• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

شنگھائی کانفرنس میں پاک، بھارت قربتیں

پاکستان کے وزیرِ اعظم شہباز شریف، وزیرِ خارجہ اسحاق ڈار اور بھارتی وزیرِ خارجہ جے شنکر کے درمیان خوش گوار ماحول میں بات چیت ہوئی۔طے ہوا کہ کرکٹ سے معاملات کا آغاز کیا جائے۔جے شنکر نے، جن کی نشست خاص طور پر تبدیل کر کے اسحاق ڈار کے ساتھ لگائی گئی تھی، پاکستانی حکومت اور عوام کا شان دار میزبانی پر شُکریہ ادا کیا۔ اطلاعات کے مطابق نشست کی یہ تبدیلی جے شنکر کی درخواست پر کی گئی تھی۔ 

یہ سب اُس ظہرانے میں ہوا، جو وزیرِ اعظم پاکستان نے شنگھائی کانفرنس کے مہمانوں کے اعزاز میں دیا تھا۔ یہی شنگھائی کانفرنس کی سب سے بڑی خبر ہے اور یہی اس کی سب سے بڑی کام یابی بھی ۔ یہ تو طے ہے کہ یہ دو پڑوسی ممالک کو نہ صرف ایک ساتھ بِٹھانے میں کام یاب رہی، بلکہ بات چیت کا آغاز بھی کروادیا، جس کا سلسلہ نو سال قبل ٹوٹا تھا۔ یہ بھی کہا جاسکتا ہے کہ چین نے دوستی کا حق ادا کردیا۔ 

گزشتہ دو سال میں چین اس طرح کی کئی پیش رفتیں کرچُکا ہے۔اس نے سعودی عرب اور ایران کے درمیان معاہدہ کروایا اور پھر بیجنگ میں فلسطین کے تمام دھڑوں کو یک جا کیا۔ بظاہر ظہرانے کی بات چیت کوئی بڑی سیاسی پیش رفت نظر نہیں آتی، لیکن اگر اُس بدترین تلخ ماحول کے پس منظر میں دیکھا جائے، جو جنوبی ایشیا کے ان دو پڑوسیوں کے درمیان جاری تھا، تو یہ ملاقات بہت اہم اور حیرت انگیز ہے کہ جے شنکر اسلام آباد آنے سے قبل کہہ چُکے تھے کہ وہ دو طرفہ معاملات پر بات نہیں کریں گے۔

یاد رہے کہ پچھلی حکومت میں دونوں ممالک کے تعلقات نچلی ترین سطح پر پہنچ گئے تھے اور بلاول بھٹّو کے دہلی جانے سے بھی کوئی بہتری نہیں آئی تھی۔اس کا بہت بڑا کریڈٹ میاں نواز شریف کو بھی جاتا ہے، جنہوں نے شنگھائی کانفرنس کے موقعے پر دئیے گئے ایک انٹرویو میں بڑی جرأت سے بات چیت کی ضرورت پر زور دیا، بلکہ انہوں نے تو یہ بھی کہا کہ مودی خود پاکستان آتے، تو زیادہ بہتر تھا، لیکن بہرحال اب نہیں، تو جلد یہ سلسلہ بھی شروع ہوگا۔اُن کی پیش گوئی درست ثابت ہوئی اور تمام تر دشواریوں کے باوجود برف پگھلی اور بات چیت ہوئی۔اِس امر میں کوئی شک نہیں کہ ابھی بہت سے کٹھن مراحل آنے ہیں، لیکن اگر کوشش جاری رہی، تو بہت کچھ ممکن ہے۔

