انسان جب اس دنیا میں آتاہے تو اس کی تمام تر عقل بھوک اور تکلیف میں رونے تک محدود ہوتی ہے۔ پھر وہ اپنی ٹانگوں پہ چلنا شروع کر دیتاہے۔ وہ رنگین چیزوں کی طرف بھاگتا ہے۔ وہ دوسرے بچوں سے حسد بھی کرتاہے۔ اس کے ماں باپ کسی اور بچے کو اپنی گود میں بٹھائیں تو احتجاج کرتاہے۔
ماں باپ اس کی معصوم حرکتوں پہ ہنستے رہتے ہیں۔ انہیں اس بات کا علم نہیں ہوتا کہ ساری زندگی انہوں نے اس اولاد کی وجہ سے ہنسنا اور رونا ہے۔ وقت گزرتا چلا جاتاہے۔ خواہشات بڑھتی چلی جاتی ہیں۔ روشنیوں والے کھلونوں کی جگہ شہوات لے لیتی ہیں۔ زمین، گھر اور گاڑیاں۔ ماں باپ دعا کرتے رہتے ہیں کہ اسے اس کی خوشیاں حاصل ہو جائیں۔ بہن بھائیوں میں سے جو دنیا میں پیچھے رہ جاتے ہیں، ان کیلئے وہ ملول ہوتے ہیں۔
اس دنیا میں ہر انسان کے کچھ نہ کچھ عقائد ہوتے ہیں۔ انسان کا دماغ اس طرح سے بنا ہے کہ وہ عقائد مان لینے کا رجحان رکھتاہے۔ وہ ایسی مافوق الفطرت اشیا کی طاقت کو مانتاہے، جو اس کی پانچ حسوں کی پکڑ میں نہیں آتیں۔ یہ عقائد کہاں سے آتے ہیں۔ زیادہ تر عقائد بچپن میں ماں باپ کی طرف سے اسے بتائے جاتے ہیں۔ جب ایک عقیدہ اس کے ذہن میں اتر جاتاہے تو پھر وہ اس کے مخالف کوئی عقیدہ سننے پر کبھی رضامند نہیں ہوتا۔ اگر اس کے عقیدے کے خلاف بات کی جائے تو وہ لڑپڑتا ہے۔ایسا بہت کم ہوتاہے کہ کوئی انسان بڑ اہو کر اس کائنات پہ غور و فکر کر کے اپنے عقائد اختیار کرے۔
زیادہ تر عقائد وہی ہیں، جو بچپن میں اسے سکھا دیے جاتے ہیں۔یہی وجہ ہے کہ اگر کسی افریقی قبیلے کے رکن سے آپ یہ کہیں کہ یہ آگ تمہیں کچھ نہیں دے سکتی، جس کے سامنے تم جھکتے ہو تو وہ اسی طرح غصہ محسوس کرے گا، جیسے ہم پیدائشی مسلمان نماز روزے کے خلاف بات سننے پر۔ میں نے مگر زندگی میں بہت کم مسلمان دیکھے جو علمی طور پر خدا پہ ایمان لائے ہوئے ہوں۔دوسری طرف جذباتی صورتِ حال ایسی ہے کہ مسلمانوں ہی کے دو فرقے ایک دن کو منانے کے حق اور مخالفت میں ایک دوسرے کو قتل کر ڈالیں۔ عقیدت اکثر اوقات خوف سے جنم لیتی ہے۔ انسان ایسا عقیدت مند ہے کہ جب ایک انسان سے عقیدت اختیار کر لے تو پھر اس کا پیر چاہے اس کے سامنے کپڑے اتار کے ناچے، وہ اسے بھی عین حق سمجھے گا۔ اس طرح کی وڈیوز انٹرنیٹ پہ بکھری پڑی ہیں۔اس دنیا میں آپ نے دیکھا ہوگا کہ ملحداور خدا پرست ایک دوسرے سے بہت لڑتے ہیں۔ میں نے کبھی ایسا ملحد بھی نہیں دیکھا، جو علمی طور پر غیر متعصب ہو کر ثابت کرنے کی کوشش کرے کہ اس دنیا کا کوئی خدا نہیں۔ وہ مسلسل مذہبی تصورات کا مذاق اڑاتا پایا جائے گا۔ اس کی ننانوے فیصد توانائی مذاق اڑانے پر ہی مرتکز ہوگی۔ تعصب اتنا کہ انسان کانوں کو ہاتھ لگائے۔
