• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

27 فروری1973ء کو قومی اسمبلی کے ایوان میں (اس وقت اسٹیٹ بینک بلڈنگ میں قومی اسمبلی کا اجلاس منعقد ہوتا تھا) 1973ء کے آئین کےمسودہ پر پر بحث جاری تھی کونسل مسلم لیگ (جو اس وقت حقیقی معنوں میں قائد اعظم کی مسلم لیگ کی وارث تھی) کے سرکردہ رہنما چوہدری ظہور الٰہی دھواں دھار تقریر کر رہے تھے ان کا ساڑھے چار گھنٹے کا مسلسل خطاب یادگار تقریر تھی قومی اسمبلی میں حاجی سیف اللہ کے مسلسل 22گھنٹے اور چوہدری نثار علی خان کے 4دن خطاب کو بڑی شہرت حاصل ہے لیکن چوہدری ظہور الٰہی کی تقریر نے ذوالفقار علی بھٹو اور ان کے درمیان دشمنی کی شکل اختیار کر لی۔ چوہدری ظہور الٰہی اور انکے خاندان کے خلاف 137مقدمات درج کرا دئیے گئے جن میں بھینسیں چوری کا ایک مقدمہ بھی شامل تھا۔ چوہدری ظہور الٰہی کی زندگی قید و بند سے عبارت ہے انہیں ڈیفنس آف پاکستان رولز مجریہ 1971کی دفعہ 32(1) کے تحت گرفتار کر کے ’’کولہو‘‘ جیل بھیج دیا گیا جہاں بلوچ لیڈر اکبر بگٹی نے نہ صرف ان کی حفاظت کی بلکہ انہیں قتل کرنے کی سازش کا حصہ بننے سے انکار کر دیا۔ یہی وجہ ہے کہ جب جنرل پرویز مشرف نے نواب اکبر بگٹی کے خلاف آرمی ایکشن شروع کیا تو چوہدری شجاعت حسین نے آرمی ایکشن کو ٹالنے کی ہر ممکن کوشش کی۔ پارلیمان میں بھٹو حکومت کی اپوزیشن گنتی کے ارکان پر مشتمل تھی لیکن اس اپوزیشن میں خان عبدالولی خان، چوہدری ظہور الٰہی، مفتی محمود، پروفیسر غفور احمد اور احمد رضا قصوری جیسی قد آور شخصیات شامل تھیں جبکہ پارلیمان سے باہر پیر صاحب پگارا اور نوابزادہ نصر اللہ بھٹو حکومت کے خلاف سرگرم عمل تھے، چھوٹی سی اپوزیشن ذوالفقار علی بھٹو کی جان کو آئی ہوئی تھی ذوالفقار بھٹو تھے تو جمہوریت کی پیداوار لیکن وہ حکمرانی ایک آمر کی طرح کرنا چاہتے تھے اسلئے انہوں نے اپنے بنائے ہوئے متفقہ آئین میں یک طرفہ ترامیم کر کے اس کا حلیہ بگاڑ دیا۔ 10نومبر 1975کی بات ہے ذوالفقار علی بھٹو نے عدلیہ کو بے اختیار بنانے کیلئے پیشگی نوٹس دئیے بغیر پارلیمان میں چوتھی آئینی ترمیم پیش کر دی جسے روکنے کیلئے اپوزیشن دیوار بن گئی آئینی ترمیم منظور کرانے کیلئے سپیکر فضل الٰہی نے چوہدری ظہور الٰہی سمیت اپوزیشن کے دیگر ارکان کو ایف ایس ایف کے ملازمین سے اٹھوا کر ایوان سے باہر پھینکوا دیا۔ حال ہی میں آئین میں 26ویں آئینی ترمیم عجلت میں منظور کرانے کا منصوبہ بنا تو مفتی محمود کا سیاسی جانشین مولانا فضل الرحمن اس کی راہ میں حائل ہو گیا تو حکومت کو اتفاق رائے پیدا کرنے کیلئے آئینی ترمیم کو موخر کرنا پڑا۔ چوہدری ظہور الٰہی ایک سیلف میڈ شخص تھے۔ 1950ء میں میدان سیاست میں قدم رکھا تو پورے ملک کی سیاست پر چھا گئے انہوں نے اپنے پیچھے جو ’’سیاسی ورثہ‘‘ چھوڑا، آج ان کی اولاد اس کا پھل تو کھا رہی ہے لیکن باہمی ناچاقی کی وجہ سے ملکی سیاست میں غیر موثر ہو کر رہ گئی ہے، اس کی بنیادی وجہ چوہدری شجاعت حسین اور چوہدری پرویز الٰہی کے درمیان ناراضی ہے، چوہدری شجاعت حسین نواز شریف کے ساتھ چلے گئے جبکہ چوہدری پرویز الٰہی نے نہ صرف عمران خان کی محبت میں چوہدری شجاعت سے سے اپنے سیاسی راستے الگ کر لئے بلکہ مسلم لیگ (ق) کا اپنا ھڑا ہی پی ٹی آئی میں ضم کر دیا۔

