چیف آف آرمی اسٹاف جنرل سید عاصم منیر نے شہر کے دورے کے دوران کراچی کی تاجر برادری کی 100سے زائد کاروباری شخصیات سے ملاقات کی اور اہم اقتصادی امور اور پاکستان کی معیشت کو مضبوط بنانے کیلئے جاری کوششوں پر تبادلہ خیال کیا،تاجر رہنماؤں سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ایک سال پہلے میں نے آپ سب سے کہا تھا کہ مایوس نہ ہوں، کیونکہ مایوسی گناہ ہے، پاکستان کی خوشحالی کیلئے کبھی امید کا دامن نہ چھوڑیں، انہوں نے مزید کہا کہ اجتماعی کوششوں سے مشکلات کو شکست دینے میں مدد ملی ہے۔ معاشرے میں نا امیدی پیدا نہیں کرنی چاہیے۔ آرمی چیف نے مختلف شعبوں میں پاکستان کی غیر معمولی صلاحیتوں کو اجاگر کرتے ہوئے اس بات کا اعادہ کیا کہ ملک اپنے وسائل اور صلاحیتوں کے ذریعے عالمی سطح پر اپنا صحیح مقام حاصل کرنا چاہتا ہے۔ انہوں نے پاکستان کی مغربی سرحد پر کامیابی سے اسمگلنگ پر قابو پانے کے مثبت اثرات کو بھی نوٹ کیا جس سے معیشت کو فائدہ پہنچا ہے۔جنرل عاصم منیر نے پاکستان کے بین الاقوامی اتحادیوں بالخصوص چین، سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات کے ملک کی معاشی بحالی میںکردار کو بھی سراہا۔ انہوں نے کہا کہ بڑی عالمی کمپنیاں پاکستان میں سرمایہ کاری کر رہی ہیں، جو ملکی معیشت کیلئے ایک امید افزا مستقبل کا اشارہ ہے۔انہوں نے اس بات پر زور دیا کہ یہ کامیابیاں کاروباری برادری کے تعاون کے بغیر ممکن نہیں تھیں۔انہوں نے کراچی کی تاجر برادری کو یقین دلایا کہ ان کے چیلنجز اور خدشات کو ترجیحی بنیادوں پر حل کیا جائے گا۔کاروباری برادری کو دعوت دی کہ وہ معاشی ترقی کو آگے بڑھانے کیلئے حکومت کے ساتھ مل کر کام کریں۔ انہوں نے کاروباری شعبے پر زور دیا کہ وہ مزید سرمایہ کاری کو راغب کرنے اور پائیدار ترقی کو فروغ دینے کیلئے خصوصی سرمایہ کاری سہولت کونسل (ایس آئی ایف سی) کے ساتھ اپنا تعاون جاری رکھیں۔ سیشن میں اقتصادی چیلنجوں اور کاروباری ترقی کو تیز کرنے کے طریقوں پر توجہ مرکوز کی گئی، جس کا مقصد ملک کی معیشت کو فروغ دینا ہے۔تاجروں نے ملاقات کے مثبت نتائج بتائے۔ انہوں نے انکشاف کیا کہ آرمی چیف نے اگلے سال تک شرح سود کو سنگل ہندسے پر لانے کے منصوبے کا اعلان کرتے ہوئے ملک کے معاشی مستقبل کے حوالے سے ''اچھی خبر'' شیئر کی ہے۔جنرل عاصم منیر نے شرکاء کو یہ بھی بتایا کہ بجلی کی قیمتیں اگلے ماہ کے اوائل میں کم کر دی جائیں گی۔ زیر بحث اہم موضوعات میں سے ایک پاکستانی تاجروں اور کاروباری افراد کی بیرون ملک رکھی گئی رقم کی واپسی تھی۔ انہوں نے ان پر زور دیا کہ وہ مقامی معیشت کو متحرک کرنے میں مدد کیلئے اپنی سرمایہ کاری واپس لائیں۔ اس کے جواب میں، تاجروں نے مشورہ دیا کہ فنڈز کی واپسی کو آسان بنانے اور ملک کے اندر سرمایہ کاری کی حوصلہ افزائی کیلئے ''ایمنسٹی'' اسکیم متعارف کرائی جائے۔
