• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

ایک محفل میں میرے ایک دوست نے احد چیمہ کے خلاف لمبی گفتگو کی ۔’’میں نے پوچھا ’’کیا انہوں نےتمہیں ذاتی طور پر کوئی تکلیف پہنچائی ہے ،کیونکہ میرے خیال میں تو وہ ایک جینئس آدمی ہیں اور اپنے زمانے سے ذہنی طور پر آگے ہونے کی وجہ سے انہیں بے شمار تکالیف اٹھانا پڑیں ‘‘۔کہنے لگا۔ ’’تم اسے نہیں جانتے ‘‘ میں نے اسے ایک واقعہ سنایا کہ ’’بلال حیدر بھکر میں ڈپٹی کمشنر تھے ،میری ان سے پرانی دوستی تھی ، میں ان کے پاس ایک دن بھکر پہنچا تو انہوں نے کہا کہ مجھے آج رات لاہور پہنچناہے ۔کیونکہ احدچیمہ کوگرفتار کرلیا گیاہے اور ہم نے اس پراحتجاج کرنا ہے ۔بلال حیدر بہت ایمان دار آفیسر ہیں ۔ میں نے پوچھا کیا نیب نے انہیں غلط گرفتارکیا ہے تو انہوں نے کہا سوفیصد غلط ، ان پر جوالزامات لگائے گئے ہیں ان میںسے ایک بھی درست نہیں ،انہوں نے کوئی بھی کام اپنے ذتی مفاد کیلئے نہیںکیا سب کام عوامی مفاد کیلئے کیے ‘‘۔میں ان کے ساتھ لاہور آیا جہاں تمام آفیسرز نے ان کی گرفتاری کے خلاف احتجاجی جلسہ کیا۔ ان کی رہائی کیلئے جو کمیٹی بنائی گئی ۔وہ دو لوگوں پر مشتمل تھی ۔ان میں ایک بلال حیدرتھے اور دوسرے مومن آغا۔علی جان جیسے ایماندار آفیسر نے نیب کے سامنے احد چیمہ کیلئے جو آواز بلند کی تھی ۔اس کا ایک زمانہ گواہ ہے۔وہ دوست کہنے لگا ۔ ’علی جان کو چھوڑو ۔’تم اب فون کرکے بلال حیدر سے پوچھ لو ۔ یقیناً اب وہ کہیں گے میں غلطی پر تھا ‘‘میں نے کہا ’’ابھی پوچھ لیتے ہیں‘‘،میں نےفون سپیکر پر لگایا اور بلال حیدر سے سوال کیا ’’مجھے صرف اتنا بتائیے کہ اب احد چیمہ کے متعلق آپ کا خیال کیا ہے ‘‘۔وہ کہنے لگے ۔وہی جو برسوں پہلے تھا۔وہ بہت ذہین لائق اور نہایت ایماندار شخص ہیں ۔باقی ان کے ساتھ جو کچھ ہوا اللہ تعالی نےانہیں اس کا بہت بہتر اجر عطا کیا ہے ‘‘۔وہ دوست کہنے لگا۔ ’’بلال حیدر یقیناً ان کے دوست ہیں ۔کسی اور بیورو کریٹ سے پوچھو ۔ میں نےآصف بلال لوھی کو فون ملا لیا ،انہوں نے بھی وہی کچھ کہا جو بلال حیدر نے کہا تھا۔میں نے اس کے بعد جواد اکرم کو فون کرلیا ۔ان سے پوچھا تو انہوں نے بلال حیدر سے بھی کہیں زیادہ احد چیمہ کی تعریف کی ۔اس کے بعد وہ دوست تو موڈ بنا کر چلا گیا مگر میں نے سوچا کہ ایسے اور کئی لوگ ہونگے سو مجھے احد چیمہ کے متعلق ایک کالم ضرور لکھنا چاہئے ۔ سو کالم حاضر خدمت ہے۔ احد چیمہ ایک زمیندار گھرانے کے چشم و چراغ ہیں ۔ ان کا تعلق پنجاب کے شہر حافظ آ باد سے ہے۔وہ لاہور میں پنجاب یونیورسٹی میں پڑھتے رہے اور اس کے بعدلندن سکول آف اکنامکس سےاکنامک اور پولیٹیکل سائنس میں اعلیٰ تعلیم حاصل کی۔ دوہزار ایک میں پاکستان ایڈمنسٹرٹیو سروس جائن کی اور اس کے بعدبڑے بڑے عہدوں پر فائز رہے۔ جب پرویز الہٰی پنجاب کے وزیر اعلیٰ تھے تو انہوں نے شرحِ خواندگی بڑھانے کےلئےعالمی بینک کے تعاون انتہائی کامیاب پراجیکٹ شروع کیا۔جب شہباز شریف پنجاب کے وزیر اعلیٰ منتخب ہوئے تو ان کی نظرصلاحیتوں سے بھرے ہوئے اس نوجوان پر پڑی ۔انہوں نے اسے پہلے ہائر ایجوکیشن کا سیکریٹری اور پھرلاہور کا ڈپٹی کمشنر لگا یا اوراس کے ساتھ لاہور ڈویلپمنٹ اتھارٹی کے ڈائریکٹر جنرل کا بھی چارج دیا۔احد چیمہ نے تھوڑےعرصہ میں لاہور کو بدل کر رکھ دیا ۔یقیناً تعریف تو وزیر اعلیٰ کی ہوئی ۔ہونی بھی اسی کی چاہئے کیونکہ انہی کی گوہر شناس نگاہ نے اس ہیرے کو تلاش کیا تھا۔انہوں نے گیارہ ماہ کے قلیل عرصہ میں لاہور میٹرو کی تعمیر کا کام مکمل کرایا۔ان کی شاندار خدمات کے اعتراف میں صدر پاکستان نے انہیں تمغہ امتیاز سے نوازامگر بے بنیاد الزامات پرنیب نے انہیں گرفتار کر لیا۔تین سال جیل میں رکھا۔ دوہزار اکیس میں ان کی ضمانت ہوئی اور دوہزار تئیس میں نیب نے انہیں تمام الزامات سے بری کردیا۔مگر اس کے بعد ملازمت سے ان کا جی بھر چکا تھا۔جس جرم بے گناہی میں انہوں نے تین سال گزارے وہ انہیں کون واپس دے سکتا تھا سوانہوں نے اسی سال سول سروس سے ریٹائرمنٹ لے لی مگرشہباز شریف جیسے ہی وزیر اعظم بنے، انہوں نےسب سے پہلے احد چیمہ کو اپنا مشیر مقرر کیا۔بیورو کریسی کے بھی بڑے مسائل ہیں ۔ان کیلئے ممکن نہیں ہوتا کہ وہ فوری طور پر کام کرا لیں،فائلوں کی ایک طویل آمدورفت ہوتی رہتی ہے اور پھر کہیں جا کر کوئی کام مکمل ہوتا ہے مگر وہ بیوروکریٹس جو ہر رکاوٹ کو دور کرتے ہوئے عوامی خدمت کا کام جلدی کرتے ہیں ،ان کے خلاف الٹے سیدھے مقدمات درج ہوتے رہتےہیں، جیسے احد چیمہ کے ساتھ ہوا۔

تازہ ترین