• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
پاکستان میں اس وقت 80فیصد بیماریاں آلودہ پانی کے استعمال کی وجہ سے غریب پاکستانیوں کو لگ چکی ہیں کیونکہ آلودہ پانی تو بے چارے بے کس اور بے بس غریب پاکستانیوں کی قسمت میں حکمرانوں، اشرافیہ اور پالیسی سازوں کی ناقص پالیسیوں اور غلط اندازوں کی وجہ سے لکھا جا چکا ہے لاہور گزٹیئر 84-1883ء میں درج ہے کہ 1881ء تک لاہور کے شہری پینے کے لئے صرف کنوئوں کا پانی استعمال کرتے تھے۔ جون 1881ء میں انگریز ’’بہادر‘‘ نے شہریوں کو صاف پانی مہیا کرنے کے لئے واٹر ورکس کا افتتاح کیا۔ پینے کا یہ صاف اور کثافتوں سے پاک پانی قلعے کے نیچے اور پنجاب ناردرن سٹیٹ ریلوے لائن کے قریب کھودے گئے چھ کنووئوں کے پانی کو آپس میں ملا کر دو انجنوں کی مدد سے دس گیلن فی کس یومیہ کے حساب سے شہریوں کو مہیا کیا جاتا تھا۔ اب تو لاہور کے کنوئیں بھی خشک ہوگئے ہیں۔ ایک دور تھا کہ لاہور میڈیکل کالج (اب ایڈورڈ میڈیکل یونیورسٹی) کے پرنسپل کے ذمے لاہور کے پانی یعنی دریا، ہزاروں کنوئووں کے پانی کا تجزیہ کرنا ہوتا تھا۔ اس دور کے ایک پرنسپل ڈاکٹر ہیٹن برائون نے لکھا ’’کہ لاہور کی نہر کا پانی قدرتی پانی کے مقابلے میں زیادہ خالص ہے اور راوی کے پانی میں نمکیات کلورائیڈ، سوڈیم، پوٹاشیم، لائم، سوڈے، لائم کے سلفیٹ اور میگنیشیا کے کاربونیٹ شامل ہیں جو آبپاشی اور فصلوں کے لئے نہایت مفید ہیں۔ سرگنگا رام نے 1875ء میں لاہور میں نکاس آب کے لئے نالیاں بچھائیں تھیں۔
آج لاہور کی نہر میں بے شمار مقامات پر فیکٹریوںاور گھروں کا گندا پانی ڈال دیا ہے۔ راوی گندا نالہ بن چکا ہے۔ ہم نے 67 برسوں میں اس شہر کے پانی کے ساتھ یہ سلوک کیا جس کے بارے میں یہ کہاگیا کہ ہندوستان کے تمام شہریوں کے مقابلے میں جگر، پیچش اور اسہال کی بیماریاں سب سے کم لاہور میں ہیں۔ آج لاہور کے ہسپتال پانی کی وجہ سے چھوٹے، بڑھے ہر عمر کے افراد سے بھرے پڑے ہیں۔ پیٹ کی بیماریاں عام ہو چکی ہیں یہ تو بھلا ہو پنجاب کے گورنر چودھری محمد سرور کا جنہوں نے پورے صوبے میں پینے کے لئے صاف پانی مہیا کرنے کے لئے سکولوں اور مختلف مقامات پر واٹر فلٹریشن پلانٹس اور صاف پانی مہیا کرنے کے لئے کئی منصوبوں کا افتتاح کردیا اور اس بات کا عہد کیا کہ وہ پورے صوبے میں صاف پانی مہیا کرنے کے لئے اپنی تمام کوششوں کو بروئے کار لائیں گے۔ خدا کرے باقی صوبوں کے گورنرز بھی ایسا کریں دوسری طرف عالمی ادارہ صحت کے مطابق پاکستان میں پانی کی کمی خطرے کے نشان تک پہنچ چکی ہے جس کی وجہ سے چاروں صوبوں کے دریائوں کے پانی میںخطرناک بیماریاں، جراثیم اور وائرس آچکے ہیں۔ مگر ہمارے حکمرانوں کو کیا لگے اس ملک پر تو ایک ایسا حکمران بھی رہا ہے جو فرانس کا پانی پیا کرتاتھا۔ مگر اس نے اور اس کی حکومت نے کبھی یہ سوچا کہ غریب پاکستانی تو فرانس کا منرل واٹر نہیں پی سکتے، کم از کم ان کے لئے ملک میں موجود پانی کو ہی پینے کے لئے بہتر کرلیا جائے۔
عالمی ادارہ صحت کے ایک سروے کے مطابق پاکستان کے کئی علاقوں میں موجود پانی میں سات خطرناک بیماریاں پائی جاتی ہیں۔ مثلاً پنجاب کے شہر لاہور میں واقع دریائے راوی، کے پی کے دریائے کابل، سندھ کے دریا جامشورو اور کوئٹہ کے دریا کرم میں پولیو، ہیپاٹائٹس، ہیضہ اور جلدی امرا ض کے جراثیم اور وائرس موجود ہیں۔ حکومت پولیو کو ختم کرنے کے لئے ایڑی چوٹی کا زور لگا رہی ہےجبکہ پنجاب کے دریائوں میں نو فیصد، بلوچستان کے دریائوں میں دس فیصد، سندھ کے دریائوں میں گیارہ فیصد اور کے پی کے کے دریائوں میں 26 فیصد پولیو کے وائرس پائے جاتے ہیں۔