25ستمبر1981ء برصغیر پاک و ہند کے نامور صحافی و خطیب آغا شورش کاشمیری ؒ کی صاحبزادی صوفیہ شورش مرحومہ کی شادی کی تقریب میں شرکت کیلئے لاہور میں تھا۔ جب ہم شادی کی تقریب میں پہنچے تو چوہدری ظہور الٰہی کی شہادت کی خبر ملی اگلے روز چوہدری ظہور الٰہی کا ایک جنازہ ناصر باغ (لاہور) جب کہ دوسرا گجرات میں ہوا ، میں نے ناصر باغ میں جنازے میں شرکت کی میرا چوہدری ظہور الٰہی سے زمانہ طالب علمی سے تعلق تھا صحافت کی وادی میں قدم رکھا تو یہ تعلق آج تیسری نسل سے قائم ہے۔ 99ویسٹریج راولپنڈی میں چوہدری ظہور الٰہی کی رہائش گاہ تھی اس رہائش گاہ میں پاکستا ن کی اپوزیشن کے بڑے بڑے اتحادوں نے جنم لیا۔ اسے ’’اپوزیشن ہائوس‘‘ کہا جاتا ہے فروری 1973ء کے اواخر میں اسی گھر میں یونائیٹڈ ڈیمو کریٹک فرنٹ (یو ڈی ایف) نے جنم لیا، اسی رہائش گاہ پر خان عبد الولی خان، خیر بخش مری، میر عطا اللہ مینگل، پیر صاحب پگارا، میاں طفیل محمد، ملک قاسم جیسی قد آور شخصیات اکھٹی ہوتی تھیں۔ گزشتہ ہفتہ چوہدری شجاعت حسین سے ایف 8 َ؍3اسلام آباد میں ملاقات ہوئی جہاں چوہدری شجاعت حسین اور چوہدری پرویز الٰہی کی سیاسی بیٹھکوں کی وجہ سے رونقیں ہوتی تھیں لیکن دونوں کے سیاسی راستے الگ ہونے پر اجڑ گئیں۔ چوہدری شجاعت حسین نے بتایا کہ لاہور میں اپنی رہائش گاہ میں ’’چوہدری ظہور الٰہی روم‘‘ بنا دیا ہے جس میں چوہدری ظہور الٰہی کے استعمال کی اشیاء کو محفوظ کر دیا گیا ہے وہ گاڑی بھی محفوظ ہے جسے دہشت گردوں نے گولیوں سے چھلنی کر کے چوہدری ظہور الٰہی کو شہید کر دیا تھا مجھے یاد ہے محترمہ بے نظیر بھٹو ’’سیاسی دشمنی‘‘ ختم کرنے کیلئے ظہور پیلس گجرات آنا چاہتی تھیں جہاں چوہدری شجاعت حسین نے ان کے سر پر چادر اوڑھنی تھی لیکن چوہدری ظہور الٰہی کی صاحبزادیاں ’’سیاسی صلح‘‘ کی راہ میں حائل ہو گئیں اور محترمہ بے نظیر بھٹو کے ظہور پیلس میں استقبال کی تقریب منسوخ کر دی گئی۔ پاکستان کی سیاسی تاریخ میں ذوالفقار علی بھٹو مقبول ترین سیاسی رہنما تھے لیکن انکی سب سے بڑی کمزوری اپنے سیاسی مخالفین کو برداشت نہ کرنا تھی جس کے باعث وہ تختہ دار تک جا پہنچے۔ چوہدریوں نے اپنے باپ کے قاتلوں کو معاف کر دیا ’’نواز شریف دشمنی‘‘ میں پیپلز پارٹی کی حکومت کا حصہ بن گئے مسلم لیگ (ق) کو ’’قاتل لیگ‘‘ کا طعنہ دینے والی پیپلز پارٹی نے بھی سیاسی ضرورتوں کے تحت چوہدری برادران کو اپنے سینے سے لگا لیا۔

تازہ ترین