• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

اس ہزارے کے ابتدائی سال تھے، تعلیمی مقاصد کے سلسلے میں ان دنوں ہمارا قیام برطانیہ میں تھا، ایک دن لندن میں ایک عزیز کے ہم راہ سیر کرتے ہوئے انکی گاڑی کی اسکرین پر نظر پڑی تو ’’ڈاکٹر‘‘ کا اسٹیکر چسپاں نظر آیا، ان سے اس بارے سوال کیا تو فرمانے لگے کہ اس سے گاڑی پارک کرنے میں آسانی رہتی ہے، یاد رہے کہ ان صاحب کی تعلیمی قابلیت (انکے بہ قول) ایف اے تھی۔ ان سے پوچھا گیا کہ اگر ایمرجنسی میں کسی ٹریفک حادثے کا کوئی مریض مدد لینے آجائے تو کیا کرینگے، وہ جواباً مسکراتے رہے، اس اسٹیکر سے ممکنہ قانونی مسائل کی طرف اشارہ کیا گیا، وہ صاحب بہ دستور مسکراتے رہے، ہم بھی ہنس پڑے اور ہنسی ہنسی میں انہیں مشورہ دیا کہ اگر کبھی کوئی مسئلہ ہو جائے تو کہہ دیجیے گا میں پی ایچ ڈی ڈاکٹر ہوں۔ بات آئی گئی ہو گئی۔

ایک سال بعد انکے گھر جانا ہوا تو مین گیٹ کیساتھ لگی انکے نام کی تختی میں ڈاکٹر کا اضافہ ہو چکا تھا۔ ہم نے جب انہیں اس برائلر ’ڈاکٹریٹ‘ کی مبارکباد دی تو انہوں نے کامل سنجیدگی سے اسے قبول کیا، اور پوچھنے پر بتایا کہ یہ ڈاکٹریٹ ڈگری انہوں نے آسٹریلیا کی ’’گیلیکسی یونیورسٹی‘‘ سے خط و کتابت کے ذریعے ’’جرنلزم‘‘ کے مضمون میں لی ہے۔ کچھ ہی دیر میں ہم نے نوٹ کیا کہ انکی گھر والی بھی انہیں ڈاکٹر صاحب کہہ کر مخاطب کر رہی تھی۔ بہرحال، ہم نے رخصت لیتے ہوئے انہیں ایک دفعہ پھر دلی مبارکباد دی اور مشورہ دیا کہ اب کچھ وقت نکال کر بی اے بھی کر لیں۔ وہ صاحب مسکراتے رہے۔ اتفاق ہے کہ پھر ان صاحب سے کبھی ملاقات نہ ہو سکی۔ جیسے سالک مقامات میں کھو جاتا ہے، ہم بھی تمہید میں بھٹک گئے۔ ہمارا آج کا موضوع ہے ’’مکمل انصاف‘‘ اور یہ اصطلاح ہم نے ایک عدالتی فیصلے میں پڑھی ہے۔ ہماری نظر سے کبھی کوئی ایسا سائل نہیں گزرا جسکا پاکستان کے عدالتی نظام سے واسطہ پڑا ہو اور وہ اس سے مطمئن ہو۔ سب ایک ہی شکایت کرتے ہیں کہ ’’عدالتوں سے انصاف نہیں ملتا‘‘۔ اور انصاف کیوں نہیں ملتا کی وجوہات میں بدعنوانی، نااہلیت، طاقتوروں اور انتہا پسندوں کا دبائو، نظام کے سُقم اور فیصلوں میں تاخیر وغیرہ شامل ہیں۔ زیرالتوا مقدمات کی تعداد میں روز افزوں اضافے کا تذکرہ بھی ہم سنتے رہتے ہیں اور جسٹس ڈی لیڈ از جسٹس ڈی نائڈ والا اصول بھی کان میں پڑتا رہتا ہے۔ مختصر سی بات ہے، اس ملک میں انصاف کا رونا ہے، انصاف نہیں ملتا۔ کیا ہی اچھا ہوتا اگر ہم مکمل انصاف سے پہلے انصاف پر توجہ دیتے، یعنی ڈاکٹریٹ سے پہلے بی اے کر لیتے۔

