صبح سویرے شیر محمد کا فون آیا۔ آواز سے گھبرایا ہوا اور پریشان لگ رہا تھا۔ ہانپتے کانپتے ہوئے شیر محمد نے کہا۔ ’’یار گپوڑی غضب ہوگیا ہے۔ افسر صاحب کیلئے میں جو قربانی کی گائے لایا تھا، وہ عورت بن گئی ہے۔‘‘میں نے شیر محمد سے پوچھا ’’ابے سچ بتا۔ کل رات تو کسی ایمبسی کے فنکشن میں تو نہیں گیا تھا؟‘‘’’گیا تھا۔‘‘ شیرمحمد نے کہا ۔ ’’لیکن قسم سے، میں ٹن نہیں ہوا تھا۔‘‘میں نے پوچھا۔ ’’ابے تو ٹن نہیں تھا، تو پھر قربانی کی گائے عورت کیسے بن گئی۔‘‘شیر محمد نے کہا ۔ ’’مجھے لگتا ہے گائے آسیب زدہ ہے ۔ ہو بہو عورت کی سی آواز میں بات کرتی ہے۔ مجھے لگتا ہے کسی عورت کی آتمانے گائے میں بسیرا کرلیا ہے۔‘‘میں نے پھر سے پوچھا ۔ سچ سچ بتا شیرے۔
مجھے لگتا ہے، تو اب بھی ٹن ہے۔‘‘’’گپوڑی میں دنیا کوچکر دے سکتا ہوں، مگر تجھے چکر نہیں دوں گا۔‘‘ شیر محمد نے کہا ۔ ’’میں ٹن نہیں تھا۔ اب بھی میں ٹن نہیں ہوں۔‘‘شیر محمد کو ڈانٹتے ہوئے میں نے کہا ۔ ’’تو اگر ٹن نہیں ہے تو پھر گائے عورت کی آواز میں کیسے بولنے لگی ہے؟‘‘’’میں بہت پریشان ہوں گپوڑے بھائی۔‘‘
شیر محمد نے گڑگڑاتے ہوئے کہا ۔ ’’فوراً میرے پاس آجائو۔‘‘میں فوراً سے پیشتر ہانپتے کانپتے شیر محمد کے گھر پہنچا۔ وہ گھر کیا تھا، دراصل وہ افسر صاحب کی وسیع و عریض کوٹھی کا پچھواڑہ تھا۔ میرا دوست شیر محمد سینٹر بورڈ آف ریونیو میں بڑے صاحب بنام افسر کا پرائیویٹ سیکرٹری تھا۔ بورڈ آف ریونیو ایک بہت بڑا ادارہ ہے اور اس کا عمل دخل پاکستان کے ہر صوبے میں نمایاں نظر آتا ہے۔
ریونیو بورڈ کے وسیع ادارے کے کسی ذیلی محکمہ کےکرتا دھرتا کا شیر محمد قابل اعتماد اور بھر وسے کے لائق پرائیویٹ سیکرٹری تھا۔
ذیلی محکمہ کاافسر ریونیو بورڈ کے دو مشہور زمانہ دفتروں یا اداروں یا محکموں ایکسائز اینڈ ٹیکسیشن ، کسٹم اور انکم ٹیکس کے محکموں کا لمبے عرصے تک کرتا دھرتا رہ چکا تھا۔ افسر اعلیٰ کا کام کرنے کا اپنا اسلوب اور طریقہ کار تھا۔ وہ تعلقات عامہ یعنی پبلک ریلیشنز میں پختہ یقین رکھتا تھا۔ اور میرا دوست شیر محمد افسر اعلیٰ کا مکمل اعتماد کا آدمی تھا۔ وہ اپنے افسر کے ایسے تمام کام کرتا تھا جو افسر اعلیٰ خود کبھی نہیں کرتا تھا اور نہ کسی دوسرے ملازم پر اعتبار اور اعتماد کرتا تھا۔ شیر محمد اپنے افسر اعلیٰ کیلئے غیب سے بھیجی گئی آمدنی وصول کرتا تھا اور ایسی آمدنی کاحساب کتاب رکھتا تھا۔ اثر ورسوخ رکھنے والے اشخاص کو افسر اعلیٰ یعنی افسر کی طرف سے تحفے تحائف پہنچاتا تھا۔ اقتدار اعلیٰ کے ایوانوں تک تازہ اور خشک میوہ جات کے کھوکھے پہنچاتا تھا۔ افسر اعلیٰ کے اعلیٰ اشخاص کے لئے طائوس رباب اور رقص و سرود کی محفلیں جماتا اور سجاتا تھا۔ رنگین محفلوں میں ہم پلہ اداروں کے کرتا دھرتا گرم جوشی سے اپنے ہونے کا احساس دلواتے تھے۔ آج کل کے وزراء اور مشیروں کے بار ے میں، میں کچھ نہیں جانتا۔ مگر گزرے ہوئے زمانے کے وزیر کبیر ایسی دلفریب محفلوں میں مستانہ بن کر حصہ لیتے تھے۔