15 اور 16 اکتوبر کو اسلام آباد میں ہونے والا شنگھائی تعاون تنظیم کا اجلاس عالمی اہمیت کا حامل تو تھا ہی، لیکن ایک عام پاکستانی کے لیے سب سے بڑا سوال یہ تھا کہ اس سے پاکستان نے کیا پایا۔ چین کے وزیرِ اعظم کا اسلام آباد آنا ایک اہم ترین سفارتی پیش رفت تھی کہ اس نے دونوں ممالک کے درمیان تعاون کی نئی راہیں کھولیں۔ دوسری اہم ترین بات بھارتی وزیرِ خارجہ جے شنکر کا پاکستان آنا تھا۔یہ کسی بھی بھارتی وزیرِ خارجہ کا نو سال بعد اسلام آباد کا دورہ تھا۔پی ٹی آئی نے’’ مودی کا جو یار ہے، وہ مُلک کا غدّار ہے‘‘کو باقاعدہ الیکشن بیانیہ بنایا۔ 

بانی پی ٹی آئی اس نعرے کو کراچی کے آخری جلسے تک استعمال کرتے رہے، حالاں کہ چار دن بعد اپنی جیت کی تقریر میں اُنہوں نے بھارت کو دعوت دی۔’’ تم ایک قدم بڑھائو، ہم دو قدم بڑھائیں گے۔‘‘پھر نریندر مودی کے دوسرے الیکشن میں کہا کہ’’ بی جے پی جیت گئی اور مودی آگئے، تو کشمیر کا مسئلہ حل ہوسکے گا۔‘‘ شریف فیملی اور بھارتی صنعت کاروں کے درمیان ڈیل کے عجب بے ہودہ، لایعنی اور جھوٹے قصّے سرکاری سرپرستی میں عام کیے گئے، یہاں تک کہ عام آدمی بھی اس جھوٹ کو گوئیبلز کا سچ ماننے پر تیار ہوگیا۔ پاکستانیوں کے ساتھ مشکل یہ ہے کہ وہ کسی بھی خبر کو بغیر غور کیے سچ مان لیتے ہیں اور حد درجہ جذباتی ہو جاتے ہیں۔

ایس سی او فورم پر دو طرفہ تنازعات پر بات چیت کی ایک طرح سے ممانعت ہے، اِس لیے اس کی گنجائش بہت کم تھی، لیکن پھر بھی گنجائش نکال لی گئی۔ غالباً اِن دنوں جو چاروں طرف ماحول ہے، اُس کا اپنا دبائو ہے۔شنگھائی فورم کا اجلاس پاکستان کے لیے ایک بڑا اور وسیع سفارتی موقع فراہم کر گیا۔’’ممبئی، دبئی، یورپ کوریڈور‘‘ کے دہلی اعلان کے بعد یہ ایک اہم ترین اجلاس تھا، جس میں اقتصادی تعاون کے ساتھ سیکیوریٹی اور دہشت گردی سے جنم لینے والے مسائل پر کُھل کر بات چیت ہوئی، جس کا ذکر مشترکہ اعلامیے میں بھی شامل ہے۔ برسوں بعد سفارتی بریک تھرو تھا کہ اتنے ممالک کے سرکردہ رہنما پاکستان آئے۔

یہ اعتماد کا بھی مظہر ہے کہ اقتصادی کم زوری اور امن و امان کے مسائل کے باوجود دنیا کے اہم ممالک کو یہ بھروسا ہے کہ پاکستان بہت پوٹینشل رکھتا ہے اور اس سے تعلقات رکھنا عالمی نظام کی ضرورت ہے۔ جو لوگ یہ پراپیگنڈا کر رہے تھے کہ پاکستان دیوالیہ ہوگیا یا ڈوب گیا، اُنہیں یقیناً شرمندگی ہوئی ہوگی۔ دراصل، دنیا سنجیدہ لیڈر شپ چاہتی ہے، جو معیشت پر فوکس کرے۔اِن دنوں مُلک کی خارجہ پالیسی کی سمت درست ہے اور آئی ایم ایف نے جو حالیہ قرض پروگرام دیا، وہ میرٹ ہی پر دیا گیا کہ اکانومی لانچنگ پیڈ پر ہے۔

