ستمبر کے آخری دنوں میں لبنان کے دارالحکومت، بیروت اور کچھ دیگر شہروں میں ہزاروں پیجرز بیک وقت دھماکوں سے پھٹ پڑے، جس کے نتیجے میں درجنوں افراد ہلاک اور ہزاروں زخمی ہوئے۔ بعدازاں، اِسی طرح کے دھماکے واکی ٹاکی سیٹس میں بھی ہوئے۔یہ عام سے پیجرز لوگوں نے اپنے ہاتھوں یا جیبوں میں رکھے ہوئے تھے، یہی وجہ ہے کہ زیادہ تر افراد کو پیٹ، ہاتھوں اور آنکھوں پر زخم آئے۔
یہ سب اچانک، غیر متوقّع اور سنسی خیز تھا۔ کسی کے گمان میں بھی نہ تھا کہ لبنان میں ایسی قیامتِ صغریٰ بھی برپا ہوسکتی ہے۔ان دھماکوں سے مُلک میں افراتفری مچ گئی۔ ہر طرف لاشیں اور زخمی پڑے نظر آئے۔ایک کے بعد دوسرے شہر سے پُراسرار دھماکوں کی اطلاعات نے عوام کو خوف زدہ کردیا۔جو لوگ اِن حملوں کا نشانہ بنے، وہ گھروں، بازاروں، گاڑیوں، سڑکوں اور ریسٹورنٹس وغیرہ، یعنی مختلف مقامات پر موجود تھے، لیکن ایک بات مشترک تھی کہ اُن میں سے تمام تر کا تعلق لبنانی جنگ جُو تنظیم،’’ حزب اللہ‘‘ سے تھا، جو طاقت وَر ہے اور حکومت کو ڈکٹیٹ بھی کرتی ہے۔
گزشتہ سال7 اکتوبر سے غزہ، اسرائیلی جارحیت کا نشانہ بنا ہوا ہے اور وہاں روز طیاروں سے شدید بم باری، ڈرون حملے اور زمینی آپریشنز ہوتے ہیں۔اموات اور زخمیوں کے اعداد وشمار غزہ کی وزارتِ صحت کے حوالے سے پریس ریلیز کے طور پر سامنے آتے ہیں، روایتی طور میں یہ کام فوجی ذرایع سے ہوتا ہے۔ غزہ مقامِ جنگ ہے اور حماس، اسرائیل کا بنیادی ٹارگٹ، وہ اعلان کر چُکا ہے کہ حماس کی فوجی صلاحیت ہر صُورت غیر مؤثر کرکے رہے گا۔
تاہم، ابھی تک تو ایسا نہیں ہوا۔ اِس جنگ میں بہت سی قوّتیں براہِ راست شامل ہوچکی ہیں۔ ان میں حزب اللہ، یمنی حوثی اور عراقی جنگ جُو تنظیمیں شامل ہیں، جنھیں ایران کی مدد حاصل ہے۔کہا جاتا ہے یہ تنظیمیں جو راکٹس، میزائل یا اسلحہ استعمال کرتی ہیں، وہ بھی زیادہ تر ایران ہی کی طرف سے ملتا ہے۔مغربی ممالک اِنہیں’’ ایرانی پراکسیز‘‘ کہتے ہیں۔ جب کہ ایران وہ واحد مُلک ہے، جو اسرائیل سے براہِ راست تصادم میں ہے اور اُس پر میزائل حملہ بھی کرچُکا ہے۔
ایران اور اسرائیل کے ایک دوسرے پر غیر علانیہ حملے ایک عرصے سے جاری ہیں۔ حال ہی میں ایران نے اسرائیل پر3000میزائل اور راکٹ برسائے۔حوثی باغیوں نے اُن سمندری جہازوں پر حملہ کیا، جن کا تعلق، اُس کے مطابق، اسرائیل سے تھا۔حزب اللہ بھی وقتاً فوقتاً اسرائیل پر راکٹ برساتی رہتی ہے۔
