• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

اقوامِ متحدہ سربراہی اجلاس: مستقبل کی منصوبہ بندی

اقوامِ متحدہ کا 78 واں اجلاس معمول کے مطابق ستمبر کے مہینے میں نیویارک میں ہوا، جس میں رُکن ممالک کے حُکم رانوں نے شرکت کی۔اِس مرتبہ کا تھیم’’ سمٹ آف فیوچر‘‘ یعنی’’مستقبل کا سربراہ اجلاس‘‘ تھا۔گویا، مقصد یہ طے کرنا تھا کہ مستقبل کی دنیا کیسی ہوگی۔ روایتی طریقۂ کار کے مطابق، سربراہانِ حکومت یا اعلیٰ سطحی نمائندے اپنے اپنے ممالک کے عالمی معاملات پر موقف پیش کرتے رہے۔

اجلاس کے دَوران دنیا میں دو انتہائی خون ریز فوجی تصادم جاری رہے اور اُن پر دھواں دار تقاریر بھی ہوئیں، لیکن یہ جنگیں نہ رُک سکیں۔ یوکرین کی جنگ کو دو سال سے زیادہ عرصہ ہو چُکا ہے اور اِس کے اثرات دُور رَس اور گمبھیر ہیں۔ 

وجہ ظاہر ہے کہ اس میں عالمی طاقتیں براہِ راست شامل ہیں اور کوئی بھی جُھکنے یا پیچھے ہٹنے کو تیار نہیں۔یہی وہ طاقتیں ہیں، جو دنیا بَھر کو امن اور مذاکرات کے ذریعے معاملات حل کرنے کا درس بھی دیتی ہیں۔ روس نے فروری2022 ء میں اپنے پڑوسی، یوکرین پر حملہ کیا اور اقوامِ متحدہ کے اعداد وشمار کے مطابق، اب تک60 ہزار سے زاید افراد ہلاک ہوچُکے ہیں، جب کہ زخمیوں کی تعداد تو اِس سے کہیں زیادہ ہے۔ 

نیز، بے گھر ہونے والے لاکھوں افراد دیگر ممالک میں پناہ لینے پر مجبور ہیں۔جنگ کے سبب یورپ میں ہلچل مچی ہوئی ہے، یوکرین کے شہر کے شہر کھنڈرات میں تبدیل ہوچُکے ہیں۔دوسری طرف، غزہ جنگ کو بھی اب سال ہونے والا ہے، یہ یک طرفہ جنگ ہے اور اسرائیل کی نہ ختم ہونے والی جارحیت جاری ہے۔غزہ کے پچاس ہزار سے زاید بے بس و معصوم شہری شہید ہوچُکے ہیں، جب کہ بے گھروں کا تو کوئی حساب کتاب ہی نہیں کہ بستیاں کی بستیاں کھنڈر بن چُکی ہیں۔ 

سلامتی کاؤنسل اور اقوامِ متحدہ قرار دادوں پر قرار دادیں پاس کر رہی ہیں، لیکن جنگ بند کروانے میں مکمل طور پر ناکام ہیں اور حد تو یہ ہے کہ اُنھیں خوراک اور ادویہ کی فراہمی کے لیے بھی اسرائیل کی منّت سماجت کرنی پڑتی ہے۔ اِسی لیے اقوامِ متحدہ کے اجلاس کا سب سے زیادہ فوکس انہی بڑی طاقتوں، امریکا اور روس پر تھا کہ وہ امن کی طرف کوئی ٹھوس اور دیرپا قدم اٹھاتی ہیں یا نہیں۔

اقوامِ متحدہ کے لیے جو سب سے اچھا جملہ استعمال کیا جاسکتا ہے، وہ یہی ہے کہ’’یہ ممالک کے لیے بیٹھک کا ایک اچھا فورم ہے۔‘‘ کیا یہ بالکل ناکام ہے؟ایسا بھی نہیں، کیوں کہ نیویارک میں جہاں عالمی رہنماؤں کی لمبی لمبی تقاریر ہوتی ہیں، وہیں اِس عالمی اجلاس کی سائیڈ لائن پر بہت سی ایسی باتیں بھی ہوتی ہیں، جن سے ممالک کو دوطرفہ امور حل کرنے کا موقع ملتا ہے۔اِس اجلاس میں اقوامِ متحدہ کے تمام ذیلی اداروں کے سربراہان بھی موجود ہوتے ہیں اور ممالک کو اپنے انفرادی مسائل حل کرنے کا بھی موقع ملتا ہے۔