چین کے وزیرِ اعظم کا پاکستان آنا بہت خوش آئند تھا۔ چین، شنگھائی فورم کا بانی ہے، لیکن کانفرنس سے دو روز قبل اُنہوں نے پاکستان آ کر دنیا کو پیغام دیا کہ چین، پاکستان کے ساتھ ہمیشہ کی طرح مضبوطی سے کھڑا ہے اور کراچی ائیرپورٹ جیسے انتہائی تکلیف دہ واقعات بھی دونوں ممالک کے تعلقات میں دراڑ نہیں ڈال سکتے۔

وزیرِ اعظم لی چیانگ کی موجودگی میں کئی دو طرفہ معاہدوں پر دست خط ہوئے، جب کہ گوادر ایئرپورٹ کا بھی افتتاح ہوا۔چینی وزیرِ اعظم نے کہا کہ شراکت داری کو نئی بلندیوں پر لے جائیں گے۔گزشتہ برسوں میں بہت سی سازشی تھیوریز پھیلائی گئیں، یہاں تک کہ چین اور پاکستان میں دُوریاں تک پیدا کرنے کی سازشیں کی گئیں، مگر تمام چالیں ناکام رہیں۔ چین اور پاکستان پہلے کی طرح قدم سے قدم ملا کر کھڑے ہیں۔ پاکستان چل رہا ہے، گو کہ رفتار بہت آہستہ ہے۔

اِس کانفرنس سے دو دن قبل سعودی وزیرِ سرمایہ کاری نے ایک بڑے تجارتی وفد کے ساتھ پاکستان کا دورہ کیا اور اس دَوران دو ارب ڈالرز سے زاید کے دوطرفہ معاہدے ہوئے۔ گزشتہ سالوں کا مایوسی بَھرا منظر نامہ اُٹھا کر دیکھیں اور اب ایس سی او کا کام یاب اجلاس سامنے رکھیں، تو صاف طور پر معاملات میں بہتری نظر آتی ہے۔اگر کوئی یہ سمجھتا ہے کہ شنگھائی اجلاس میں صرف پاکستان کے معاملات پر بات ہونی چاہیے تھی، تو یہ اُس کی لاعلمی ہے۔شنگھائی تعاون تنظیم نے اعتماد کی جو روشنی دِکھائی ہے، اُسے آگے بڑھانے کی ضرورت ہے، نہ کہ پھر اپنے خول میں سمٹ جانے کی غلطی کر گزریں۔

جنوبی ایشیا کے زیادہ تر عوام کی دل چسپی بھارتی وزیرِ خارجہ کی پاکستان آمد میں تھی۔ وہ دیکھنا چاہتے تھے کہ کیا اس دَورے سے پاک، بھارت تعلقات میں حائل برف پگھل سکتی ہے؟ دونوں ممالک کے عوام اور سیاست دانوں کی یہ غیر معمولی دل چسپی بذاتِ خود ایک بڑی کام یابی ہے۔جے شنکر کی آمد نے امکان پیدا کردیا کہ آج نہیں تو شاید مستقبل قریب میں تعلقات مزید بہتر ہونا شروع ہو جائیں گے۔

جے شنکر کی تقریر میں دہشت گردی کے حوالوں پر کسی کو حیرت نہیں ہونی چاہیے اور نہ ہی کسی تشویش یا غصّے کی ضرورت ہے کہ یہ اُن کا ایک اصولی موقف ہے، بالکل اُسی طرح، جیسے کئی معاملات پر ہمارے اصولی موقف ہیں اور ہم ہر سفارتی فورم پر اُن کا ذکر کرتے ہیں، لیکن اس کا یہ مطلب نہیں کہ طبلِ جنگ بج گیا یا بات چیت کے دروازے بند ہوگئے۔ 