اسرائیل نے حالیہ دنوں میں ایران کے خلاف جو کارروائیاں کیں، اُن میں دو بہت اہم ہیں۔ ایک تو وہ، جس میں اُس نے دمشق میں ایرانی سفارت خانے پر حملہ کرکے پاس دارانِ انقلاب کے اہم رہنماؤں کو ہلاک کیا اور دوسری، حماس کے سربراہ اسماعیل ہانیہ کی تہران میں شہادت ہے، جہاں وہ نومنتخب ایرانی صدر کی تقریبِ حلف برداری کی میں شرکت کے لیے آئے تھے۔
اسرائیل نے یمن میں تیل کی تنصیبات تباہ کیں، جس کی آگ پورے مشرقِ وسطیٰ میں دیکھی گئی۔ اِس طرح دونوں طرف سے لڑائی جاری ہے، جب کہ فریقین کا کہنا ہے کہ کوئی بھی اِسے باقاعدہ جنگ میں تبدیل نہیں کرنا چاہتا اور یہی خواہش دنیا کی بھی ہے۔
اب تک یہ تمام حملے، جنگ کے روایتی طریقوں کے مطابق تھے، لیکن لبنان میں پیجرز دھماکوں نے جنگی حکمتِ عملی میں سائبر وار فیئر کی ایک نئی حکمتِ عملی داخل کردی ہے۔ہر مُلک کے فوجی ماہرین، سائبر وار فیئر کے ایکسپرٹس، ملٹری اور ٹیکنالوجی ادارے اِن حملوں کا نئی جنگی حکمتِ عملی کے طور پر تجزیہ کر رہے ہیں۔یہ کتنی خطرناک صُورتِ حال پیدا ہوئی ہے اور اس کے آئندہ فوجی تصادم پر کیا اثرات مرتّب ہوسکتے ہیں، یہ آج کا ایک اہم سوال ہے اور یہ بھی کہ کیا عام استعمال کی کمیونی کیشن ڈیوائسز بم بن گئی ہیں؟
فوجی حکمتِ عملی اور ٹیکنالوجی کے ماہرین کے لیے سب سے اہم سوال یہ ہے کہ ہزاروں پیجرز، جو مختلف مقامات پر موجود تھے، ایک ہی وقت پر کیسے دھماکے سے پھٹ گئے اور بم کی شکل میں تباہی مچا دی۔ اِس کا سادہ سا جواب تو یہ ہے کہ ایک پیغام، ہزاروں ڈیوائسزز کو بھیجنے کی ٹیکنالوجی تمام اسمارٹ فونز میں موجود ہے۔
واٹس ایپ پر’’ مائی اسٹیٹس‘‘ کو کلک کریں اور ایک ہی پیغام بیک وقت تمام مطلوبہ ڈیوائسز کو پہنچ جائے گا، جن کی تعداد ہزاروں سے بھی زیادہ ہوسکتی ہے۔ یہ سگنل بیپر یا جلتی بجھتی لائٹ کنٹرول کرنے کے لیے استعمال ہوتا ہے۔ اگر اس میں ایک سوئچ یا ٹریکر نصب کردیا جائے، تو یہ کسی بھی دھماکا خیز مواد کو اُڑا سکتا ہے۔
ماہرین اِس نتیجے پر پہنچے ہیں کہ اصل کمال اُس میکانزم اور دھماکا خیز مواد کو ہزاروں ڈیوائسز میں نصب کرنے کا ہے، کیوں کہ یہ کوشش کسی بھی مرحلے میں پکڑی جاسکتی تھی۔اِسی لیے ماہرین کے مطابق اِس قسم کا آپریشن پیجرز کے فیکٹری میں تیار ہوکر وہاں سے نکلنے کے بعد ہی ممکن ہوا۔ اب جو ممکنہ منظر نامہ سامنے آیا ہے، وہ کچھ یوں ہے۔ پیجرز کو فیکٹری میں تیار ہونے کے بعد گاڑیوں پر لوڈ کیا گیا اور آگے کا سفر شروع ہوگیا۔
یہ پیجرز، جو حزب اللہ تک جانے تھے، فیکٹری سے تیار ہونے کے بعد کسی نامعلوم مقام پر، مکان نُما کارخانے میں لے جائے گئے۔ان کی پیکنگ کھولی گئی اور ان میں دھماکا خیز مواد اور ٹریگر(سوئچ) نصب کیے گئے۔پھر اُنہیں بالکل پہلے کی طرح پیک کیا گیا۔ وہاں سے ٹرک میں لوڈ کیے گئے اور ائیرپورٹ پہنچائے گئے۔
