• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

’’متوازی سنیما‘‘ کی وضاحت سے پہلے اس بات کا اعتراف یا اِدراک ضروری ہے کہ کسی بھی اصطلاح کی محدود تعریف پیش کرنا آسان کام نہیں ہوتا۔ عموماً لوگ مختلف اصطلاحات کی اپنی اپنی ترجیحات کے مطابق تعریف کرتے ہیں ، لیکن کسی ایک تعریف پر سب کا متّفق ہونا ضروری نہیں ہوتا۔ 

اسی طرح متوازی سنیما سے متعلق بعض افراد کا خیال ہے کہ یہ دراصل 1960ء میں آنے والی سنیما کی ’’نئی لہر‘‘ ہی کا دوسرا نام ہے، جب کہ بعض افراد کا ماننا ہے کہ 1970ء کے عشرے میں بھارت میں بننے والی آرٹ موویز متوازی سنیما ہیں۔ بہرکیف، اس ضمن میں کوئی حتمی فیصلہ کرنے سے پہلے اس بات کا جائزہ لیتے ہیں کہ اگر کوئی چیز یا لکیر متوازی ہو، تو اس کے متوازی دوسری چیز یا لکیر کون سی ہے۔ یعنی اگر متوازی سنیما ہے، تو اس کے بالمقابل دوسرا سنیما کون سا ہے۔

متوازی سنیما کے بالمقابل سنیما کو ’’پاپولرسنیما‘‘ یا ’’کمرشل سنیما‘‘ کہہ سکتے ہیں کہ جس کا مقصد منافع کمانا اور عوام میں مقبولیت حاصل کرنا ہوتا ہے۔ اگر ہم اس پاپولر یا کمرشل سنیما کی کچھ خصوصیات جان لیں، تو ہمیں متوازی سنیما کو سمجھنے میں آسانی ہو سکتی ہے۔ پاپولر سنیما یا موویز کا بنیادی مقصد پیسا کمانا ہوتا ہے۔ 

چُوں کہ عام افراد تفریح پسند کرتے ہیں اور اس کے لیے پیسا خرچ کر سکتے ہیں، تو اس لیے پاپولر موویز عام افراد کے معیار کے مطابق بنائی جاتی ہیں، جو خاصا پست بھی ہوسکتا ہے، جب کہ زیادہ سے زیادہ منافع کمانے کی دوڑ میں پاپولر فلم ساز کچھ مخصوص فارمولے استعمال کرتے ہیں۔ 

ان فلمز میں اچّھا خاصا ’’مسالا‘‘ شامل ہوتا ہے۔ مثلاً عشقیہ تکون، جس میں ایک مَرد یا عورت سے بیک وقت دو عورتیں یا مَرد محبت کرنے لگتے ہیں، جس سے کہانی میں ایک نیا موڑ آتا ہے اور کسی ایک محبوب یا محبوبہ کو المیے سے گزرنا پڑتا ہے۔ اس کے علاوہ تجارتی بنیادوں پر بنائی جانے والی فلمز میں گھریلو سازشیں اور ناقابلِ یقین حد تک بہادری کے مناظر بھی دکھائے جاتے ہیں، جو فلم بینوں کو جذباتی طور پر خاصا متاثر کرتے ہیں۔ 

علاوہ ازیں، ان موویز میں کشش پیدا کرنے کے لیے دیگر غیر حقیقی و رومانی مناظر اور ناچ گانا(آئٹم نمبرز وغیرہ بھی) شامل کیا جاتا ہے۔ مختصراً یہ کہ کمرشل موویز کے ذریعے عوام کو تفریح کے بھرپور مواقع فراہم کیے جاتے ہیں اور زیادہ سے زیادہ منافع کمانے کی کوشش کی جاتی ہے۔ اس ضمن میں نیل پوسٹ مین کا کہنا ہے کہ ’’تفریح لیتے لیتے ہم موت کے منہ میں جانے پر بھی آمادہ رہتے ہیں یا ایک طرح عوام ’’فنافی التفریح‘‘ کی حد تک پہنچ جاتے ہیں۔‘‘