اگر ایسا ہوتا تو بلاول بھٹو وزیرِ خارجہ کی حیثیت سے دہلی جاتے اور نہ ہی جے شنکر اسلام آباد آتے۔ یہ ذہن میں رہے کہ کشمیر کے نئے وزیرِ اعلیٰ عُمر عبداللہ کا بھی، جن کی پارٹی نریندر مودی کی پارٹی کو شکست دے کر اقتدار میں آئی ہے، یہی کہنا تھا کہ جے شنکر کو پاک، بھارت تعلقات پر ضرور بات کرنی چاہیے، حالاں کہ اُن کی پارٹی نے آرٹیکل 370 کی منسوخی پر الیکشن جیتا ہے۔

میاں نواز شریف نے بھارتی صحافی کو ایک طویل انٹرویو دیتے ہوئے پاک، بھارت تعلقات پر اپنے اُن خیالات کا اعادہ کیا، جن کے سبب وہ خاصی تنقید کی زد میں رہے ہیں۔یہ کس قدر حیرت اور افسوس کا مقام ہے کہ جب ایک بڑا قومی لیڈر اور تین بار کا وزیرِ اعظم مُلک کی بنیادی خارجہ پالیسی پر بات کرتا ہے، تو اُسے غدّار قرار دے دیا جاتا ہے۔گویا، مُلک اور عوام کے لیے ترقّی و خوش حالی کا سوچنا ہمارے ہاں ایک بڑا گناہ بنا دیا گیا ہے۔بھیک مانگنے کے طعنے دے کر اپنے رہنماؤں کو بے عزّت کرنا عین حب الوطنی قرار پائی ہے۔

وقت آگیا ہے کہ اب کُھل کر بات کی جائے اور اِس قسم کے جاہلانہ تصوّرات کو دفن کردیا جائے۔ ہر سیاسی لیڈر اور پارٹی کو حق ہے کہ وہ آئین میں رہتے ہوئے خارجہ پالیسی کا تعیّن کرے، اس میں غدّاری یا مودی کی یاری کا کیا لینا دینا ہے۔ بڑے بڑے استاد یا فن کار بھارت جاکر اپنے فن کا لوہا منواتے ہیں، کروڑوں روپے کماتے اور شہرت بھی حاصل کرتے ہیں، تو اسے مُلک و قوم کے لیے اعزاز قرار دیا جاتا ہے، پوری قوم خوشی سے ناچنے لگتی ہے، لیکن اگر سیاسی لیڈر یا حُکم ران دوطرفہ تعلقات اور عوام کی خوش حالی کی بات کرے، تو یہ غدّاری بن جاتی ہے۔ آخر ہمیں کب عقل آئے گی۔

دنیا کو دیکھیں، اپنے دوست ممالک کا جائزہ لیں، وہ کہاں سے کہاں جارہے ہیں اور ہم ابھی تک فضول باتوں ہی میں اُلجھے ہوئے ہیں۔درحقیقت، سب بیماریوں کا علاج ہے، سوائے تعصّب، خود فریبی اور جہالت کے۔اگر پاکستانی عوام اپنا دل اور حوصلہ بڑا نہ کرسکے، تو سب کچھ ملیا میٹ ہوجائے گا۔ حیرت کی بات تو یہ بھی ہے کہ ہم نے برطانیہ، امریکا، یورپ، عرب ممالک اور کینیڈا میں پاکستانیوں کو بھارتی کمپنیز میں خوشی خوشی کام کرتے دیکھا ہے، وہاں اُن کے ساتھ گُھل مل کر رہتے ہیں، لیکن پاکستان آتے ہی نامعلوم کیسے اُن کا سافٹ ویئر اپ ڈیٹ ہوجاتا ہے۔

کیا پاکستان اور بھارت کو اپنے تعلقات معمول پر لانے کی طرف قدم بڑھانا چاہیے اور اس میں شنگھائی تعاون تنظیم جیسے ادارے کتنے معاون ثابت ہوسکتے ہیں؟ میاں نواز شریف نے اپنے انٹرویو میں دو باتیں ایسی کیں، جو خاصی غور طلب ہیں۔ پہلی بات تو یہ کہ اگر نریندر مودی اِس مرتبہ پاکستان نہیں آئے، تب بھی اُن کے خیال میں وہ وقت زیادہ دُور نہیں، جب دونوں ممالک اس قسم کے رابطوں کی طرف قدم بڑھائیں گے۔ اور ایک قدم تو بڑھا ہے، چاہے کتنا ہی چھوٹا کیوں نہ ہو۔

