ مار کا خاتمہ۔ (7)داخلہ اور خارجہ پالیسیوں میں بیرونی مداخلت کا خاتمہ۔ (8)بلا امتیاز معیاری تعلیم۔ (9)عصبیت، لسانیت اور فرقہ واریت کا خاتمہ۔ (10)بجلی، گیس، پانی کی فراوانی اور انصاف سب کے لیے یکساں ہو۔