مثال کے طور پر پاکستان آئی ایم ایف سے اپنا مجوّزہ پیکیج فائنل کرنا چاہتا ہے، تو اُس کی قیادت کو موقع ملا کہ وہ آئی ایم ایف کی سربراہ کو اعتماد میں لے سکے۔اِسی طرح ایران کے نئے صدر ایک مختلف ایجنڈا لے کر آئے کہ مغربی دنیا سے تعلقات کی راہ نکال سکیں اور اس کے لیے یہ نیویارک ایک اچھی جگہ ثابت ہو سکتی تھی، کیوں کہ باقی راہیں تو امریکی پابندیوں نے بند کر رکھی ہیں۔یاد رہے، ایران کے ایک سابق صدر، حسن روحانی نے 13سال قبل نیویارک ہی میں نیوکلیئر ڈیل کے لیے راہیں ہم وار کی تھیں۔اِسی طرح موسمیاتی تبدیلیوں، عالمی اقتصادی معاملات، منہگائی، تیل اور توانائی کے مسائل پر بھی غور کے مواقع ملے۔

تقریباً 78 برس قبل دوسری عالمی جنگ کی تباہ کاریوں کے پس منظر میں اقوامِ متحدہ قائم کی گئی تھی۔ اِس کا مقصد دونوں عالمی جنگوں کی تباہ کاریوں کا مداوا اور ایک نئی دنیا تعمیر کرنے میں مدد دینا تھا، جس میں ہر مُلک شریک ہوسکے۔ گو کہ اقوامِ متحدہ جنگیں روکنے اور جارحیت کے خاتمے میں تو ناکام ہے، لیکن اسے یہ کریڈٹ دینا غلط نہ ہوگا کہ اس کے قیام کے بعد سے اب تک کوئی عالمی جنگ نہیں ہوئی۔نیز، اِس کے صحت، تعلیم، موسمیات، مالیات اور اقتصادی امداد سے متعلق اداروں نے کئی ممالک کے حالات بدلنے میں اہم کردار ادا کیا ہے۔ 

حالیہ سالانہ اجلاس کا کلائیمکس وہ تقاریر تھیں، جو عالمی رہنماؤں نے اِس ’’سمٹ آف فیوچر‘‘ سے متعلق کیں۔دنیا یہ جاننا چاہتی ہے کہ ان رہنماؤں کے ذہن میں آنے والی دنیا کیسی ہے۔یہ تو طے شدہ ہے کہ ٹیکنالوجی نے جتنی ترقّی آج کی ہے، اتنی کبھی نہیں ہوئی۔ انٹرنیٹ اور آرٹیفیشل انٹیلی جینس اس کی صرف دو مثالیں ہیں۔ اِس سے قبل جس برق رفتاری سے کورونا ویکسین ایجاد ہوئی اور اس عالمی وبا پر قابو پایا گیا، وہ بھی طب کی تاریخ کا ایک درخشاں باب ہے۔

تاہم، جن مقاصد کے لیے یہ عالمی ادارہ وجود میں آیا تھا، وہ دوتہائی صدی گزرنے کے بعد بھی پورے نہ ہوسکے۔اور یہ سوال بار بار ذہنوں میں چبھتا ہے، خاص طور پر اُن ممالک کے عوام یہ سوالات ضرور اُٹھاتے ہیں، جو آج تک پس ماندہ ہیں کہ کیا جنگیں ختم ہوچُکیں، کیا معصوم اور بے بس شہریوں کا قتل رُک گیا، اسلحے کا بے دریغ استعمال ختم ہوچُکا، ہے، کیا غربت ختم ہونے کو ہے، کیا دنیا کے تمام ممالک یک ساں طور پر خوش حالی اور اعلیٰ معیارِ زندگی کی طرف بڑھ رہے ہیں اور سب سے بڑھ کر یہ کہ کیا ہماری زمین آج پہلے سے زیادہ محفوظ جگہ ہے۔

عالمی رہنماؤں کی تقاریر میں پائے دار ترقّی حاصل کرنے کے دعوے اُسی طرح موجود تھے، جیسے پہلے کیے جاتے تھے۔ اُنھوں نے باہمی تعاون بڑھانے پر بھی زور دیا اور یہ سارا عمل نہ صرف بے حد دل آویز ہے بلکہ وقت کی فوری ضرورت بھی۔اِس وقت امریکا، روس اور چین دنیا میں اہم مقام رکھتے ہیں اور دیکھا جائے، تو ترقّی کی مہمیز انہی کے ہاتھوں میں ہے، لیکن پھر بھی تنازعات اور مسائل کم نہیں ہو رہے۔