دونوں طرف ایسے لوگ موجود ہیں، جو اس طرح کے اقدامات کے شدید مخالف ہیں اور یقیناً وہ اس سے اپنی سیاسی دانش وَری کا کپیٹل بڑھانا چاہیں گے، اِس بات کی پرواہ کیے بغیر کہ عوام کا کیا بنتا ہے یا حالات کا کیا تقاضا ہے۔نواز شریف نے اِس بات کا بھی ذکر کیا کہ اٹل بہاری واجپائی کے لاہور آنے اور اعلانِ لاہور کے بعد پاکستان سے غلطیاں ہوئیں۔

پاکستان میں یہ بڑے حوصلے کی بات ہے کہ کوئی اس طرح غلطیاں تسلیم کرے، حالاں کہ مغربی جمہوریتوں میں تو یہ ایک عام سیاسی روایت ہے۔مشکل یہ ہے کہ ہمارے ہاں اہلِ دانش، سیاسی رہنما اور تجزیہ کار’’مَیں نہ مانوں‘‘ کی رٹ لگائے رکھتے ہیں اور اپنے مؤقف سے ایک انچ بھی پیچھے ہٹنے کو تیار نہیں ہوتے، خواہ وہ خود جانتے بھی ہوں کہ وہ بالکل غلط ہیں۔

یہاں یہ سوال بھی اہم ہے کہ نواز شریف اگر خطّے کی بہتری اور اقتصادی حالات میں سنوار کے لیے بھارت سے تعلقات معمول پر لانا چاہتے ہیں، تو کون کون اُن کا ساتھ دینے کو تیار ہوگا؟ ویسے تو ہر شخص یہی کہتا ہے کہ امن اور اچھے پڑوسیوں کے بغیر ترقّی ممکن نہیں، لیکن جب اس پر عمل کا وقت آتا ہے، تو فوراً سب بھول بھال ماضی پر اَڑ جاتے ہیں۔ ادارے اور سیاسی جماعتیں ان تعلقات کو کہاں تک معمول پر لانا مُلک کے لیے بہتر سمجھتی ہیں، یہ دیکھنا اہم ہوگا۔وگرنہ نواز شریف یا کوئی اور کچھ بھی نہیں کرسکتا۔اِس امر میں کوئی شک نہیں کہ مودی صاحب نے بھی اِس سلسلے میں بہت ہی انتہا پسندانہ موقف اپنایا ہوا ہے۔

وہ کسی نیوٹرل فورم یا دو طرفہ بات چیت سے مسائل حل کرنے پر آمادہ نہیں۔اُنہوں نے تین سال قبل کشمیر میں آرٹیکل370 ختم کر کے نہ صرف خود کو، پاکستان کو بھی مشکل میں ڈال دیا۔ تاہم، کشمیر کے حالیہ انتخابی نتائج سے اُنہیں اندازہ ہوگیا ہوگا کہ سپریم کورٹ کا فیصلہ چاہے اُن کے حق میں آیا ہو، لیکن عوام کا فیصلہ، جو حتمی ہوتا ہے، اُن کے خلاف گیا۔

کانگریس اِس آرٹیکل پر بات چیت کی حامی ہے، اب یہ تو نہیں کہا جاسکتا کہ بھارت کی بانی جماعت اور نہرو کے پڑنواسے بھی غدّار ہیں۔ مشکلات دونوں طرف ہیں، لیکن خطّے میں ایسے بہت سے ممالک ہیں، جو پاکستان اور بھارت کو کسی حل کی طرف بڑھتا دیکھنا چاہتے ہیں، جس سے خطّے کی دیرینہ دشمنی ختم ہوسکے اور عوام سُکھ کا سانس لے پائیں۔