اس کے برعکس متوازی سنیما کا بنیادی مقصد منافع کمانا نہیں ، البتہ اس سے منافع بھی کمایا جاسکتا ہے۔ متوازی سنیما ایک خاصی وسیع اصطلاح ہے، جس میں عالمی سنیما کی کئی تحاریک شامل کی جا سکتی ہیں۔ مثلاً گزشتہ ایک سو برس کے دوران سوویت یونین، اٹلی اور فرانس کی حقیقت نگاری پر مبنی فلمز کو متوازی سنیما کہا جا سکتا ہے۔ اسی طرح ایران اور 1950ء سے 1970ء تک کے عشرے میں بھارت میں سماجی موضوعات پر بنائی گئی آرٹ موویز بھی متوازی سنیما کا حصّہ ہیں۔ بھارت میں اس اعتبار سے شیام بینگل اور گووند نہلانی جیسے ہدایت کاروں کا ممتاز مقام ہے۔ 

یاد رہے کہ متوازی سنیما کا مقصد منافع کمانے کے لیے تفریحی فلمیں پیش کرنا نہیں ہوتا اور نہ ہی یہ مسالے دار کہانی اور رقص و سرود پر مبنی مناظر کے ذریعے باکس آفس پر اپنی فلمز کامیاب بناتا ہے۔ گو کہ بھارتی آرٹ موویز میں گانے اور رقص شامل کیے جاتے ہیں، لیکن ان کا مقصد تفریحِ طبع کی بجائے فلم کے مرکزی بیانیے کو تقویت دینا ہوتا ہے۔ 

اس ضمن میں انڈین آرٹ سنیما کی مشہور فلم، ’’صاحب، بی بی اور غلام‘‘ کو مثال کے طور پر پیش کیا جا سکتا ہے۔1960ء کے عشرے میں ریلیز ہونے والی اس فلم میں کچھ اچّھے گانے اور رقص شامل تھا۔ اسی طرح 1982ء میں ہدایت کار، گنگا ساگر تلوار نے، جن کو عام طور پر ساگر سرحدی کے نام سے جانا جاتا ہے، ’’بازار‘‘ کے نام سے ایک آرٹ مووی بنائی، جو متوازی سنیما کی بہترین مثال تھی اور اس میں بھی بعض اچّھے گیت اور غزلیں شامل تھیں۔

متوازی سنیما کی اکثر موویز میں طبقاتی تضاد اور طبقاتی جدوجہد کو فلم بند کیا جاتا ہے۔ ان فلمز میں یہ بتایا جاتا ہے کہ بالا دست طبقہ نچلے اور کم زور طبقے کا کس طرح استحصال کرتا ہے اور یوں طبقات پر مبنی امتیازی سلوک کا پردہ چاک کیا جاتا ہے۔ علاوہ ازیں، ان فلمز کے ذریعے بالواسطہ یا بلاواسطہ طور پر ناظرین کو سماجی تبدیلی کے لیے جدوجہد اور اپنے حقوق کے لیے آواز بلند کرنے کی ترغیب دی جاتی ہے۔ 

گو کہ روایتی سنیما کی بعض موویز میں بھی طبقاتی امتیاز سے پردہ اٹھایا جاتا ہے اور لوگوں کو اپنے حقوق کی خاطر لڑتے ہوئے دکھایا جاتا ہے، لیکن بنیادی طور پر یہ بھی فارمولا فلمز ہوتی ہیں، کیوں کہ ان میں بھی ایک لَو اسٹوری ہوتی ہے اور ہیرو کو ہیروئین کے ساتھ ناچتے گاتے اور وِلن کی درگت بناتے دکھایا جاتا ہے۔

بعض آرٹ موویز میں حقیقت نگاری کے ساتھ علامتی اظہار بھی ہوتا ہے، جس سے سماجی تبدیلی واضح ہوتی ہے ۔ مثلاً ستیہ جیت رے کی فلم، ’’جلسہ گھر‘‘ میں ایک پُرانا نواب پورے جاگیر دارانہ سماج کی نمائندگی کرتا ہے، جو زوال پذير ہونے کے باوجود کسی صورت تبدیل نہیں ہونا چاہتا۔ اسی طرح فلم، ’’صاحب، بی بی اور غلام‘‘ کے ابتدائی منظر میں ایک بڑی حویلی کو منہدم ہوتے دکھایا گیا ہے، جس کی جگہ ایک نیا کارخانہ بنے گا۔ مطلب، اس طرح علامتی طور پر جاگیر دارانہ معاشرے کو صنعتی انقلاب سے گزرتے دکھایا گیا ہے۔ نیز، متوازی سنیما صرف طبقاتی اونچ نیچ ہی کوواضح نہیں کرتا بلکہ صنفی امتیاز کو نمایاں کرنے کی سعی بھی کرتا ہے۔

