• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

تحریر: نرجس ملک

ماڈل: پریا

ملبوسات: شاہ پوش

(لبرٹی مارکیٹ، لاہور)

آرائش: دیوا بیوٹی سیلون

عکّاسی: عرفان نجمی

لے آؤٹ: نوید رشید

ایک بےنام، بلاعنوان انگریزی پوسٹ نظر سے گزری۔ جس کا آسان الفاظ میں ترجمہ کچھ یوں ہوسکتا ہے کہ ’’ممکن ہے کہ کبھی آپ سوچتے ہوں کہ آپ اِس دنیا کے سب سے غیر اہم فرد ہیں، جب کہ ہو سکتا ہے کہ عین اُسی لمحے کوئی شخص اپنے پسندیدہ ترین مگ میں کافی پی رہا ہو، اُس مگ میں، جو کبھی آپ نے اُسے بطورتحفہ دیا تھا۔ کوئی ریڈیو پر ایک ایسا گیت سُن رہا ہو، جس سے آپ کی اور اُس کی کچھ بہت سہانی یادیں وابستہ ہوں۔ کوئی کسی ایسی کتاب کے مطالعے میں ڈوبا ہوا، غرق ہو، جو کبھی آپ نے اُسے تجویز کی تھی۔

کوئی دن بھر کی سخت محنت و مشقّت کے بعد بستر پر لیٹ کے وہ لطیفہ یاد کرکے مُسکرا رہا ہو، جو آپ نے اُس روز دورانِ کار اُسے سُنایا تھا۔ کوئی اپنے آپ سے تھوڑی سی زیادہ محبّت کرنے لگا ہو، کیوں کہ آپ نے اُس کے لیے کچھ تعریفی کلمات کہے تھے۔ سو، کبھی بھی یہ مت سوچیں کہ آپ اس دنیا میں محض ایک عضوِ معطّل، بےکار وجود ہیں۔ کیوں کہ آپ کا کسی کے لیے ایک اچھا خیال، احساس، کوئی خُوب صُورت جملہ، نیک خواہش، تمنّا، طرزِعمل، حتیٰ کہ ہلکا سا اشارہ، نیک نیّتی بھی اپنا تقش ضرور چھوڑتی ہے۔ ایک ایسا گہرا نقش، جسے کوئی چاہ کے بھی مِٹا نہیں سکتا۔‘‘ 

ایسے ہی کہیں دو بہنوں کی ایک چھوٹی سی کہانی پڑھی کہ چھوٹی بہن شدید بیمار ہے۔ وہ بستر پہ لیٹی ہے، مسلسل بیماری نے اُسے کافی کم زور و لاغر کردیا ہے، اُس کی بڑی بہن کھڑکی میں کھڑی، شیشےکے پار موجود ایک درخت پر نظریں گاڑے ہوئے ہے۔ خزاں رُت نے چہار سُو قدم جما رکھے ہیں۔ چھوٹی بیمار بہن، اپنی بڑی بہن سے سوال کرتی ہے کہ ’’درخت پر کتنے پتّے باقی ہیں؟‘‘ بڑی بہن آنکھوں میں آنسو لیےاُس کی طرف دیکھتی ہے۔ ’’تم یہ کیوں پوچھ رہی ہو، میری جان؟‘‘ چھوٹی بہن انتہائی مایوسی کے عالم میں جواب دیتی ہے۔ 

’’اِس لیے کہ مجھے پتا ہے کہ درخت کا آخری پتّا گرنے کے ساتھ میری زندگی کے دن بھی ختم ہوجائیں گے۔‘‘ بڑی بہن بہت محبّت و ملائمت سے اُس کا ہاتھ اپنے ہاتھ میں لے کے کہتی ہے، ’’تو پھر جب تک وہ وقت نہیں آتا، ہم تب تک اپنی زندگیوں کو خُوب انجوائے کیوں نہ کریں؟‘‘ اور پھر....دن گزرتے چلے گئے، پتّےبھی گرتے رہے، ہاں، مگر ایک پتّا درخت کے ساتھ مضبوطی سے چمٹا رہا۔ گویا اُس نے درخت سے جدا نہ ہونے کی قسم کھا رکھی تھی۔ 