اپنے دائیں بائیں دیکھیں، کس کو انصاف ملا ہے؟ پچھلے دنوں سپریم کورٹ میں سالہا سال کے بعد آخر جاں بخشی کی ایک اپیل کی باری آ ہی گئی، کیس لگا تو معزز عدلیہ کو پتا چلا کہ ملزم کو تختہ دار پر جھولے زمانے ہو چکے۔ اور یاد رہے کہ یہ کوئی نرالا واقعہ نہیں ہے، ’’انصاف ‘‘ کے ایسے درجنوں قصے آئے دن سننے میں آتے ہی رہا کرتے ہیں۔ کارساز حادثے میں باپ بیٹی کو نشے میں کچل دینے والی نتاشا کا کیس ابھی کل کی بات ہے، کیا انصاف ہوا؟ خون بہا سے ہٹ کر، ریاست و عدالت کی طرف سے مجرم کیخلاف پانچ کیسز بنتے تھے، مگر انصاف دینے والے طاقتوروں کے آگے بھیگی بلی بن گئے۔ پچھلے ہفتے عمرکوٹ میں ڈاکٹر شاہ نواز کنبہار پر ’’توہین‘‘ کا الزام لگا، اس نے گرفتاری دیدی، اسے پولیس کسٹڈی میں قتل کر دیا گیا۔ ڈاکٹر شاہ نواز کی 14 سالہ بیٹی کی ایک وڈیو نظر سے گزری، وہ انصاف مانگ رہی تھی، کون دیگا اسے انصاف؟ اس ملک کی واماندہ اقلیتیں دہائیوں سے انصاف مانگ رہی ہیں، کون دیگا انہیں انصاف؟ ہزاروں لوگ جبری گم شدہ قرار پائے، انکی بیویاں، بہنیں، بیٹیاں برسوں سے انصاف مانگ رہی ہیں۔ یہ داستان طولانی ہے، دردناک ہے، اسے یہیں چھوڑے دیتے ہیں۔ اس ملک میں آج تک کبھی ڈھنگ کے انتخابات نہیں ہو سکے، مگر عدلیہ نے کبھی انصاف فراہم کرنے کیلئے بے تابی کا مظاہرہ نہیں کیا، ہماری تاریخ میں آدھا وقت تو پارلیمان کو جبری گمشدگی کا سامنا رہا، مگر عدلیہ کو انصاف کی نہ سوجھی، آئین کی کتاب کو آمروں نے بارہا ورق ورق کیا مگر عدالتوں نے انصاف کا دروازہ نہ کھولا، بلکہ ڈکٹیٹر کے استقبال کیلئے عقبی دروازہ کھول دیا۔ بات یہ ہے کہ جب بھی جمہوریت کیساتھ کوئی سابقہ لگایا جاتا ہے تو ہمارے کان کھڑے ہو جاتے ہیں، جیسے اسلامی جمہوریت، کنٹرولڈ جمہوریت، بنیادی جمہوریت وغیرہ وغیرہ۔ اسکا مطلب ہوتا ہے جمہوریت سے کوئی کھلواڑ ہونے جا رہی ہے۔ اسی طرح جب ’’انصاف‘‘ کیلئے ’’نظریۂ ضرورت‘‘ یا ’’مکمل انصاف‘‘ جیسی اصطلاح بنائی جاتی ہے تو ہم چوکنے ہو جاتے ہیں۔ ان اصطلاحات کا معنیٰ یہ ہوتا ہے کہ عدالت آئین و قانون کے دائرے سے رخصت چاہتی ہے۔ ویسے ’’مکمل انصاف‘‘ بارے بھارتی قانون دانوں کی رائے کا ست بھی سُن لیں۔ مکمل انصاف سے مراد ہے کہ جب عدالت ’’انصاف‘‘ کے تعاقب میں آئین و قانون کے راستے سے آگے ’’نیچرل جسٹس‘‘ کی پگڈنڈی پر اتر جائے اور خود قانون سازی کا بیڑا اٹھا لے۔ بہرحال، عمران خان غالباً وہ پہلے خوش قسمت پاکستانی ہوں گے جنہیں اسی دنیا میں ’’مکمل انصاف‘‘ مل جائے گا۔

تازہ ترین