8فروری کو ہونے والے عام انتخابات میں الیکشن کمیشن نےپاکستان تحریک انصاف کوحصہ لینے کی اس لئےاجازت نہیں دی تھی کہ اس کے مطابق متذکرہ سیاسی جماعت آئین کے تحت انٹرا پارٹی انتخابات کرانے میں ناکام رہی۔ پی ٹی آئی کےا حمایت یافتہ امیدواروں نے آزاد حیثیت سے انتخابات میں حصہ لیا اور بعد میں ان کی جماعت نےسنی کونسل کے ساتھ پارلیمانی اتحاد کرلیا ۔جب خواتین اور اقلیتوں کی مخصوص نشستوں کی تقسیم کا مرحلہ آیا تو الیکشن کمیشن نے مقررہ ضابطے کے مطابق وہ نشستیں ،جن کا سنی اتحاد دعویدار تھا،دیگر جماعتوں میں تقسیم کردیں۔مخصوص نشستیں نہ ملنے پر سنی اتحاد نے پشاور ہائی کورٹ سے رجوع کیا۔14مارچ 2024ءکو پشاور ہائی کورٹ کے 5رکنی لارجر بنچ نے متفقہ طور پر سنی اتحاد کونسل کی مخصوص نشستیں نہ ملنے کے خلاف دائرشدہ درخواست مسترد کردی۔ 12جولائی کو چیف جسٹس آف پاکستان قاضی فائز عیسیٰ کی سربراہی میںسپریم کورٹ کے 13رکنی فل بنچ نے پشاورہائی کورٹ اور الیکشن کمیشن کا فیصلہ کالعدم ،اورپاکستان تحریک انصاف کو مخصوص نشستوں کا حقدار قرار دےدیا۔جس کے تحت آزادانہ طور پرمنتخب ہونے والے قومی اسمبلی کے39،پنجاب29،خیبرپختونخوا 58اور سندھ اسمبلی کے 6ارکان کوالیکشن کمیشن نے تحریک انصاف کے ارکان کی حیثیت دے کر سپریم کورٹ کے فیصلے پر عملدرآمد شروع کردیا۔2اگست کو قومی اسمبلی میں پیش کیے گئے الیکشن ایکٹ سے متعلق 2ترمیمی بل کثرت رائے سے منظور ہونے کے بعد 8اگست کو صدر مملکت کی توثیق کی صورت میں باقاعدہ ایکٹ بن گئے۔پہلی ترمیم کے مطابق کوئی رکن اسمبلی اپنا سیاسی جماعت سے وابستگی کا پارٹی سرٹیفکیٹ تبدیل نہیں کرسکتا۔دوسری ترمیم کی رو سے مخصوص نشستوں کے حصول کیلئے ضروری ہے کہ کسی جماعت کی طرف سے اس سے متعلق فہرست وقت پر جمع کرادی گئی ہو۔تازہ ترین میڈیا رپورٹ کے مطابق اسپیکر قومی اسمبلی سردار ایاز صادق نے جمعرات کے روز چیف الیکشن کمشنر سکندر سلطان راجا کو خط لکھ کرترمیم شدہ ایکٹ کے تحت مخصوص نشستوں کا معاملہ حل کرنے کا تقاضاکیاہے۔خط میں کہا گیا ہے کہ الیکشن ایکٹ میں ترمیم کے بعد سپریم کورٹ کے فیصلے پر عمل درآمد نہیں ہوسکتا۔مزید وضاحت کی گئی ہے کہ ترمیمی ایکٹ کے تحت کسی سیاسی جماعت میں شامل ہونے والا آزاد رکن پارٹی تبدیل نہیں کرسکتا۔ پنجاب اسمبلی کے اسپیکر ملک محمد احمد خان نے بھی الیکشن کمیشن کو خط میں مخصوص نشستوں کا فیصلہ کرنے کا مطالبہ کیا ہے۔اسپیکر قومی اسمبلی کے خط میں تحریر ہے کہ پارلیمانی نظام کی سالمیت اور آزادی برقرار رکھنا ، پارلیمنٹ کی قانون سازی کا احترام اورجمہوریت اور پارلیمانی بالادستی کے اصول برقراررکھنا الیکشن کمیشن کی ذمہ داری ہے۔ن لیگی ارکان اسمبلی نے الیکشن کمیشن کو دی گئی درخواست میں کہا ہے کہ جن امیدواروں نے انتخابات میں پارٹی وابستگی سرٹیفکیٹ جمع نہیں کرایا،انھیں آزاد ڈکلیئر کیا جائے۔دوسری جانب مخصوص نشستوں کےحوالے سے الیکشن کمیشن کا تیسرا اجلاس بھی بے نتیجہ رہا۔تجزیہ کاروں کا خیال ہے کہ اس کا چوتھا اجلاس حیران کن اقدامات پر منتج ہوسکتا ہے۔ یہ ایک ایسامعاملہ ہے جس میں پارلیمان، الیکشن کمیشن اور سپریم کورٹ جیسےمقتدر ادارے الجھے ہوئے ہیں ،جن کے لئے اپنی آئینی حیثیت کی پاسداری سب سےزیادہ اہم ہے،ان میں ٹکرائوکسی صورت ملک و قوم کے مفاد میں نہیں۔ فی الحقیقت یہ اقتدار کی جنگ ہے،زیادہ بہتر یہی ہوگا کہ سیاسی جماعتیں اپنے مسائل کی گتھی خودمل بیٹھ کرقانونی طریقے سےسلجھائیںتاکہ مقتدر اداروں پر حرف نہ آئے ،اس کیلئے سب سےموزوں مقام پارلیمان ہی ہے۔