اس دنیا کی سب سے خوفناک حقیقت یہ ہے کہ ایک دن یا تو ہم نے اپنے پیاروں کے سامنے مر جانا ہے یا ہمارے پیاروں نے ایک ایک کر کے ہماری آنکھوں کے سامنے مرنا ہے۔اس سے بڑی غمناک خبر کسی کے لیے اور کیا ہو سکتی ہے۔اس سنگینی میں شدید اضافہ کرنے والی شے یہ ہے کہ ایک ایک کر کے ہم اپنے عزیز و اقارب کے جنازے اٹھاتے رہتے ہیں۔ اس پسِ منظر میں نارمل شے تو یہ ہونا چاہئے تھی کہ لمحہ بہ لمحہ اپنی طرف بڑھتی اس موت کا خوف انسان پہ طاری رہتا۔ اپنے بچوں کا منہ چومتے ہوئے ان کی موت آنکھوں کے سامنے گھومنا چاہیے تھی۔ ہوتا اس کے برعکس ہے۔ بڑی بے خوفی کے ساتھ ہم جنازوں میں اپنے مستقبل کی منصوبہ بندی کرتے ہیں۔زمین خریدنی ہے، گھر تعمیر کرنا ہے، فیکٹری لگانی ہے۔ کیا یہ سب نارمل ہے؟
بیالیس ہزار عورتیں، بچے، بوڑھے اور مرد ہمارے سامنے غزہ میں شہید ہوئے۔ہمیں ان پہ ترس آتاہے لیکن کچھ نہیں آتا تو اپنی موت یاد نہیں آتی۔ چالیس برس تک کوس لمن الملک بجانے والا معمر قذافی سڑک پہ ہجوم کے ہاتھوں قتل ہوا۔ ذوالفقار علی بھٹو پھانسی چڑھا دیے گئے، جنرل ضیاء الحق کاطیارہ تباہ کر دیا گیا، بے نظیر سمیت، کتنی مثالیں ہمارے سامنے ہیں۔ کیا آج آپ اپنی لیڈر شپ کو دیکھیں تو کہیں سے آپ کو لگتا ہے کہ انہیں دنیا کی سب سے بڑی حقیقت، یعنی اپنی موت یاد ہے؟ بالکل نہیں۔اشرافیہ شوگر ملیں لگا کر بیٹھی ہے۔ خود ہی اپنے آپ کو سبسڈی دیتی ہے۔ خود ہی کسانوں سے ظالمانہ نرخوں پہ گنا خریدتی ہے۔آج اس ملک کا سب سے بڑا مسئلہ بجلی ہے۔ بجلی کیوں سستی نہیں ہو سکتی۔ اس لیے کہ آئی پی پیز اسی اشرافیہ کی ملکیت ہیں، جو آپ پر حکومت کر رہی ہے ۔ سیاستدانوں اور اشرافیہ کے بے شمار افراد بیماری اور بے بسی کے عالم میں آپ کے سامنے مرےہیں۔ وہ جو لاشیں گرا کر مُکے لہراتے تھے۔ ایک مرحوم سیاستدان نے کہا تھا: معلوم نہیں، میرے اکاؤنٹ میں کروڑوں روپے کون جمع کرا گیا۔ بعد ازاں وہ شدید بیماری میں برطانیہ میں فوت ہوئے ۔ اس کے باوجود ان کی اپنی سیاسی جماعت یا دوسری پارٹیز میں سے کسی نے عبرت حاصل کی؟ مئی میں جب دبئی لیکس سامنے آئیں تو معلوم ہوا کہ 17ہزار پاکستانی دبئی میں 23ہزار جائیدادوں کے مالک ہیں۔جیسے ہی انہیں محسوس ہوگا کہ پاکستان کے ڈوبتے ہوئے سفینے سے مزید کچھ حاصل نہیں کیا جا سکتا، شتابی سے وہ دبئی کا رخ کریں گے۔آج اسٹیبلشمنٹ اورسیاستدانوں کے درمیان ایک گھمسان کی جنگ جاری ہے۔ بات پھر وہی آجاتی ہے کہ ماضی کے طاقتوروں کی قبریں عبرت دلانے میں ناکام ہیں۔ اونچے شملے باندھ کر دیوانہ وار ایک دوسرے کو روند ڈالنے کی جنگ۔ قبروں میں دفن شملے عبرت دلانے میں ناکام ہیں۔
کل پاؤں ایک کاسہ ء سر پر جو آگیا
یکسر وہ استخوان شکستوں سے چور تھا
کہنے لگا کہ دیکھ کے چل راہ بے خبر
میں بھی کبھو کسو کا سرِ پر غرور تھا
سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ پے درپے اموات دیکھنے کے باوجود انسان روزمرہ زندگی میں اپنی موت کو یاد کیوں نہیں رکھتا۔مردے کو ہم ترحم آمیز نظروں سے دیکھتے ہیں لیکن کبھی یقین نہیں آتا کہ ہم نے بھی مرنا ہے
بلھے شاہ اساں مرنا ناہیں
گور پیا کوئی ہور
جنازوں میں ہم اپنے مستقبل کی منصوبہ بندی کیسے کر لیتے ہیں؟ ساری زندگی اپنی اور اپنے پیاروں کی اس موت کو کامیابی سے نظر انداز کیسے کر پاتے ہیں، جو لمحہ بہ لمحہ اپنے خوں آشام جبڑے کھولے ہماری طرف بڑھ رہی ہے۔ جواب: انسان کے دماغ پر اللّٰہ نے پردے ڈال رکھے ہیں۔طولِ امل یعنی خواہشات کی درازی۔ خوفناک شہوانی طاقتوں کے نشے میں سرشار انسان کا نفس اسے یقین دلا دیتا ہے کہ مرنا تو باقیوں کو ہے، اسے ہرگز نہیں مرنا۔ یہ خواہشات ہی وہ پردے ہیں، جن کی وجہ سے دور تک دیکھنے کی انسان کی صلاحیت ختم ہو جاتی ہے۔جب وہ شدید لالچ کا شکار ہوتاہے تو نارمل نہیں رہتا۔ ساری زندگی انسان دیوانہ وار شہوات کے پیچھے بھاگتا چلا جاتا ہے۔ جیسے ایک بچہ روشنیوں والے کھلونے کے پیچھے بھاگتا ہے۔ وہ بوڑھا ہوتا چلا جاتا ہے۔ اس کا جسم ختم ہو تا چلا جاتا ہے لیکن جب تک دماغ کام کر رہا ہے، دیوانہ وار وہ دولت اکھٹی کرتا چلا جاتاہے۔ ایک دن پھر موت کا فرشتہ لینے آتا اور یہ کہتاہے کہ چلو میرے ساتھ اور مال ساتھ لے جانے کی اجازت نہیں۔
قرآنِ مجید میں خدا کہتا ہے کہ اللّٰہ بندے اور اس کے دل کے درمیان حائل ہو جاتا ہے۔ خدا انسان اور اس کے دل کے درمیان حائل ہو جائے تو نظر کیسے آئے۔ یہ ایک دیوانگی ہے، جس میں انسان اپنے کمزور، گلتے سڑتے بدن اور موت کونظر انداز کر کے آخری سانس تک دیوانہ وار لڑتا رہتاہے۔