• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

گزشتہ اظہاریے میں ہندوستان پر برطانوی تسلط کی تاریخ کے بارے میں چند سوال اٹھائے تھے ۔ یہ اشارہ مقصود تھا کہ دونوں ملکوں میں تقسیم کے بعد پیدا ہونے والی نسلیں تاریخ کانامکمل اور گمراہ کن تصور رکھتی ہیں۔ اخباری کالم ایک مشکل صنف ہے ۔ لفظوں کی تعداد طے ہے اور حقائق سے انحراف کی وہ آزادی بھی میسر نہیں جو فکشن نگار کو حاصل ہوتی ہے۔ مذکورہ تحریر پر ایک مہربان نے اپنے مخصوص انداز میں کاٹ دار تبصرہ عنایت کیا ہے۔’ حضورِ والا جب بھی کوئی فوری مسئلہ درپیش ہوتا ہے آپ راہِ فرار اختیار کر کے ماضی کے جھروکوں میں فروکش ہو جاتے ہیں۔ عہدِ حاضر کے فرعونوں کی چیرہ دستیوں سے صرفِ نظر کر کے رجب علی بیگ سرور کی یاد تازہ کرتے ہوئے بس رسمی سی خانہ پری کا اہتمام ہی کرتے ہیں۔ دانشوری کا بھرم بھی قائم رہتا ہے اور ریکارڈ کا پیٹ بھی بھر جاتا ہے۔ رومانوی شاعری کیجئے حضور اس کار زار کو چھوڑئیے‘۔ محترم تبصرہ نگار سے ذاتی تعلق نہیں البتہ ان کی کاٹ دار کرم فرمائیاں پڑھتے ہوئے کچھ شناسائی ضرور ہو چلی ہے۔ اس تبصرے میں حضرت نے بہت سے نشتر رکھ چھوڑے ہیں۔ ’فوری مسئلہ ‘سے ان کی مراد یہ ہے کہ تحریک انصاف اور حکومت وقت میں جاری مجادلے میں سیاق و سباق کو نظرانداز کرتے ہوئے عمران خان کی حمایت کی جائے۔ تبصرہ نگار کچی عمر کے نوجوان نہیں، اچھے خاصے پختہ سال ہیں۔ باور نہیں ہوتا کہ انہیں علم نہ ہو کہ عمران خان کی سیاست تو پچھلی ایک دہائی کا خود کاشتہ پودا ہے جس کی آبیاری کرنے والوں کی تاریخ عشروں پر محیط ہے۔ یہ جھگڑا عمران خان کی مذعومہ دیانت، نودریافت کردہ جمہوریت پسندی اور مظلومیت کے واویلے کا بیان نہیں۔ یہ عوام کا حق حکمرانی غصب کرنے والوں اور جمہوری جدوجہد میں عمریں گنوانے والوں کا دائمی اختلاف ہے۔ عہد حاضر کے فرعونوں‘ کی اچھی کہی۔ ہمیں یاد نہیں پڑتا کہ پاکستان کی تاریخ میں وہ کون سی حکومت تھی جس میں ’فرعون‘ نامی مخلوق موجود نہ رہی ہو۔ آج کے ’فرعونوں‘ میں اچھی خاصی تعداد ان چہروں کی ہے جو اپریل 2022تک عمران خان کے ساتھی تھے۔ یہ چراغ بجھتے ہی خیمہ بدلنے والے لوگ ہیں۔ تاریخ کے مد و جزر سے چشم پوشی کرتے ہوئے انہیں نشانہ بنانا کم نگاہی ہے۔ خیال رہے کہ تاریخ کی ہر موج میں ’مد ‘ان فرعونوں ہی کا رہا ہے اور ’جزر ‘ خاک نشینوں کے حصے میں آیا۔ حضرت نے ’رجب علی بیگ سرور‘ کا حوالہ دے کر گویا درویش کی انشا پر طنز کیا ہے۔ درویش ولی دکنی سے لے کر رجب علی بیگ سرور تک ایسے ان گنت ترچھے وار سہہ چکا ہے۔ جرم یہ ہے کہ قلم اور زبان سے چالیس برس پر محیط نالہ و فریاد میں شیر افضل مروت اور علی امین گنڈا پور کی خوش بیانی سیکھنے سے قاصر رہا ہے۔ ہمارے ناقد نے ’دانشوری‘ کی تضحیک بھی کی ہے۔ غالباً ہمارے مہربان کو یاد نہیں کہ ایک پارسا آمر نے 1987ءمیں اہل قلم کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے دانشوروں کو سیم اور تھور قرار دیا تھا۔ جس کا جواب مرحوم وارث میر نے بستر مرگ پر لکھا تھا۔ ہم ایسے طالب علموں کو دانش کا دعویٰ تو ہرگز نہیں البتہ ’موقع پرست جہالت‘ کو سجدہ نہیں کرتے۔ ہمارے مہربان ناقد افتادگان خاک کی آہ و زاری کو ’رسمی خانہ پری ‘قرار دیتے ہیں۔ ممکن ہے ایسا ہی ہو لیکن سیاسی مکالمے کا بنیادی اصول یہ ہے کہ دوسروں کو دعوت مبارزت دینے کی بجائے اپنی توفیق کے مطابق ضمیر کا قرض ادا کیا جاتا ہے۔ ہمارے تلخ نوا مہربان نے’ رومانوی شاعری ‘کا مشورہ بھی دیا ہے۔ سوشل میڈیا پر مکالمے میں ایک اضافی دقت یہ ہے کہ عام طور پر بے چہرہ حریف سے واسطہ پڑتا ہے۔ اچھے وقتوں میں سیاسی بحث مباحثے میں مخاطب کا نظریاتی پس منظر اور ذاتی شناخت معلوم ہوتی تھی۔ سوشل میڈیا کے دھندلکے میں کچھ معلوم نہیں ہوتا کہ کس سے بات ہو رہی ہے۔ بیشتر مواقع پر صاحب مکالمہ کا اور چھور معلوم کرنا چاہیں تو سخت مایوسی ہوتی ہے کہ دوسروں کی دستار سے کھیلنے والوں میں اتنا حوصلہ بھی نہیں کہ اپنے بنیادی کوائف ہی بیان کر دیں۔ تعلیم، پیشہ، علاقائی شناخت اور سیاسی وابستگی تو ایک طرف، بیشتر میں اتنی ہمت تک نہیں کہ اپنا سن پیدائش ہی درج فرما دیں۔ کم از کم بات کہنے والے کے زمانی اور مکانی خدوخال ہی سے آشنائی ہو جائے۔ اب رومانوی شاعری کا مشورہ دینے والے مہربان کے بارے میں کیسے معلوم ہو کہ انہوں نے رومانوی شاعری میں کسے پڑھ رکھا ہے۔ کلاسیکی شاعری میں میر، مصحفی، غالب، میر انیس اور میر دبیر میں سے کس کا کلام حضرت کے رجحان طبع سے مناسبت رکھتا ہے۔ عالمی شاعری میں طویل نظم سے شغف رکھتے ہیں یا بیسویں صدی کے جدید علائم سے طبعی مناسبت رکھتے ہیں۔ یہ اظہاریہ تو گویا سوشل میڈیا کے ایک بے چہرہ محب کے تیر و تبر کا گلہ ٹھہرا۔ مناسب ہوگا کہ اس تلخ حکایت کو حقیقی رومانوی شاعری کی ایک مثال پر ختم کرتے ہیں۔ بینجمن مولائس (Benjamin Moloise) جنوبی افریقہ کا شاعر اور سیاسی کارکن تھا۔ 1955میں نسل پرست بندوبست حکومت میں پیدا ہوا۔ پیشے کے اعتبار سے ترکھان تھا مگر شعر کی زبان میں نسل پرستی کی مخالفت کرتا تھا۔ چنانچہ حکومت کی آنکھ میں کھٹکتا تھا۔ 27برس کی عمر میں بینجمن مولائس کو ایک پولیس افسر کے قتل کے الزام میں گرفتار کرکے سزائے موت سنائی گئی۔ دنیا بھر کی حکومتوں نے اس مشتبہ مقدمے میں بینجمن مولائس کو سزا دینے کی مخالفت کی لیکن جنوبی افریقہ کی نسل پرست حکومت نے اکتوبر 1985ءمیں تختہ دار پر چڑھا دیا۔ ادب کے مبتدی طالب علم رومان کو دو انسانوں کی جسمانی اور ذہنی رفاقت سے منسوب کرتے ہیں۔ حقیقی رومانوی شاعری زندگی کے پھیلے ہوئے منظر اور وجود کے گونا گوں زاویوں کا احاطہ کرتی ہے۔ بینجمن مولائس صحیح معنوں میں رومانوی شاعر تھا کیونکہ وہ ناانصافی، ظلم اور محرومی کو زندگی کی خوبصورتی میں بدلنا چاہتا تھا۔ جنگ کے انہی صفحات پر منو بھائی نے بینجمن مولائس کی موت پر تعزیتی کالم لکھا تھا جس میں وہ نظم بھی شامل تھی جو شاعر نے سزائے موت سے ایک روز قبل لکھی تھی۔ عنوان تھا ’میری ایک جان کی قربانی‘۔

A storm of oppression will be followed by the rain of my blood

I am proud to give my life, my solitary life.

تازہ ترین