ماہرین کا کہنا ہے کہ 2025ء تک3 ارب افراد پانی کی کمی کا شکار ہو جائیں گے جن میں ایشیا اور افریقہ کے لوگوں کی تعداد سب سے زیادہ ہوگی۔ آج دنیا کی آبادی 7 ارب سے زیادہ ہے جو 2050ء میں9 ارب ہو جائے گی اور یقیناً پاکستان کی آبادی بھی چار گنا بڑھ چکی ہوگی۔ کیا ہم نے آنے والے حالات کے لئے کوئی منصوبہ بندی کی ہے۔ اب آپ کو ہم یہ بتاتے ہیں کہ گورے ’’بہادر‘‘ نے 1829ء میں لندن میں پہلا واٹر ٹریٹمنٹ پلانٹ لگا دیا تھا، 1854ء میں ولایت میں ہزاروں افراد ہیضے سے مر گئے تو انہوں نے پانی کی آلودگی پر توجہ دینا شروع کر دی، پھر یورپ اور امریکہ میں پانی کو آلودگی سے بچانے کے لئے کئی پلانٹ لگ گئے۔ 1907ء میں ہندوستان میں 3لاکھ 95ہزار افراد ہیضے سے مر گئے تھے، میڈیکل ریسرچ کے مطابق ویپرو ایک ایسا خطرناک بیکٹریا ہے جو پانی کے ذریعے جسم میں داخل ہو کر نظام انہضام کو تباہ کر دیا ہے، دنیا میں پہلا منرل واٹر 1794ء میں جنیوا کے ایک سنار جیکب شویب نے اپنے دوستوں میں متعارف کرایا تھا اور آج منرل واٹر دنیا بھر میں ضرورت بن گیا ہے، یہ کہا جاتا ہے کہ مغل دور حکومت میں حکمران اور ہندوستان کے دوسرے علاقوں کے شہری لاہور کی آب و ہوا کی وجہ سے یہاں آیا کرتے تھے اور یہ کہا جاتا تھا کہ لاہور کا پانی صحت کے لئے مفید ہے، آج لاہور کا پانی صحت کے لئے مضر بن چکا ہے، لاہور کیا پورے ملک میں قائم پانی کی ٹینکیوں کی کبھی صفائی نہیں ہوئی، صرف ایک ڈی ایچ اے لاہور ہے جہاں پر باقاعدہ پانی کی ٹینکیاں جب صاف کی جاتی ہیں ان کی باقاعدہ تاریخ درج کی جاتی ہے اور آئندہ صفائی کی بھی تاریخ درج کی جاتی ہے، واسا اور کراچی میں پانی کے محکمہ لوگوں سے بھاری بھاری بل تو وصول کرتا ہے، مگر شہریوں کو صاف پانی مہیا نہیں کرتا، دوسری جانب کراچی میں واٹر ٹینکر مافیا قبضہ کر رکھا ہے، کراچی میں پانی کا کاروبار عروج پر ہے اور اس میں کئی اہم افراد ملوث ہیں، جن پر حکومت ہاتھ نہیں ڈال سکتی، سپریم کورٹ نے تو 1994ء میں ایک مقدمے میں آئین کے آرٹیکل نمبر 9میں انسانی زندگی کے حوالے سے لکھا ہے کہ
’’کوئی شخص خواہ کہیں بھی رہتا ہو غیر آلودہ پانی حاصل کرنے کا حق ریاست کے ہر شہری کو حاصل ہے‘‘
کتنی دلچسپ بات ہے کہ ہر سیاسی جماعت لوگوں کو روٹی، کپڑا اور مکان کی بات تو کرتی ہے لیکن عوام کو پینے کے لئے صاف اور غیر آلودہ پانی مہیا کرنے کی بات نہیں کرتی، پاکستان کے آئین میں بھی کوئی اس بارے میں ذکر نہیں ملتا۔ ملک کے کئی شہروں کے پانی میں سنکھیا (آرسنیک) عالمی ادارہ صحت کے مقررہ کردہ معیار سے زیادہ ہے لیکن کبھی پاکستان کے ان شہروں سے منتخب ہونے و الے ایم پی اے اور ایم این اے حضرات نے اس طرف توجہ دی، کبھی ان معزز ممبران اسمبلی اور وہاں کے محکمہ صحت، ڈی سی، ڈی سی اوز اور پانی مہیا کرنے والے اداروں نے اس طرف توجہ دی، کبھی ہم نے اور آپ نے حکومت کی جانب سے ایسی کوئی رپورٹ پڑھی یا ٹی وی پر ہر وقت سیاسی بحث کرانے والے اینکر پرسن صاحبان نے عوام کی صحت اور پانی پر دھواں دھار مذاکرے کرائے، اصل میں غریب عوام کو صاف پانی مہیا کرنا یہ نہ تو میڈیا کی ترجیحات میں اور نہ حکومت کی ترجیحات میں شامل ہے۔ اپنے ایک لیڈر کے لئے یہ نعرہ لگانے والے ’’کل بھی زندہ تھا اور آج بھی زندہ ہے‘‘ نے کبھی سوچا کہ عوام تو بے چارے روٹی کپڑا، مکان اور اب پانی کے ہاتھوں زندگی گنوا رہے ہیں۔ زندہ کون ہے؟
تازہ ترین