دوسری جانب چاغی کو ایک اعزاز تو یہ حاصل ہے کہ پاکستان نے یہاں اپنے ایٹمی دھماکے کیے لیکن دوسرا فخر اس کو یہ بھی حاصل ہے کہ اسی علاقے میں ریکوڈک میں سونے اور کاپر کے بیش بہا خزانے بھی دفن ہیں۔ ریکوڈک کی زمین دنیا کی امیر ترین زمینوں میں سے ایک ہے کہ یہاں 12.3ملین ٹن تانبا یا کاپر اور 20.3ملین اونس سونا موجود ہے۔ ایک اندازے کے مطابق ان ذخائر کی قیمت 500بلین ڈالر ہے۔ جو کہ اس سے زائد ہو سکتی ہے لیکن ابھی تک سنجیدگی سے اس دولت کی طرف توجہ نہیں دی گئی۔ ہماری دیگر خرابیوں کے ساتھ ساتھ ایک برائی یہ بھی ہے کہ ہم جو کام خود کر سکتے ہیں اس کو بھی تن آسانی اور اپنے مفاد کی خاطر دوسروں کے حوالے کر دیتے ہیں۔ ہم نے اس بیش بہا خزانے کو غیر ملکی کمپنیوں کے حوالے کر دیا ہے ۔ ان کمپنیوں میں سے ہر ایک کا حصہ 37.5 فیصد ہے جبکہ اس عظیم منصوبے میں حکومتِ بلوچستان کا حصہ 25فیصد ہے۔ یوں ہم مہارت کے بدلے اپنی دولت کا 75فیصد حصہ بیچ کر اپنی قومی دولت ضائع کر رہے ہیں کیونکہ یہ مہارت بھی ہمارے پاس موجود ہے اور صلاحیت بھی اور بقول ڈاکٹر ثمر مبارک مند نہ ہمیں کسی ماہر نہ مہارت اور نہ کسی بیرونی صلاحیت کی ضرورت ہے۔تاجروں سے آرمی چیف کا ملنا اور انکے مسائل سننا اور ان کے ساتھ پاکستان کی اکانومی کو ڈسکس اور اس کو آگے لے جانے کیلئے تجاویز طلب کر نا اور تاجروں کو یقین دلانا یقیناً ایک مثبت اشارہ ہے۔میری چیف آف آرمی اسٹاف جناب عاصم منیر سے درخواست ہے کہ اب جب کہ ہم پی آئی اے ،اسٹیل ملز اور ایئر پورٹ کو آئوٹ سورس کرنے جا رہے ہیں ۔تو آئے دن PIAکے جہاز خراب ہوتے جا رہے ہیں کیوں؟اب جبکہاسٹیل ملز کوتوڑا جاچکا ہے اور شنید ہے کہ آہستہ آہستہ روزانہ 50ٹرک کا مال چوری ہو رہا ہے۔ اس معاملے کی تحقیقات کراوئی جائے کہ اس میں کو ن کون لوگ ملوث ہیں، اگر یہ ایسے ہی چلتا رہا تو جب اسٹیل ملز کی نیلامی ہوگی تو اس میں مشینری نام کی کوئی چیز نہیں ہو گی۔ لہٰذا اس پر بھی فوری توجہ کی ضرورت ہے ۔امید ہے آپ حکومت کی توجہ اس طرف مبذول کروائیں گےبلکہ گورنمنٹ سے خود اسٹیل ملزچلانے کا کہیں گے۔ ایک وقت ایسا بھی تھا کہ جب اسٹیل ملز منافع دے رہی تھی پھر کیا وجہ بنی کہ وہ خسارے میں جانے لگی اس کی بھی انکوائری ہونی چاہئے۔