ائیر پورٹ پر تو دھماکا خیز مواد جانچنے کے سینسر لگے ہوتے ہیں۔اِس لیے ضروری تھا کہ وہاں پہلے سے موجود کسی اہل کار نے ٹھیک اُس وقت وہ سینسرز غیر مؤثر کردیئے، جب پیجرز وہاں سے گزارے گئے۔ یہاں سے نکال کر پیجرز طیارے میں لوڈ کردیئے گئے۔ یہ خطرہ بھی موجود تھا کہ ہزاروں ڈیوائسزز، جن میں دھماکا خیز مواد موجود ہو، کسی بھی لمحے پَھٹ سکتی ہیں، لیکن پھر بھی یہ رِسک لیا گیا۔اب طیارے سے اُتارنے کے بعد پھر سامان سینسرز سے گزرتا ہے، اِس لیے ائیرپورٹ کے سینسرز ناکارہ کرنے کے لیے کوئی اہل کار موجود تھا۔
پھر اُنہیں ائیرپورٹ سے نکال کر ٹرک میں لوڈ کیا گیا اور اپنی منزل، یعنی حزب اللہ تک پہنچا دیا گیا اور اُس نے انہیں اپنے کارکنوں میں تقسیم کردیا۔اب پلان کے مطابق وقت کا انتظار تھا۔ جب وہ لمحہ آیا، تو دھماکے کا پیغام بھیج دیا گیا، جو ایک ہی لمحے میں پہنچا اور ہزاروں پیجرز ایک ہی وقت میں، مختلف افراد کے پاس دھماکے سے پَھٹ گئے۔اِس سے جو تباہی پھیلی، اُس کا ذکر لبنان ہی میں نہیں، پوری دنیا میں جنگی حکمتِ عملی کا ایک نیا باب بن کر سامنے آیا۔
گو، اسرائیل نے اس حملے کا اعتراف نہیں کیا، لیکن دنیا کا کہنا ہے کہ یہ اسرائیل کی بدنامِ زمانہ انٹیلی جینس ایجینسی، موساد اور اس کی فوج ہی کا کام ہے کہ ایسی سفّاکی سے عام شہریوں کو ٹارگٹ وہی کر سکتی ہے۔جنگ میں یہ حکمتِ عملی نئی ہے، لیکن یہ آسان ہرگز نہیں ہے۔اِس کے لیے بڑی تعداد میں تربیت یافتہ اہل کاروں کی ضرورت ہے۔
وہ اہل کار، جو باقاعدہ ملازم بھی ہوں اور کام کے لیے کرائے پر بھی حاصل کیے جاسکیں۔کیا موساد تنہا اِتنا بڑا کام کرسکتی ہے، دوسرے الفاظ میں کیا کوئی انٹیلی جینس ایجینسی ازخود، بغیر کسی بیرونی مدد اور سپورٹ کے یہ کام یاب ٹارگٹ حاصل کرسکتی ہے؟ یہ سوال بھی ماہرین کے لیے بہت اہم ہے۔
فوجی ماہرین، جدید جنگ میں گزشتہ صدیوں میں ہونے والی تبدیلیوں اور نت نئی حکمتِ عملیوں کا مسلسل مطالعہ کرتے رہے ہیں۔پہلی عالمی جنگ سے قبل توپ خانے، یعنی آرٹلری کو اہمیت حاصل تھی۔بڑے بڑے گولوں سے مضبوط سے مضبوط قلعے تباہ کر دیئے جاتے اور فتح حاصل کر لی جاتی۔پھر ٹینک فیصلہ کُن ہتھیار کے طور پر جنگ میں داخل ہوا، جسے توپ پر یہ سبقت حاصل تھی کہ تیزی سے خراب اور اونچی نیچی سرزمین پر دوڑ دوڑ کر دشمن پر وار کرسکتا تھا۔
