• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

پاکستان میں شنگھائی تعاون تنظیم کے اجلاس کا اسلام آباد میں کامیاب انعقاد پاکستان کیلئے بڑا اعزازہے۔ اس اجلاس کے انعقاد اور کامیابی کا سہرا وزیر اعظم شہباز شریف اور آرمی چیف جنرل سید عاصم منیر کے سر ہے۔ ان کے علاوہ وہ تمام لوگ بھی مبارکباد کے مستحق ہیں جنہوں نے اس اجلاس کے انعقاد اور کامیابی میں اپنا کرداربھرپور انداز میں ادا کیا۔ موجودہ حالات میں اس اجلاس کی پاکستان کیلئے انتہائی اہمیت ہے۔ اس اجلاس کے کامیاب انعقاد کی وجہ سے پاکستان کی عالمی تنہائی کا پروپیگنڈہ بری طرح ناکام ہوا۔ سب کو معلوم ہوا کہ دنیا میں بالعموم اور خطے میں بالخصوص پاکستان کی کیا اہمیت اور مقام ہے۔ اس کے علاوہ اس اجلاس کے اسلام آباد میں کامیاب انعقاد سے پاکستان کیلئے معاشی خوشحالی، تجارتی، ثقافتی اور باہمی تعلقات کی مضبوطی اور بہتری کی نئی راہیں کھلنے میں اب زیادہ دیر نہیں لگے گی۔ اس اجلاس کے موقع پر کچھ اہم ترین معاہدے بھی ہوئے ہیں، سی پیک2کے افتتاح سے پاکستان کی معاشی بہتری اور ان دیگر معاہدوں کی بدولت تجارت اور روزگار کے نئے دروازے کھلیں گے۔ خلاصہ یہ ہے کہ یہ اجلاس پاکستان کی ترقی اور خوشحالی میں سنگ میل ثابت ہوگا۔ یہاں یہ واضح ہونا ضروری ہے کہ موجودہ وزیر اعظم اور آرمی چیف کےنام دیگر بہترین اقدامات کے علاوہ اس اجلاس کے کامیاب انعقاد اور اس کے مابعد فوائد کے حوالے سے تاریخ میں ہمیشہ زندہ رہیں گے۔

26ویں آئینی ترمیم کو بعض لوگوں نےنہ صرف ضد اور انا کا مسئلہ بنایا بلکہ اس کو خواہ مخواہ سیاسی مفادات کی خاطر الجھانے کی کوششیں شروع کیں۔ ایسے لوگ البتہ کھل کر عوام کے سامنے آگئے کہ وہ ذاتی اورسیاسی مفادات کو عوام کے مفادات پر ترجیح دیتے ہیں۔ حکومت نے اس ترمیم سے عوام کے مفادات اور آسانیاں پیدا کرنے کے بارے میں عوامی آگاہی کیلئے اب تک کوئی مہم نہیں چلائی جو یقیناً حکومتی نااہلی کا اظہار ہوسکتا ہے۔ عوام کو اب تک معلوم ہی نہیں ہے کہ26ویں آئینی ترمیم کیا ہے اور اس سے عام آدمی کو کیا فوائد حاصل ہونگے۔ مخالفین کے پاس اس ترمیم سے اختلاف کی نہ کوئی دلیل ہے نہ ہی کوئی جواز ۔ بعض اس کو عدلیہ پر وار کرناکہتے ہیں، بعض وابستہ افراد اس کو اپنےپیشے یعنی آمدن کے نقصان سے جوڑتے ہیں۔ بعض اس ترمیم کو سیاسی نقصان اور آئین کی پامالی سے تعبیر کرتے ہیں حالانکہ یہ سب الزامات اور باتیں حقیقت کے برعکس ہیں۔ کچھ دن پہلے تک اس ترمیم کو چیف جسٹس فائز عیسیٰ کو توسیع دینے کی کوشش قرار دیاجاتا رہا۔یہ غلط فہمی پر مبنی پروپیگنڈا بھی اب دم توڑ کر جھوٹا ثابت ہوگیا ہے۔ بھلا اس ترمیم سے چیف جسٹس فائز عیسیٰ کا کیا مفاد اور کیا تعلق بنتا تھا لیکن کیا کہا جائے کہ جھوٹ پر مبنی بیانیے اور پھر جھوٹ کو پھیلانے والوں کونہ خوف خدا ہے نہ روز قیامت اور جھوٹ کے حساب کتاب کا کوئی ڈر ہے۔ جیسے کہ سوشل میڈیا پر چند پیسوں کے لئے بعض لوگ اپنا ایمان بیچتے اور اپنی آخرت کو برباد کررہے ہیں۔ آج اگر حکومت اور اس آئینی ترمیم کی حمایت میں ووٹ دینے والے کچھ بھی غلط کریں گے تو کیا ان کو یہ نہیں معلوم کہ کل وہ خود بھی اس کی زد میں آئیں گے اس لئے نہ وہ اس سے بے خبر ہیں نہ اتنے بیوقوف ہیں کہ اپنے کسی وقتی مفاد کیلئے اپنے لئے ہی گڑھا کھودیں کہ کل وہ خود اس میں گر جائیں۔ بلاشبہ عدلیہ میں اصلاحات نہ صرف خود عدلیہ بلکہ عام لوگوں کے مفاد کیلئے ضروری ہیں بلکہ اب ناگزیر ہیں اور دنیا میں اس کی کئی مثالیں بھی موجود ہیں۔