اِس سال یوکرین جنگ اور غزہ پر اسرائیلی جارحیت، اقوامِ متحدہ کے لیے سب سے بڑا چیلنج رہیں۔یوکرین جنگ کے نتیجے میں منہگائی بڑھی، جس نے امیر، غریب سب ہی ممالک کو شدید طور پر متاثر کیا۔اگر پاکستان، بنگلا دیش، سری لنکا، افغانستان، نائجیریا، برازیل اور وینزویلا عدم استحکام کا شکار ہوئے، تو بڑی طاقتیں بھی کم متاثر نہیں ہوئیں۔چھوٹے اور غریب ممالک کو دو طرح کی منہگائی کا سامنا کرنا پڑا۔ایک تو بنیادی یعنی کھانے پینے کی اشیاء کی قیمتیں آسمان چُھو گئیں اور دوسری افتاد یہ پڑی کہ گیس، تیل کی قیمتیں بھی ریکارڈ قائم کرنے لگیں۔ 

امیر ممالک نے تو روس سے رعایت پر تیل لے لیا، لیکن غریب مُلک پِستے ہی رہے۔ ہمارے مُلک میں آج بھی لوگوں کو وہ مناظر یاد ہوں گے کہ کیسے عام آدمی بجلی، گیس کے بل گلے میں لٹکائے سڑکوں پر بلبلاتے تھے اور حکومت کے پاس اُن کی داد رسی کے لیے کچھ نہ تھا کہ وہ خود بے بس تھی۔برطانیہ اور یورپ جیسے خوش حال اور فرسٹ ورلڈ خطّوں میں بھی لوگ منہگائی سے حواس باختہ ہوگئے۔

غریب ممالک میں اس کا نتیجہ شدید سیاسی عدم استحکام کی شکل میں نکلا، حکومتوں کے تختے اُلٹ گئے۔عوام کے لیے سمجھنا مشکل ہوگیا کہ یہ سیاسی جماعتوں کی غلطیاں ہیں، اُن کی کرپشن ہے، بدانتظامی ہے یا کچھ اور ہی معاملہ ہے۔اِسی لیے ہر طرف’’ تبدیلی‘‘ کے نعرے لگنے لگے، جس کا نتیجہ ظاہر ہے، سڑکوں ہی پر نظر آیا۔ اِس امر میں دو رائے نہیں ہوسکتیں کہ بہت سی حکومتوں کی بیڈ گورنینس اور نا اہلی بھی ایک اہم فیکٹر تھا، لیکن جو مُلک ابھی اپنے پیروں پر کھڑے بھی نہ ہوئے اور جن کا دارومدار بیرونی امداد پر تھا، وہ کیسے اِس خلا کو پُر کرتے، جو منہگائی کی وجہ سے پیدا ہوا کہ وہ تو سال بَھر قبل کورونا وبا کو بُھگت رہے تھے۔

اِس ضمن میں اقوامِ متحدہ اہم کردار ادا کر سکتی تھی، لیکن اُسے بڑے ممالک کی سیاست نے اتنا بے بس کردیا کہ وہ، وہ کچھ نہ کرسکی، جس کے لیے اُس کی بنیاد رکھی گئی تھی۔اُس کے آئی ایم ایف اور ورلڈ بینک جیسے ذیلی مالیاتی ادارے غریب ممالک کو اقتصادی اصلاحات اور اسٹرکچرل ریفارمز کے بھاشن تو دیتے رہے، لیکن اس شدید مشکل میں اُن بھاشنوں کا عام لوگوں کو کیا فائدہ ہوسکتا تھا۔یہ منہگائی بھی کسی عالمی وبا یا جنگ سے کم نہیں، لیکن اس کے باوجود اس ایشو پر اقوامِ متحدہ کا کوئی خصوصی اجلاس نہ ہوا کہ جس سے عدم استحکام کے شکار اور منہگائی کے مارے ممالک کے مسائل کا کچھ تو مداوا ہوتا۔ 

ٹھیک ہے، وہ جنگ تو نہیں رکوا سکتی تھی، لیکن فوری امداد کے راستے تو بند نہیں ہوئے تھے۔ مختلف ممالک، دوسرے ممالک پر اپنے دروازے بند کر رہے ہیں کہ قوم پرستی عروج پر ہے۔دائیں بازو کی جماعتیں یورپ اور دوسرے ترقّی یافتہ خطّوں میں طاقت ور ہوتی جا رہی ہیں، جو ان ممالک میں آنے والوں کے خلاف نفرت کی فضا پیدا کر رہی ہیں۔ کوئی غیرقانونی امیگریشن یا ہیومن ٹریفک کے حق میں نہیں، لیکن دنیا کو’’گلوبل ویلیج‘‘ بنانے کا جو سہانا خواب دِکھایا گیا تھا، اُسے اِس طرح نہیں بکھرنا چاہیے۔ اقوامِ متحدہ کا بنیادی مقصد ہی یہ تھا کہ دنیا بَھر کے لوگوں کو یک جا کیا جائے، راستے کھولے جائیں، قومیں اور مُلک پَھلیں پُھولیں، لیکن اب سب سمٹتے جا رہے ہیں۔