یوں فوج میں آرمرڈ ڈویژن کی بنیاد پڑی۔ دوسری جنگِ عظیم میں ٹینک پر لڑاکا بم بار طیاروں نے برتری حاصل کرلی۔اتحادی فورسز کی فتح اور ہٹلر کی ہار میں ان طیاروں کی دن رات بم باری کا بہت ہاتھ تھا۔ اِن ہی طیاروں میں سے دو نے ہیرو شیما اور ناگا ساکی پر ایٹم بم پھینکے۔ اِس طرح دوسری عالمی جنگ کے بعد ایئر فورس کی اہمیت بڑھ گئی۔ پھر ائیر کرافٹ کیرئیر یا طیارہ بردار جہازوں نے دنیا بدل کر رکھ دی۔ طیارہ بردار جہاز، سمندر پر تیرتا فوجی فضائی اڈّا ہوتا ہے، جہاں سے طیارے اُڑان بھر کے بم باری کرسکتے ہیں اور اس کے ساتھ، میزائل بھی داغے جاسکتے ہیں۔
امریکا کی بطور سپر پاور برتری کی ایک وجہ اس کے سیون فلیٹس بھی ہیں، جو اس کی طاقت کو ہر جگہ پہنچا کر منواتے ہیں۔ایٹم بم یا نیوکلیئر پاور کی ایجاد نے جنگی حکمتِ عملی کو بالکل نئی جہت دی۔جاپان پر امریکی ایٹم بم حملے کی تباہی نے جنگوں کو روک دیا اور ایک توازن قائم ہوگیا۔ جن ممالک کے پاس ایٹمی طاقت تھی، اُنہیں سلامتی کاؤنسل میں ویٹو پاور مل گیا۔
فضائیہ کی برتری جاری رہی اور1967 ء کی تیسری عرب، اسرائیل جنگ میں جس طرح عرب افواج اور فضائیہ کو اسرائیلی طیاروں کے حملوں سے تباہی کا سامنا کرنا پڑا، مصر، اردن اور شام کے ہاتھوں سے غزہ، یروشلم، غربِ اردن، مغربی کنارا اور گولان ہائیٹس نکلے، اِس پر ماہرین نے کہا کہ’’ فضائیہ فتح کی کلید ہے۔‘‘پھر ایک اور قسم کی جنگ شروع ہوئی، جسے’’ وار آف ٹیرر‘‘ کانام دیا گیا۔نائن الیون کا واقعہ ہوا، جس میں چار طیاروں کو ٹوئن ٹاورز سے ٹکرا کر نیویارک کے ہزاروں شہریوں کو ہلاک کیا گیا۔
خود کُش دھماکوں کا سلسلہ چل نکلا، بے گناہ افراد کو فائرنگ کر کے ہلاک کیا جانے لگا اور املاک کو دھماکوں سے اُڑانا معمول بن گیا۔دیکھتے ہی دیکھتے دنیا اس نوعیت کی جنگ کی لپیٹ میں آئی اور پاکستان آج تک اس سے نبرد آزما ہے۔ دُکھ اور افسوس کی بات یہ ہے کہ اس دہشت گردی میں مسلمانوں کو بہت زیادہ موردِ الزام ٹھہرایا گیا۔
القاعدہ ،داعش اور طالبان کسی نہ کسی طرح ان سے جڑ گئیں۔ یہ ایک طرح کی گوریلا جنگ ہے، لیکن اس میں ہلاک ہونے والے عام اور بے گناہ شہری بھی ہوتے ہیں، جن کا ان جھگڑوں سے کچھ لینا دینا نہیں۔ دہشت گرد تنظیمیں ہوں یا ملیشیائیں، سب ایک ہی زمرے میں آگئی ہیں۔ لیکن کون سوچ سکتا تھا کہ انٹرنیٹ، جو مواصلات کا جدید ترین نظام ہے اور جسے دنیا کے لوگوں کو جوڑنے کے لیے بنایا گیا، وہ بھی جنگ کی ایک اور حکمتِ عملی کا حصّہ بن جائے گا۔