اس سنیما کی اوّلین فلم، ’’اچھوت کنیّا‘‘ (1936ء) سے لے کر 2023ء میں بننے والی فلم، ’’لاپتا لیڈیز‘‘ تک میں خواتین کے مسائل اور اُن کا استحصال متوازی سنیما کا موضوع رہا ہے۔ ’’اچھوت کنیّا‘‘ میں، جو بعد ازاں بمل رائے نے ’’سُجاتا‘‘ کے نام سے 1960ء میں بھی بنائی، دیویکا رانی نے ایک اچھوت لڑکی کا کردار نبھایا، جسے ذات پات کی بنیاد پر امتیازی سلوک کا سامنا کرنا پڑتا ہے ،مگر اس کا محبوب، اشوک کُمار اُس کی ہر ممکن مدد کرتا ہے، جب کہ ’’سُجاتا‘‘ میں اس لڑکی کا کردار نوتن نے ادا کیا۔

متوازی سینما کی زیادہ تر فلمز میں ’’کبھی خوشی، کبھی غم‘‘ والا فارمولا استعمال نہیں کیا جاتا اور نہ ہی ان کا انجام کسی المیے یا طربیے پر ہوتا ہے، جو پاپولر فلمز کا خاصّہ ہے۔ بالی وُڈ کی مشہور فلم، ’’شعلے‘‘ میں بھی عوام کا استحصال ہوتے دکھایا گیا ہے، لیکن اسے متوازی سنیما کی کٹیگری میں شامل نہیں کیا جا سکتا، کیوں کہ اس فلم کے ہیروز (امیتابھ بچن اور دھرمیندر) کو غیر معمولی طور پر بہادر دکھایا گیا ہے، جو دو درجن ڈاکوؤں کا مقابلہ کرکے انہیں شکست دیتے ہیں، البتہ اس فلم کا اختتام ایک المیے پر ہوتا ہے کہ جب ایک ہیرو لڑتے ہوئے اپنے دوست کی خاطر اپنی جان قربان کر دیتا ہے۔ 

محبوب خان کی 1942ء میں ریلیز ہونے والی فلم، ’’عورت‘‘ میں، جسے بعد ازاں 1957ء میں ’’مدر انڈیا‘‘ کے نام سے محبوب خان ہی نے دوبارہ تخلیق کیا، ایک ڈاکو کو اپنے ماں کے ہاتھوں انجام تک پہنچتے دکھایا گیا ہے، گو کہ ان فلمز میں بھی ناچ گانا ہے لیکن ہم انہیں متوازی سنیما میں شامل کرسکتے ہیں۔ 

واضح رہے، زیادہ تر متوازی فلمز کا انجام الم ناک یا طربیہ نہیں ہوتا بلکہ کہانی ایک موڑ پر پہنچ کر ختم ہو جاتی ہے۔پھر آرٹ موویز میں طبقاتی اونچ نیچ، معاشی استحصال اور صنفی امتیاز جیسے موضوعات ہائی لائٹ کرنے کے علاوہ ریاست اور اُس کے اہل کاروں کے عوام سے ناروا سلوک کا پردہ بھی چاک کیا جاتا ہے۔ اس ضمن میں گووند نہلانی نے 1998ء میں ’’ہزار چوراسی کی ماں‘‘ اور وشال بھاردواج نے 2014ء میں ’’حیدر‘‘ بنائی۔ اسی طرح 2012 میں پرکاش جھا نے ’’چکردیو‘‘ میں بھی ریاستی استحصال اور بربریت کو واضح کیا۔

بہر حال، یہاں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ آخر پاکستان میں متوازی سنیما کیوں نہیں ہے؟ اور اس کا سادہ سا جواب یہ ہے کہ یہاں اظہارِ رائے پر پابندیاں عائد ہیں۔ یاد رہے کہ متبادل یا متوازی آوازوں کے پنپنےکے لیے ایک سازگار ماحول درکار ہوتا ہے، جو صرف فعال جمہوریت ہی میں ممکن ہے اور اس کا اطلاق سماج کے تمام شعبوں پر ہوتا ہے۔ اس کے ساتھ ہی ہمیں ایک آزاد اور غیر جانب دار عدلیہ کی بھی اشد ضرورت ہے کہ جو اس بات کو یقینی بنائے کہ مُلک بَھرکے تمام طبقۂ فکر کی آوازیں سُنی جائیں گی ۔