ایسے انسان دنیا میں نہ ہونے کے برابر ہیں جو خود سے کبھی تنہائی میں سوال کرتے ہوں کہ ہم کون ہیں اور یہاں اس دنیا میں کیا کر رہے ہیں۔یہ وہ واحد سوال ہے، جس کیلئے انسان کو یہ خیرہ کن عقل دی گئی۔ اگر ایک انسان ساری زندگی یہ بنیادی سوال بھی خود سے نہ کر سکے تو پھر معذرت کے ساتھ انسان اور چمپنزی میں کوئی فرق نہیں۔ یہ میں طنزاً نہیں کہہ رہا۔ حیاتیات اس بات کی تصدیق کرتی ہے کہ انسان گریٹ ایپس سے نکلا ہے۔سب گریٹ ایپس پرائمیٹس، جیسا کہ بندر میں سے نکلے ہیں۔ سب پرائمیٹس میملز سے نکلے ہیں یعنی دودھ پلانے والے جانوروں سے۔میملز ریپٹائلز میں سے نکلے ہیں اور ریپٹائلز سمندری جانوروں کی اولاد ہیں۔ اگر آپ ان سب کی پیدائش کے وقت کے علاوہ بھی دیکھیں تو ایک انسان میں اسی طرح سے دل، گردے، پھیپھڑے، جگر اور دل کا م کر رہے ہیں، جیسا کہ ایک بندر اور ایک بکرے میں۔
اس کا مطلب یہ ہے کہ انسان کو علمی رویہ اپنانا چاہئے تھا۔ اس کے برعکس اس نے ہمیشہ جذباتی رویہ اپنایا۔ ایک ہی مذہب کے ماننے والوں نے بھی ایک دوسرے پر کفر کے فتوے لگائے۔ساری زندگی اسلام کی تبلیغ کرنے والا بھی گستاخی کے الزام پہ ٹانگ دیا جاتا ہے۔ دوسری طرف ملحدوں کا بس چلے تو خدا پرستوں کو ذبح کر دیں۔
بچپن میں کھلونوں پر جھگڑنے والا بڑا ہو کر زمینوں پہ لڑتا ہے۔ ایک صاحبِ علم و فکر نے مجھ سے یہ کہا کہ یہودیوں نے سب سے زیادہ ایجادات کی ہیں۔ مسلمانوں نے کچھ ایجاد نہیں کیا۔ ان سے سوال یہ ہے کہ سب سے زیادہ ایجادات کرنے والوں کا رویہ کیا یہی ہونا چاہئے تھا جو غزہ میں اپنا یا گیا۔ کیا انہوں نے کبھی یہ کہا کہ مسلمان ہمارے ساتھ میز پر بیٹھیں اور اپنی زمینوں کا جھگڑا ہمارے ساتھ طے کریں۔ ایک شخص جو خود صاحبِ اولاد ہو دوسروں کی اولاد کو کیسے ذبح کر سکتاہے۔ ایک قوم نے اگر دوسری قوم سے جنگ ہی لڑنی ہو تو یہ جنگ جنگجوؤں نے لڑنا ہوتی ہے یا بچوں نے؟
لگتا ایسا ہی ہے کہ بہت ہی کم انسان عقل اور علم کے ٹیسٹ میں پاس ہو پائیں گے۔یہ سوال کبھی کوئی خود سے کرتا ہی نہیں کہ میں کون ہوں اور یہاں اس زمین میں کیا کر رہا ہوں۔ بس ہر طرف قتل و غارت ہے، جس کی طرف فرشتوں نے اشارہ کیا تھا کہ قتل و غارت کرنے والا کیسے اللہ کا نائب بنے گا۔