پی ٹی آئی نے آج بروز جمعہ ایک بارپھر ملک بھر میں اضلاع اور تحصیل سطح پر احتجاج کااعلان کیا ہے اور کیا ان احتجاجوں سے ان کو کچھ حاصل بھی ہوگا۔شنگھائی تعاون تنظیم کے اسلام آباد میں انعقاد کے موقع پر اس جماعت نے ڈی چوک پر احتجاج کااعلان کیا جس میں ان کے مطالبات بانی پی ٹی آئی کی رہائی اور مجوزہ آئینی ترمیم سے اختلاف تھا لیکن کھودا پہاڑ نکلا چوہا کے مصداق ان کی تان بانی پی ٹی آئی سے ملاقات پر ٹوٹی۔ اسی طرح ٹام سوازی نامی یہودی پیروکار کے بانی پی ٹی آئی کی صحت کے بارےمیں جھوٹے پروپیگنڈے کی پیروی میں اس بات کو ایشو بنایا گیاجو ڈاکٹروں کے ان کے معائنے کےبعد باطل ثابت ہوا۔ اب کے احتجاج میں مطالبات مکس اچار یا چٹنی کی طرح ہیں جو احتجاج کرنیوالوں کوبھی نہیں معلوم کہ وہ کیوں اورکس لئے احتجاج کررہے ہیں۔یہ بھی دیکھنا ہے کہ ملک بھر کے اضلاع اور تحصیلوں میں اس بلاوجہ کے احتجاج میں لوگوں کی کتنی ٹولیاں نکلتی ہیں۔جب سارے معاملات ملک کی ہائیکورٹس اور سپریم کورٹ کے علاوہ لوئر کورٹس میں چل رہے ہیں تو ان معاملات کے بارے میں احتجاج کرنے کی کیا تک ہے یہ سمجھ سے باہر ہے۔ پی ٹی آئی قائدین بھی یہ جانتے ہیں کہ احتجاجوں سے نہ تو بانی پی ٹی آئی اور دیگر کے کیس ختم ہونگے نہ ہی وہ باہر آسکتےہیں یہ تو بس بانی کے سامنے انگلی کٹاکر شہیدوں میں نام لکھوانے کا ڈرامہ ہے۔جہاں تک احتجاجوں سے مجوزہ آئینی ترمیم میں رکاوٹ ڈالنے کی کوشش کا تعلق ہے تو یہ مشق لاحاصل ہوگی ذرائع کے مطابق یہ ترمیم تو بہرحال ہوگی اور21اکتوبر تک اس کی منظوری کا قوی امکان ہے۔

تازہ ترین