شیر محمد اس ملک کا آدمی تھا، اسلئے اس ملک کے طور طریقے جانتا تھا۔ رمضان المبارک کے مہینے میں شیر محمد محفلوں کی ہیئت بدل کے رکھ دیتا تھا۔ میل ملاقاتوں کا سلسلہ افطار سے شروع ہوتا تھا۔ افطار کی وضعداریاں ایسی کے خودمدعوئین طعام اور قیام سے لطف اندوز ہوتے، حیران ہوتے اور بار بار آسمان کی طرف دیکھتے۔ شہر کے نامور عالموں کو تراویح پڑھانے کیلئے مدعو کیاجاتا۔ تراویح کا اہتمام کوٹھی کے وسیع لان پر بچھے ہوئے عالیشان قالینوں پر ہوتا۔ تراویح کے بعد نئے رنگ اور ڈھنگ کی محفلیں جمتیں۔ ایسی محفلوں کے بارے میں، میں کچھ کہنا نہیں چاہتا۔ اور سچ بات یہ ہے کہ مجھے کچھ کہنے سے ڈر لگتا ہے ۔ کہیں غائب نہ ہو جائوں۔ بس اتنا سنا دوں کہ ایسی محفلیں افطار سے شروع ہوکر سحری پر ختم ہوتی ہیں۔
عیدالاضحی کی آمد سے کچھ روز پہلے شیر محمد اپنے افسر اعلیٰ کے لئے آٹھ دس بکرے اور دنبے اور ایک گائے لے آتا تھا۔ تمام افسران اعلیٰ کا کولیسٹرول بے انتہا بڑھا ہوا ہوتا ہے، اسلئے گائے کا گوشت کھانے سے پرہیز کرتے ہیں۔ گائے کا گوشت ڈرائیوروں، چپراسیوں ، مالیوں اور اردلیوں میں بانٹ دیا جاتا ہے۔آج کا قصہ ایسے ہی کسی موقع کا ہے ۔ میں نے زندگی میں پہلی مرتبہ شیر محمد کے منہ سے سنا کہ گائے بھی آسیب زدہ ہوسکتی ہے۔میں نے دوڑ لگائی۔ فوراً سے پیشتر شیر محمد کے گھر پہنچا۔ میں نے شیر محمد سے کہا، ’’میں نے اُجڑے ہوئے مکان اور لوگ آسیب زدہ دیکھے ہیں۔ کبھی کسی جانور کو میں نے آسیب زدہ نہیں دیکھا۔ تو مجھے آسیب زدہ گائے دکھا۔‘‘
آسیب زدہ گائے مکان کے پچھواڑے میں ایک درخت کے ساتھ بندھی ہوئی کھڑی تھی۔ بہت صحت مند اور خوبصورت گائے تھی۔ میں نے گائے کو چھوا۔ اچانک گائےغصے سے بول پڑی۔ ’’مجھے مت چھونا غلیظ انسان۔‘‘ڈرکر میں دو قدم پیچھے ہٹ گیا۔ گائے نے کہا ۔ ’’اللّٰہ نے تجھے آنکھیں دی ہیں، مگر تو دیکھ نہیں سکتا۔ تیرے دو کان ہیں، مگر سن نہیں سکتا۔ تیرے منہ میں زبان ہے، مگر تو بول نہیں سکتا۔‘‘شیر محمد نے گائے سے کہا۔ ’’قیامت کے روز میرا دوست گپوڑی نہیں، بلکہ میرا افسر، افسر علی افسر تیری پیٹھ پر سوار ہوکر پل صراط پار کریگا۔’’تیرے افسر کو میں پل صراط کے نیچے کھولتے ہوئے سمندر میں گرا دوں گی۔‘‘ دیدہ زیب گائے نے بپھرتے ہوئے کہا۔ ’’تم جیسے لوگوں نے مجھے دلاری بنت دلاری بناکر ہر جنم میں قربان کیا ہے۔‘‘