تحریر: نرجس ملک
ماڈل: دُعا جاوید
ملبوسات: SAB Textiles by Farrukh
آرائش: ماہ روز بیوٹی پارلر
کوارڈی نیشن: آصف صلاح الدین
عکّاسی: ایم۔ کاشف
لےآؤٹ: نوید رشید
معروف فلسطینی دانش وَر، شاعر محمود درویش نے (جنہیں فلسطین کے قومی شاعر کا درجہ حاصل ہے) ایک بار کہیں لکھا تھا کہ ’’میری طرف سے سزا کے لیے یہی کافی ہےکہ مَیں تمھیں اُس طرح نہیں دیکھوں گا، جیسے مَیں تمھیں دیکھتا تھا۔‘‘ سوچا جائے، تو یہ بہت بڑی اور کڑی سزا ہے، لیکن ضروری نہیں کہ کسی چاہنے والے عاشق کی طرف سے، کسی چاہے جانے والے معشوق کو یہ سزا صرف اِسی صُورت ملے کہ وہ گناہِ بے التفاقی یا جرمِ بے وفائی ہی کا مرتکب ہوا ہو۔ بعض اوقات یہ ایذا اُن کے حصّے بھی آتی ہے، جو خُود کو محبوب و معشوق کے پیمانے، درجے، معیار سے ہم آہنگ نہیں رکھ پاتے۔ جیسا کہ ہمارے یہاں عموماً بیش ترخواتین، شادی کےبعد اپنا آپ بالکل چھوڑ ہی دیتی ہیں۔
خُود کو کہیں رکھ کے جیسے بھول سی جاتی ہیں، یک سرفراموش کر دیتی ہیں۔ گویا ’’مقصدِ حیات‘‘ صرف شادی ہی تھا۔ ایسی ہی خواتین کے لیےعصرِحاضر کی خُوب صُورت شاعرہ، ثروت زہرہ نے ’’ورکنگ لیڈی‘‘ کے نام سے ایک اچھوتی نظم بھی لکھی۔ ؎ ’’نہ چُوڑی کی کھن کھن، نہ پائل کی چَھن چَھن …نہ گجرا، نہ منہدی، نہ سُرمہ، نہ اُبٹن …مَیں خُود کو نہ جانے کہاں بُھول آئی …جو ڈیوڑھی سے نکلی، تو بچّے کی چیخیں… وہ چولھا، وہ کپڑے، وہ برتن، وہ فیڈر… وہ ماسی کی دیری، وہ جلدی میں بڑ بڑ… نہ دیکھا تھا خُود کو، نہ تم کو سُنا تھا… بس اسٹاپ پر اب کھڑی سوچتی ہوں… کِسے سینت رکھا، کِسے چھوڑ آئی… مَیں خُود کو نہ جانے کہاں بُھول آئی… وہ چُبھتی نگاہیں، وہ آفس کی دیری… سیاہی کے دھبّوں میں رنگی ہتھیلی… وہ باتوں کی ہیبت، جو سانسوں نے جھیلی…
وہ زہری رویّے، وہ الجھی پہیلی… مِری مُٹھیوں میں سلگتی دوپہری… مَیں کی بورڈ پرانگلیاں چھوڑ آئی… جلی شام! پر سُرمئی رُت کدھر ہے… تھکی ماندی آنکھوں میں لمبا سفر ہے… یہ دہلیز، آنگن، مگر سُکھ کدھر ہے… ادھورے کئی کام رکھے ہیں، گھر ہے… ہر اِک سانس، اب وقت کی دھار پر ہے… وہ آسودہ لمحے کہاں چھوڑ آئی… مَیں خُود کو نہ جانے کہاں بھول آئی۔‘‘ یہ نظم جہاں ایک عورت کی پوری حیاتی کا المیہ، نوحہ ہے، وہیں اِس بات کا اقرار بھی ہے کہ لڑکی سے عورت بننے کے سفرمیں سب سے پہلے اپنی ہستی ہی دھول مٹّی ہوتی ہے۔ اولین خسارہ، نفس کی قربانی، ذات کی نفی ہی ٹھہرا۔ حالاں کہ اپنے اصل، فطرت سے صرفِ نظر، جبلّت، سرشت سے اِغماز ہرگز کوئی آساں امر نہیں۔
کہتےہیں، ’’عورت اور ہار سنگھار‘‘ لازم و ملزوم ہیں۔ آرائش و زیبائش، بننا سنورنا عورت کے خمیر میں گُندھا، رگ و ریشے میں پیوست، گُھٹی میں پڑا ہےاوراگر وہ کسی بھی سبب اپنے اصل ہی سےگریزاں ہو، تو سوچیں یہ کتنا بڑا ایثارہے، جب کہ اِس ایثار کےنتیجے میں وہ، وہ ہی نہیں رہتی، جو درحقیقت وہ ہوتی ہے۔ کبھی اِسی لڑکی کی کہیں آمد سے کلیاں چٹکنے، شگوفے مہکنے، پھول مُسکرانے، بہاریں پھول برسانے لگتی تھیں۔ دروبام جگمگا سے جاتے، فضائیں گنگنا اُٹھتیں ؎ تُو لاکھ چلےری گوری تھم تھم کے، پائل میں گیت ہیں چھم چھم کے… سارے موسم، ہررُت البیلی، نشیلی، رنگ رنگیلی سی ہوجاتی۔ وہ کیا ہے کہ ؎ وہ آئے بزم میں اتنا تو برق نے دیکھا… پھر اُس کےبعد چراغوں میں روشنی نہ رہی۔ (یاد رہے، یہ شعر میر تقی میر سے غلط طور پر منسوب ہے، اصل خالق مہاراج بہادر برق ہیں۔ جب کہ ’’ریختہ‘‘ میں اِسے الطاف الرحمٰن فکر یزدانی سے موسوم کیا گیا ہے۔) تو ایسی جانِ محفل، جو سب موسم و ماحول تک بدل ڈالنے، قوسِ قزح کے رنگ بکھیرنے، خزاں رُت کو بہار کرنے کا ملکہ رکھتی ہو۔ جس کے قدموں کی آہٹ پر آپ ہی آپ سارے دروازے، دریچےوا ہوتےچلے جائیں۔ جس کی آنکھوں کی شوخی و چمک، باتوں کی خُوشبو، مہک، ہنسی کی جلترنگ دِلوں کے تار چھیڑجائے۔
جس کے لیے گیت لکھےجائیں کہ ؎ ’’اِک لڑکی کو دیکھا، تو ایسا لگا… جیسے کِھلتا گلاب، جیسے شاعر کا خواب… جیسے اُجلی کرن، جیسے بَن میں ہرن… جیسے چاندنی رات، جیسے نرمی کی بات… جیسے مندر میں ہو جلتا دیا… اِک لڑکی کو دیکھا، تو ایسا لگا… جیسےصُبح کا رُوپ، جیسےسردی کی دھوپ… جیسے بینا کی تان، جیسے رنگوں کی جان… جیسے بَل کھائے بیل، جیسے لہروں کا کھیل… جیسے خُوشبو لیے آئے ٹھنڈی ہوا… اِک لڑکی کو دیکھا، تو ایسا لگا… جیسے ناچتا مور، جیسے ریشم کی ڈور… جیسے پریوں کا راگ، جیسے صندل کی آگ… جیسے سولہ سنگھار، جیسے رس کی پھوار… جیسے آہستہ آہستہ بڑھتا نشہ… اِک لڑکی کو دیکھا، تو ایسا لگا۔‘‘ اور…پھرجب اُسی لڑکی کوپہننے اوڑھنے کا شوق رہے، نہ بننے سنورنے کا۔ ہانڈی چولھا، گھر گرہستی، بال بچّے ہی اوڑھنا بچھونا ہوجائیں۔
حد تو یہ ہے کہ وہ دیکھنے والا بھی ویسے نہ دیکھے، جیسے کبھی دیکھتا تھا۔ تو پھر تو امجد صاحب کے الفاظ میں یہی کہنا بنتا ہے کہ ؎ ’’حسابِ عُمر کا اتنا سا گوشوارہ ہے… تمھیں نکال کے دیکھا، تو سب خسارا ہے… کسی چراغ میں ہم ہیں، کسی کنول میں ہوتم… کہیں جمال ہمارا، کہیں تمھارا ہے… ہراِک صدا، جوہمیں بازگشت لگتی ہے… نہ جانےہم ہیں دوبارہ کہ یہ دوبارہ ہے… عجب اصول ہیں اِس کاروبارِ دنیا کے… کسی کا قرض کسی اور نے اُتارا ہے… یہ دو کنارے تو دریا کے ہوگئے، ہم تم… مگر وہ کون ہے، جو تیسرا کنارا ہے۔ ‘‘
اللہ نہ کرے کہ صرف ’’خسارہ‘‘ ہی کسی کا مقدر ہو۔ تو لیجیے، ملاحظہ فرمایئے، ہماری آج کی بزم، جو سیاہ و سفید کے ایور گرین کامبی نیشن میں کاٹن ایمبرائڈرڈ ڈریس سے مرصّع ہے، تو بلیو کے مختلف شیڈز میں پرنٹڈ ایمبرائڈرڈ حسین شرٹ، کیولاٹ کے دل آویز اسٹائل سے بھی۔ گہرے نارنجی رنگ میں لیزرکٹ اسٹائل سے مزیّن حسین فراک کے ساتھ اسکن فٹڈ ٹائٹس ہیں، تو ڈاٹ پرنٹڈ بےبی ڈول اسٹائل فراک کا بھی جلوہ ہے۔ جب کہ نفیس مررورک سے آراستہ ٹُوپیس پرنٹڈ پہناوے کے توکیا کہنے ہیں۔
جو انداز بھی بھلا لگ رہا ہے، اپنا لیں۔ اور اِس کے لیےکسی خاص چھب ڈھب، خال وخد، عُمر، موقعے کی بھی کوئی قید نہیں۔ ہاں، بہ زبانِ رفعت سلطان گنگنایا ضرور جا سکتا ہے ؎ ’’بڑے سُکون سے زلفیں سنوارنے والے… کسی کی زیست نہ بن جائے مستقل الجھن… دلِ فسردہ میں یوں تیری یاد آئی ہے… شبِ ِسیاہ میں جس طرح روشنی کی کرن… یہ کس نے جُھوم کے مستی میں لی ہے انگڑائی… فسوں طراز ہے، یہ کس کا رنگِ پیراہن۔‘‘