لبنان میں ہونے والے پیجرز دھماکے جنگ کی مختلف حکمت عملیوں کو ایک قدم آگے لے گئے ہیں۔اب جس کے پاس پیغام رسانی کی کوئی ڈیوائس ہے، وہ خطرے میں ہے۔ پیغام ریکارڈ ہونا عام سی بات ہوگئی، مگر اب تو جان کے بھی لالے پڑ گئے ہیں۔ ہاتھ میں موبائل فون ہے یا بم، اب اِس طرح کے سوالات سامنے آ رہے ہیں۔ اِن حملوں کے ضمن میں بلغاریہ کی ایک فیکٹری اور تائیوان کی پیجر تیار کرنے والی کمپنی کا نام سُرخیوں میں رہا، لیکن اُنہوں نے صاف انکار کر دیا کہ اِس عمل کے کسی بھی مرحلے سے اُن کا کوئی تعلق نہیں۔غزہ تو اسرائیلی جارحیت کا میدان بنا ہی ہوا تھا، اب لبنان بھی اُس کی خوف ناک بم باری کی زَد میں ہے۔
حزب اللہ، مشرقِ وسطیٰ کی تمام ملیشیاؤں میں سب سے طاقت وَر ہے اور اُس کے لیڈر، حسن نصراللہ، حماس کی حمایت میں ڈٹے ہوئے ہیں۔حزب اللہ کی جانب سے بھی جوابی کارروائی کے طور پر رکٹ داغے جا رہے ہیں، جن میں سے کئی اسرائیلی شہروں تک پہنچنے میں کام یاب رہے۔پیجر حملوں کے بعد بہت سے ماہرین کا کہنا ہے کہ مشرقِ وسطیٰ میں صُورتِ حال کسی جنگ کی طرف جاسکتی ہے، تاہم اس کے تینوں بڑے کھلاڑیوں، یعنی اسرائیل، ایران اور حزب اللہ، کا کہنا ہے کہ وہ کسی بڑی جنگ میں دل چسپی نہیں رکھتے۔اس کا مظاہرہ اُس وقت بھی دیکھا گیا، جب ایران نے اسرائیل پر تین ہزار راکٹ داغے، لیکن اس حملے سے متعلق اکثر فریقین کو48گھنٹے پہلے ہی مطلع کر دیا گیا تھا تاکہ کوئی ایسا جانی یا اسٹرٹیجک نقصان نہ ہوجائے، جو بڑی جنگ کا بہانہ بن سکے۔
اِسی طرح حزب اللہ بھی جوابی کارروائی تو کر رہی ہے، بیانات بھی شدید اور بہت تلخ ہیں، لیکن کوئی بھی فریق اُس ریڈ لائن کو کراس کرنے پر تیار نظر نہیں آتا، جہاں سے پورا علاقہ جنگ کی لپیٹ میں آجائے، لیکن اس کا یہ مطلب نہیں ہونا چاہیے کہ اسرائیل کو کُھلی چُھوٹ دے دی جائے کہ وہ جہاں چاہے، جب چاہے، عام شہریوں کو اپنی جارحیت کا نشانہ بنائے۔غزہ میں اموات کی تعداد ساٹھ ہزار تک پہنچ چُکی ہے اور لبنان، خاص طور پر اُس کا جنوبی حصّہ بھی بدترین جارحیت کا نشانہ بنا ہوا ہے۔
غزہ جنگ کو سال بَھر ہوگیا، سلامتی کاؤنسل اور جنرل اسمبلی بار بار جنگ روکنے اور شہریوں کے لیے امداد کھولنے کی قراردادیں پاس کرچُکی ہیں، لیکن سب بے سود ثابت رہا۔ امریکا میں اگلے ماہ صدارتی انتخابات ہو رہے ہیں، اِس لیے وہاں سے تو کسی بڑے اقدام کی توقّع مشکل ہے، تاہم چین، روس اور یورپ اپنا اثر ورسوخ استعمال کر کے کچھ اور نہیں تو روز کے اس قتلِ عام کو تو رُکوا ہی سکتے ہیں۔اقوامِ متحدہ میں تمام ممالک کو ایک ساتھ بیٹھنے کا موقع ملا اور سب سیز فائر پر بھی متفّق ہیں، تو پھر انتظار کس بات کا ہے؟