بیمار بہن اُس پتّے کو دیکھتی رہی اور اُسے دیکھ دیکھ جیتی رہی، حتیٰ کہ خزاں رُت گزر گئی، سردی آئی، ختم ہوگئی۔ اور پھر بہار بھی دریچوں، دروازوں پر دستک دینے لگی۔ بیمار بہن بالکل تن درست، بھلی چنگی ہوگئی۔ یہاں تک کہ اُس نے مکمل تن درست ہونے کے بعد ہنستے ہوئے اپنی بہن سے کہا کہ ’’آؤ، چلو ذرا اُس کراماتی پتّے کو تو دیکھ کر آئیں کہ جو نئے شگوفے پُھوٹنے کے موسم تک بھی درخت سے لپٹا ہوا ہے۔‘‘ اور پھر… اُس نے دیکھا کہ وہ پتّا تو پلاسٹک کا تھا، جو اُس کی بڑی بہن نے محض اپنی چھوٹی بیمار بہن کی ایک اُمید زندہ رکھنے کی خاطر درخت سے باندھ رکھا تھا۔

تو بات صرف اتنی سی ہے کہ زندگی کا تو دوسرا نام ہی اُمید و رجا ہے۔ دوم، یہ کہ قدرت کے کارخانے میں کوئی بےجان شےبھی بے کار نہیں، تو بھلا ایک جیتا جاگتا انسان کیوں کر ناکارہ ہوسکتا ہے۔ وہ تو ہم خُود ہی، خُود کو عموماً بلاوجہ under rate, Underestimate کرلیتے ہیں، وگرنہ ہر ہستی ہی اپنی جگہ ایک پوری بستی، مکمل جہان ہے۔ کائنات کا ذرّہ ذرّہ اہم ہی نہیں، بیش قیمت بھی ہے۔ 

تو ایسے میں ذرا خُود سوچیے کہ پھر تصویرِ کائنات کی اصل رنگا رنگی، حُسن ودل کشی، چہرے مُہرے (یعنی خواتین) کی اہمیت و قدر ومنزلت کتنی اور کہاں تک ہوگی۔ سو بس، دھرتی کی اِن ’’مہمانانِ خصوصی‘‘ کے لیے تو پھرجو نہ کیا جائے، کم ہے۔ ہمیں، اُنہیں سدا پراُمید بھی رکھنا ہے اور پُرعزم بھی اور اِسی خاطر ہم ہر گھڑی تیار کام ران ہیں۔ ہر ہفتے ایک سے ایک حسین و دل نشین بزم سجا لاتے ہیں کہ بہرکیف عورت کی اپنی فطرت وسرشت سے ہم آہنگی برقرار رہنی چاہیے۔

تو چلیں، ذرا اپنی آج کی بزم پر نظر دوڑائے لیتے ہیں۔ جہاں ایک سے بڑھ کر ایک ’’میچنگ سیپریسٹس‘‘ کے جلوے بکھرے پڑے ہیں۔ ہلکے نارنجی (ڈارک پِیچ) سے رنگ میں پھول دار پرنٹ سے آراستہ نفیس سا پہناوا ہے، تو بلیو کے خُوب صُورت سے شیڈ میں نازک سی لیس سے مزیّن شلوار، قمیص کا بھی جواب نہیں۔ سفید رنگ کی زِگ زیگ لیس سے مرصّع لائٹ مسٹرڈ شیڈ کا پہناوا ایک دل کش انتخاب ہے، تو سیاہی مائل گہرےسُرمئی سے شیڈ میں بھی ایک شان دار انداز ہے اور آسمانی رنگ کے فلورل پرنٹڈ روایتی سے شلوار قمیص کے تو کیا ہی کہنے۔ 

ایک تو ہنستی مُسکراتی، من موہنی سی صُورت ہو، اوپرسے پہناوے بھی غضب، تو زندگی تو خُود بخود ہی حسین لگنے لگتی ہے۔ ست رنگی قوسِ قزح چہار سُو گھیرا ڈالے رقص کرتی سی محسوس ہوتی ہے، اُمیدوں کے قدم جکڑےجاتےہیں۔ 

شاخیں، پلاسٹک کے پتّوں سے بھی ہریالی دینے لگتی ہیں اور انگ انگ آپ ہی آپ گنگنائے جاتا ہے ؎ تمہارے پاس آتے ہیں تو سانسیں بھیگ جاتی ہیں.... محبّت اتنی ملتی ہے کہ آنکھیں بھیگ جاتی ہیں.... تبسّم عطر جیسا ہے، ہنسی برسات جیسی ہے.... وہ جب بھی بات کرتی ہے، تو باتیں بھیگ جاتی ہیں.... تمہاری یاد سے دل میں اُجالا ہونے لگتا ہے.... تمہیں جب گنگناتا ہوں تو راتیں بھیگ جاتی ہیں.... زمیں کی گود بَھرتی ہے، تو قدرت بھی چہکتی ہے.... نئے پتّوں کی آہٹ سے بھی شاخیں بھیگ جاتی ہیں۔