اقوامِ متحدہ کا حالیہ اجلاس ایسے سال میں منعقد ہوا، جس میں سب سے زیادہ حکومتیں بدلیں اور ہر نئی حکومت کا اپنا الگ ایجنڈا ہے۔ امریکا میں تو ابھی انتخابات ہونے والے ہیں اور دنیا کے ہر معاملے میں اس کا کردار فیصلہ کُن ہوتا ہے۔ عالمی طور پر تعاون کے لیے اُن چند رہنما اصولوں کا اعادہ کر لیا جائے، جو پہلے ہی اقوامِ متحدہ کے چارٹر میں موجود ہیں، تو بہت سے مسائل حل کیے جاسکتے ہیں۔ 

پہلا بنیادی اصول یہ ہے کہ کسی بھی تنازعے کے حل کے لیے جنگ کو بروئے کار نہیں لایا جائے گا، لیکن ہم نے دیکھا کہ یوکرین اور غزہ میں ایسا نہ ہوسکا۔ تکلیف دہ حقیقت یہ ہے کہ اقوامِ متحدہ کے پاس وہ قوّت نہیں ہے کہ اپنے کہے پر عمل کرواسکے۔ اس بے عملی نے نہ صرف عالمی امن قائم نہیں ہونے دیا، بلکہ خود اقوامِ متحدہ کی ساکھ بھی بُری طرح سے متاثر ہوئی۔ صرف چار سال پہلے ختم ہونے والی شام کی خانہ جنگی کے دَوران معاہدوں کی ایک لمبی فہرست ہے، جو اقوامِ متحدہ کے تحت ہوئے۔

وہاں عوامی حکومت قائم ہونی تھی، لیکن پانچ لاکھ افراد کی ہلاکت اور ایک کروڑ افراد کی بے گھری کے باوجود اس پر بھی عمل نہ ہوسکا۔ اس کا نتیجہ یورپ، مِڈل ایسٹ اور عمومی طور پر پوری دنیا بُھگت رہی ہے کہ تارکینِ وطن کا سیلاب رُکنے کا نام نہیں لے رہا۔اِسی طرح یوکرین اور غزہ پر اجلاس، قرار دادوں کی کمی نہیں۔

انسانیت کے مستقبل کو طے کرنے کے لیے بنیادی شرط یہ ہے کہ ہر انسان اور مُلک کا احترام ہو، چاہے وہ کسی بھی قوم، مذہب یا رنگ و نسل سے تعلق رکھتا ہو۔ سب کو برابر کے مواقع ملنے چاہئیں۔ ماضی کی تاریخ کتنی ہی دل فریب یا تلخ ہو، آج کی حقیقت اس سے بہت مختلف ہے، جس کا احساس کرنا ہوگا، وگرنہ قصّے کہانیوں ہی میں وقت گزر جائے گا۔ یہ کہنا بھی ایک خواب ہی ہوگا کہ ترقّی یافتہ ممالک کو فوری طور پر غریب اور کم ترقی یافتہ ممالک کو ایک پھونک مار کر اپنے برابر کر لینا چاہیے۔

جو ہوسکتا ہے، وہ یہ ہے کہ دونوں طرف سے تعاون ہو۔امیر اور ٹیکنالوجی سے آراستہ ممالک کو ایک پائے دار لائحۂ عمل کے تحت کم ترقی یافتہ ممالک کو اِس طرح سہارا دینا چاہیے کہ وہ آگے بڑھ سکیں، جب کہ غریب ممالک کے عوام کو بھی اپنی کوششیں تیز کرنی چاہئیں۔ کہیں آنے جانے سے کچھ ہوگا اور نہ ہی ہر وقت سیاست اور جوڑ توڑ سے بات بنے گی۔ انہیں مضبوط معاشی پروگرام پر عمل کرنے والی جماعتوں کو موقع دینا چاہیے۔ یہ سمجھنے کی ضرورت ہے کہ اب سیاست، درحقیقت معیشت ہے۔دوسرے ممالک کو حسرت سے دیکھنے کی بجائے اپنے ہی مُلک میں اپنی جنّت بنانے کی کوشش کریں۔